راہ کے ایجینٹ۔۔ نورخان کا ٹرک۔۔ قدرت اللہ شہاب کے ہچکولے۔۔

سچ تو یہ ہے،
=============


بشیر سدوزئی،
==================
نصف صدی قبل کا قصہ ہے جب ہمیں شعوری بے دار ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہو گا، ایک دن سنا بھائی نور خان نے ٹرک خرید لیا۔ ٹرک خریدنے کا گھر گھر چرچہ ہونے لگا خاص طور پر ہمارے گھروں میں تو شادیانے بجنے لگے کہ ہم بھی ٹرانسپورٹر بن گئے۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ خبر آئی ٹرک پنڈی جاتے ہوئے آزاد پتن کی سلائیڈ میں پھنسا اور دھنسا ہوا ہے۔ سلائیڈ آستہ آستہ چل رہی تھی اور ٹرک راولپنڈی جانے کے بجائے دلدل کے ساتھ دریا جہلم میں غرق ہونے کو تھا۔ بڑی کرین کا فی الفور یہاں پہنچنا محال تھا۔ چناں چہ جبو خان کی اولاد بھاگم بھاگ آزاد پتن پہنچی،


گھروں سے رسہ ڈوری، زنجیر ساتھ لائے ٹرک کو ان سے باند کر کھینچتے ہوئے سڑک تک لے آئے۔ ہم انہی دنوں آزاد پتن سے واقف ہوئے جہاں سے آئے دن پونچھ آنے جانے والی گاڑیاں، لاریاں پھنسنے کی خبر آتی رہی ۔ پھر شہاب نامہ پڑھا تو معلوم ہوا چیف سیکرٹری کا چارج لینے جونجال ہل آتے ہوئے قدرت اللہ شہاب بھی یہاں پھنس چکے اور ہچکولے کھاتے جیپ بڑی مشکل سے آزاد پتن سلائیڈ سے گزری تھی ۔ 75 سال بعد جون 2022 میں ہم راولاکوٹ میں ہیں کہ خبر آئی آزاد پتن سڑک کو ہر قسم کی گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے


۔اس مرتبہ چین کی تیار کردہ سڑک جدید چینی ٹیکنالوجی سمیت نو تعمیر ڈیم میں ڈوب چکی، مختصر یہ کہ قصہ ہی تمام ہوا۔ دریا کے تیز بہاو سے 75 سال کے دوران سلائیڈ چلتی اور ٹریفک کبھی معطل اور کبھی بند ہوتی رہی اور اب جو متاثرہ سڑک تھی وہ بھی ڈیم میں ڈوبنے لگی۔ ان پچھہتر برسوں میں آزاد پتن سڑک کی تعمیر و مرمت پر اربوں روپے خرچ ہوئے ہوں گئے پر کچھ بھی نہیں بدلا، کوئی سال ایسا نہیں گزرا جب پونچھ ڈویژن میں آنے جانے والی گاڑیاں آرام و آسانی سے گزری ہوں۔کئی حادثات نہ ہوئے ہوں اور قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہوا ہو۔ لیکن ہمارے خوابوں کے مرکز پاکستان کے حکمران پونچھ کے ان مجاہدوں، شہیدوں اور غازیوں، جنہوں نے سب سے پہلے کہا تھا ” کشمیر بنے گا پاکستان ” جنہوں نے الحاق پاکستان کی قرارداد پاس کی تھی کی اولادوں کو پاکستان کے ساتھ مضبوط رابطے کے لیے ایک سڑک بھی نہیں دے سکے۔ دوسری جانب بھارتی قیادت کشمیر کے ساتھ


رابطوں کو آسان اور مضبوط بنانے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے اس پر کالم نہیں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ایسے دو منصوبوں کا حوالا دیا جا رہا ہت جس سے قارئیں اور پاکستان کی سول سوسائٹی کو موازنہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ کس ملک کی قیادت کشمیر کے عوام کے ساتھ رابطوں کو مضبوط بنانے میں مخلص ہے، سنجیدہ ہے۔ بھارت لداخ کو وادی کشمیر کے ساتھ ملانے کے لیے قراقرم کے پہاڑی سلسلہ میں دنیا کی طویل سرنگ (ٹنل) پر کام شروع کر چکا۔ 932 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی جانے والی اس سرنگ کا آخری حصہ ساڑھے چودہ (50۔14) کلومیٹر طویل ہے جو زوجیلا پاس کے علاقے کو بائی پاس کرتے ہوئے سونامرگ کو لداخ کے ساتھ ملائے گا۔ بھارتی حکام کا دعوی ہے کہ 11 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر تعمیر ہونے والی یہ سرنگ بھارتی تاریخ کی سب سے طویل اور اونچی ہو گی،جس کو سرکار آئندہ عام انتخابات سے پہلے مکمل کرنا چاہتی ہے۔ کشمیر کے ساتھ رابطہ


