کمشنر کراچی نے ڈنڈا اٹھا لیا ۔ ہائی رائز بلڈنگز میں اسٹورز اور ریسٹورنٹس مالکان کی شامت ، انسپیکشن سروے شروع

کمشنر کراچی نے ڈنڈا اٹھا لیا ۔ ہائی رائز بلڈنگز میں اسٹورز اور ریسٹورنٹس مالکان کی شامت ، انسپیکشن سروے شروع

کشمیر روڈ پر ڈپارٹمنٹل اسٹور میں آتشزدگی سے کراچی انتظامیہ کو ہوش آگیا، کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو شہر بھر میں قائم شاپنگ مالز اور ہائی رائز بلڈنگز کی انسپیکشن کرنے کی ہدایت کردی۔


کمشنر کراچی نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے)، ڈائریکٹر سول ڈیفنس، تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور کنٹونمنٹ بورڈز کے افسران کو بھی مراسلہ ارسال کردیا، جس میں کہا گیا ہے

کہ آئندہ جیل روڈ پر قائم ڈپارٹمنٹل اسٹور جیسا واقعہ پیش نہ آئے
کمشنر کراچی نے ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی عمارتوں کا فوری معائنہ کیا جائے جہاں اسٹورز اور ریسٹورنٹ قائم ہیں، ہائی رائز بلڈنگز، ڈپارٹمنٹل اسٹور میں وئیر ہاؤس کہاں قائم ہے معائنہ کیا جائے۔


کمشنر نے ہدایت کی کہ وئیر ہاؤس کے حوالے سے بلڈنگ پلان میں اپروول ہے یا نہیں معلومات کی جائیں، غیر قانونی وئیر ہاؤس کے خلاف متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے ساتھ کارروائی کی جائے۔

=========================
اکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سُپر سٹور میں آتشزدگی کے واقعے میں ہلاک ہونے والے نوجوان کی شناخت محمد وسیع الدین کے نام سے ہوئی ہے۔ محمد وسیع الدین کراچی کے علاقے باغ رضوان گلشن بلاک کے رہائشی تھے۔
بدھ کی صبح لگنے والی آگ جمعرات کی دوپہر کو بھی سلگ رہی تھی۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جس سٹور سے آگ شروع ہوئی اس کے گودام میں آئل پڑا تھا جس وجہ سے ابھی تک آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

آتشزدگی کا نشانہ بننے والے اس پلازہ کے اوپر ایک سو ستر فلیٹ ہیں، جن میں کل چھ سو لوگ رہائش پذیر تھے۔ انتظامیہ نے سبھی ایک سو ستر فلیٹ خالی کروا لیے ہیں۔

اس واقعے میں تین لوگ زخمی بھی ہوئی ہیں لیکن ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

‘نوکری کا پہلا ہی دن آخری ثابت ہوا’
محمد وسیع الدین کی فیملی کے دوست محمد طیب نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ محمد وسیع کی عمر 21 سال تھی اور کراچی یونیورسٹی میں بی ایس کے ’انتہائی لائق‘ طالب علم تھے۔ ان کے والد ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور محمد سمیع چار بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے تھے۔

محمد طیب کے مطابق وسیع والد کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے اپنی تعلیم کے اخراجات خود برداشت کرتے تھے۔ کئی مقامات پر چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے تھے اور سپر سٹور کی اس ملازمت کے لیے وہ بہت پرجوش تھے۔ واقعے سے ایک روز قبل ہی ان کا انٹرویو ہوا تھا اور ملازمت ملی تھی۔ حادثے کے روز ان کا ملازمت پر پہلا دن تھا۔

محمد طیب کے مطابق محمد وسیع الدین انٹرویو کے مطابق آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

محمد طیب کہتے ہیں کہ ان کے گھر والوں کو واقعے کا شام کے وقت پتا چلا تھا۔ جس کے بعد وسیع الدین کی تلاش شروع کر دی گئی اور پھر پتا چلا کہ لاپتہ افراد میں واحد شخص محمد وسیع الدین ہی ہیں۔ پھر انھیں ہسپتالوں میں ڈھونڈا گیا۔

محمد وسیع الدین کے ایک دوست نسیم جہانگیر کہتے ہیں کہ ’مجھے ان کے بھائی نے فون کیا کہ کچھ پتہ کروں کیونکہ محمد وسیع کا فون مسلسل بند جا رہا ہے۔‘

ٹیلی وژن کھولا تو واقعہ کا پتا چلا
نسیم جہانگیر کہتے ہیں کہ ’میں نے بھی وسیع کا نمبر ملایا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ جب ٹیلی وژن آن کیا تو پلازے میں آتشزدگی کی خبریں چل رہی تھیں‘۔

نسیم جہانگیر کہتے ہیں کہ ’میں نے دوبارہ وسیع کے بھائی کو فون کیا تو فون ان کی والدہ نے اٹھایا اور وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ وہ مجھے بار بار کہہ رہی تھیں کہ وسیع صبح اپنے سب سے بہترین کپڑے پہن کر گیا تھا۔ اس کا پہلا دن تھا وہ بہت تیار ہوکر کام پر گیا تھا۔‘

نسیم جہانگیر کے مطابق بعد میں وسیع کے بھائیوں نے ان کی لاش کی شناخت کی اور جمعرات کی دوپہر کو ان کی تدفین کر دی گئی۔

محمد وسیع الدین کے بڑے بھائی محمد مرتضیٰ صدیقی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں جب واقعے کا پتا چلا تو ہم لوگ ہسپتال گئے تو اس وقت محمد وسیع الدین کی لاش ہسپتال کی ایمرجنسی کے گیٹ پر ایک چارپائی پر پڑی تھی۔ وہاں پر موجود لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس کی لاش چار گھنٹے سے اسی طرح پڑی ہوئی تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہپسپتال میں کوئی انتظامیہ وغیرہ نہیں تھی۔ ’وہاں پر ایک پولیس اہلکار کھڑا تھا۔ اس نے ہمیں کوئی کاغذ وغیرہ نہیں دیا بس ایدھی والوں سے کہا کہ اس کی لاش کو لے جاؤ اور ایدھی والے بھائی کی لاش کو سردخانے لے گئے۔‘محمد مرتضیٰ صدیقی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ابھی تک کسی نے کچھ نہیں بتایا کہ کیا ہوا، کیسے ہوا، کیوں ہوا اور کب ہوا۔ ہمارے ساتھ ابھی تک کسی حکومت، انتظامیہ کے نمائندے نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ بظاہر تو جو واقعات ہمیں لوگوں نے بتائے ہیں وہ یہ ہی ہیں کہ بھائی کو کوئی مدد نہیں ملی تھی۔ وہ غالباً تڑپ تڑپ کر جان دے گیا۔‘ محمد مرتضیٰ صدیقی کا بتایا کہ ’ابھی بھائی کی تدفیق کرکے آیا ہوں۔ والد، والدہ اور بہن کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ ابھی تک سنبھل نہیں رہے ہیں۔ دعا کیجیئے کہ وہ اب خیریت سے ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کوئی امیر لوگ نہیں ہیں۔ میں نے بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ کام کیا تھا۔ میرے دوسرے بھائیوں نے بھی کیا تھا اور اب محمد وسیع بھی ایسے ہی کر رہا تھا۔ وہ بی ایس کا طالب علم تو تھا مگر اس کو کمپیوٹر کا بہت شوق تھا۔‘

اپنا سامان جلنے کا تماشا دیکھ رہے ہیں
آتشزدگی کا نشانہ بننے والے پلازہ کے اوپر ایک سو ستر فلیٹ تھے، جن میں کل چھ سو لوگ رہائش پذیر تھے۔

فرقان اسلم اس رہائشی عمارت کی سوسائٹی کے صدر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آگ پر جمعرات کی دوپہر تک قابو نہیں پایا جا سکا تھا۔

فرقان اسلم کے مطابق اس عمارت میں دو کمروں کے فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو اڑھائی کروڑ اور تین کمروں کے فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو ساڑھے تین کروڑ روپیہ ہے۔ ان کے مطابق اس میں ایک سو ستر خاندانوں کا قیمتی ساز و سامان جس میں نقدی، زیور اور دیگر سامان موجود ہے جو جل کر راکھ ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