کو مضبوط کرنے کے لیے بھارت کا دوسرا بڑا منصوبہ ریلوئے لائن کا مکمل ہونے والا ہے یہ منصوبہ دنیا کا عجوبہ بھی ہے۔ 27 ہزار 949 کروڑ روپے کی لاگت سے 272 کلو میٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کے لیے 927 پل اور 38 سرنگیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ ادھم پور سے بارہمولہ کے 161 کلومیٹر پر ریل گاڑیاں چلنا شروع ہو چکی۔ تاہم دوسرے فیز پر کام تیزی سے جاری ہے جو 111 کلو میٹر سلسلہ کوہ بانہال کے دشوار گزار ہمالیائی پہاڑی سلسلہ پر محیط ہے۔ اس میں 97 کلو میٹر سرنگوں پر مشتمل ریلوئے لائن کی 84 کلو میٹر سرنگوں کا کام مکمل ہو چکا۔اس لائن کے فاصلے کو مختصر کرنے کے لیے 1486 کروڑ روپے ( بھارتی کرنسی) کی لاگت سے دریا چناب پر دنیا کا بلند ترین پل تعمیر کیا گیا ہے جو دریا کی سطح


سے 359 میٹر اونچا ہے۔ 1315 میٹر طویل یہ پل،فرانس کے ایفل ٹاور سے 35 میٹر بلند ہے۔اس پل کی تعمیر میں 28 ہزار 660 میٹرک ٹن سٹیل کا استعمال ہوا۔ جو منفی 10 ڈگری سیلسیس سے 40 ڈگری سیلسیس تک کے درجہ حرارت برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گویا ایٹم بم کے علاوہ کسی دوسری ٹیکنالوجی سے اس پل کو تھوڑا نہیں جا سکتا۔اس پل کی عمر 120 سال، 100 کلو میٹر کی رفتار سے ریل گاڑی کے گزرنے اور 266 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلنے والی ہواوں، دھماکے کو اور شدید زلزلے کا دباوں برداشت کرنے کی طاقت ہو گی۔۔آزاد پتن روڑ کو مینگا منصوبہ نہیں جس پر کھربوں روپے خرچ ہوں۔ دریا جہلم پار پہنجاب کی حدود میں لگ بھگ دس کلومیٹر روڑ کی خراب صورت حال کو تقریبا پونی صدی کا وقت گزر گیا لیکن کسی حکومت نے بھی اس پر توجہ نہیں دی کہ یہاں سے انسان گزرتے ہیں۔ خدا رہ آزاد پتن روڑ کا مسئلہ ہمشیہ کے لیے حل کر دیں صرف


دس کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔آزاد پتن روڑ کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی تنگ و تاریک سواں روڑ چودہ کلو میٹر کشادہ کر کے پختہ کر لیں مسلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا، مقامی آبادی کو بھی فائدہ ہو گا اور پونچھیوں کو بھی جن کے اجداد نے قرار داد الحاق پاکستان منظور کر کے سب سے پہلے نعرہ لگایا تھا ” کشمیر بنے گا پاکستان “۔ یہاں سے مولوی اقبال کی اولاد گزرتی ہے، یہاں سے خادم حسین شاہ اور حسن شاہ گردیزی کے چانے والے گزرتے ہیں، یہاں سے محمد حسین خان آف دھڑے، میجر ایوب خان، کپٹن حیسن خان، کرنل خان محمد خان، فاتح میر پور خان آف منگ کی اولادیں گزرتی ہیں،


یہاں سے مولانا غلام حیدر جھنڈالوی، مولانا محمد یوسف ،مولانا کفل کڑی اور مولانا تھوراڑی کے پیروکار گزرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم خان اور الحاق پاکستان کے سب سے بڑے وکیل سردار عبدالقیوم خان کے مزارات کا راستہ بھی اسی سڑک سے گزرتا ہے۔ یہاں سے ان شہیدوں اور غازیوں کی اولادوں گزرتی ہیں جنہوں نے آزاد کشمیر کے خطہ کو آزاد کرایا، جن کے لیے بیگم اکبر جہاں نے کہا تھا کہ پہاڑیوں نے گڑبڑ کر دی ورنہ کشمیری نے تو فیصلہ کر لیا تھا۔ پونی صدی کے طویل دورانیہ کے دوران دس کلومیٹر سڑک ان پہاڑیوں کا حق نہیں جنہوں نے بغیر کسی بیرونی مدد کے پاکستان کی سرحد کو آزاد پتن سے درہ حاجی پیر کی بلندیوں تک توسیع کی۔ کیا یہ کم کارنامہ اور بے اثر خدمات ہیں ۔ایسے کام مت کریں کہ راہ کو موقع ملے اور اتنا پروپیگنڈہ کرے کہ لوگ اس کے سحر میں جکڑ جائیں اور اپنے ہی ابواجداد کے اقدام کو غلط کہنے لگیں۔

===========================