’جو گھروں سے رزق حلال کمانے گئے تھے، اب ان کے خاندانوں کا کیا بنے گا‘

کراچی کے ہوٹل میں آتشزدگی

کراچی: ہوٹل میں آتشزدگی، ہلاکتوں کی تعداد 12 ہو گئی

وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارا سامان جل رہا ہے۔ رہائشی حصے سے دھواں اٹھ رہا ہے اور آگ کے شعلے نظر آرہے ہیں۔ فائر بریگیڈر کا عملہ اور دیگر لوگ اس آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ابھی تک ایسے کوئی اثرات نظر نہیں آ رہے کہ آگ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘

فرقان اسلم کہتے ہیں کہ کئی خاندانوں نے رات اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں گزاری ہے۔ وہ لوگ رات گزارنے کے بعد صبح سویرے ہی موقع پر پہنچ گئے تھے۔ کئی خاندانوں نے اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے زیور وغیرہ رکھا ہوا تھا اس کے متعلق خدشہ ہے کہ وہ سب کا سب جل چکا ہے۔

وہ کراچی کی انتظامیہ، فائر بریگیڈر کے عملے کو بروقت پہنچنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ جن ’لوگوں کا سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا ان کا کیا بنے گا؟‘

عمارت خطرناک ہوچکی ہے
کراچی کے ڈپٹی کمشنر ایسٹ نے ایس ایس پی ایسٹ کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ آتشزدگی کا شکار ہونے والی عمارت خطرناک ہو چکی ہے اس لیے اس جگہ کا گھیراؤ کر کے یہاں عام لوگوں کا داخلہ بند کیا جائے۔

پولیس نے اطراف کی اہم سڑکوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا ہے۔ کشمیر روڈ سے جیل چورنگی آنے والی اور شارع قائدین سے جیل چورنگی جانے والی سڑکوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا ہے۔ اہم سڑکوں کے بند ہونے کی وجہ سے اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ چکا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر فیروز آباد اسماء بتول کے مطابق آگ لگنے کی وجہ سے عمارت میں دراڑیں پڑ گئیں ہیں۔ عمارت کا بیسمنٹ کا حصہ مکمل طور پر کمزور ہو چکا ہے۔ عمارت کے اطراف کے مکانات خالی کرائے جا رہے ہیں۔ بیسمنٹ میں قائم پانچ سے زائد پلر متاثر ہوئے ہیں۔

اسماء بتول کے مطابق 21 گھنٹے سے زائد وقت تک لگی رہنے والی آگ نے بیسمنٹ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ 15 منزلہ عمارت کے رہائشیوں کو سامان نکالنے کے لیے احکامات جلد جاری کیے جائیں گے۔ ابتدائی سروے کے مطابق عمارت کے بیسمنٹ کی حالت دیکھ کر عمارت کی نگرانی شروع کر دی گئی ہے۔

’ضلع انتظامیہ اور ایس بی سی اے کا عملہ آگ بجھنے کے بعد فوری اقدامات کرے گا‘
فائر بریگیڈر عملے کے مطابق جب سے آگ لگی ہے فائر فائٹرز کی ایک بار ڈیوٹی تبدیل ہوئی ہے۔ ریسکیو کا عمل کرتے ہوئے یہ بھی کوشش کرہے ہیں کہ عمارت کو نقصان نہ پہنچے۔ فائر برگیڈ کی کچھ گاڑیاں کورنگی میں لگنے والی آگ کو بجھانے کے لیے گئی تھیں اور وہاں سے واپس آنے والی گاڑیاں بھی آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت بھی تیرہ گاڑیاں آگ بجھانے اور کولنگ کے عمل میں مصروف ہیں۔ بیسمنٹ سے فرسٹ فلور کا راستہ بنانے کی کوشش کرہے ہیں تاکہ جلد آپریشن مکمل کر سکیں۔

چیف فائر مین مبین کے مطابق آگ پر قابو پانے میں مزید پانچ سے چھ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

موقع پر موجود عینی شایدین کے مطابق اس وقت عمارت سے نکلنے والا دھواں اطراف کے علاقے میں پھیل گیا ہے جس سے سڑک سے گزرنے والے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

کراچی انتظامیہ کے مطابق آگ پر قابو پانے کے بعد واقعہ کے حوالے سے مکمل تحقیق و تفتیش کی جائے گئی۔ واقعہ کے ملزمان کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

بی بی سی نے عمارت کے مالک اور انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ قائم نہیں ہو سکا۔

کراچی پلازہ میں آتشزدگی: آگ قابو میں پر پندرہ منزلہ عمارت کو شدید نقصان


=======================================