مقبوضہ کشمیر معمول پر، گلگت، صوبہ اور سیاسی قیدی۔ بشیر سدوزئی،

سچ تو یہ ہے،

مقبوضہ کشمیر معمول پر، گلگت، صوبہ اور سیاسی قیدی۔

بشیر سدوزئی،

امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیاء کے کانگرس میں بیان کے بعد کہ کشمیر میں حالات معمول پر آ رہے ہیں، کشمیری حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ بھارت وزیر داخلہ امیت شاہ کی یقین دہانی کے مطابق کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کی جا رہی ہے یا محض نمائشی اقدامات ہو رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو سری نگر جامعہ مسجد میں نماز جمعہ کی اجازت دینا اور کشمیری رہنماء مرحوم سید علی گیلانی کے گھر سے اسکورٹی کو ہٹانے جیسے اقدامات کو کشمیر کی صورت حال کو نارمل ہونے سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔ 5 اگست 2019ء کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے کہ ان دونوں مقامات سے اسکورٹی کو ہٹایا گیا۔ جامعہ مسجد سری نگر کے امام میر واعظ عمر فاروق جو خطبہ جمعہ کے موقع پر کشمیر کی تازہ صورت حال پر گفتگو کرتے تھے ابھی بھی نظر بند ہیں ۔ اس صورت حال پر محبوبہ مفتی کہنا ہے کہ خاموشی کو نارملسی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ نارملسی کا ایک جھوٹابیانیہ بنانے کے لیے کشمیری عوام کو دہشت زدہ کرکے خاموش کرانے کے بعد بھارتی حکومت کا یہ کہنا کہ حالات اب معمول پر ہیں، تضادات کا مجموعہ ہے۔ کانگریس کشمیر کے سربراہ غلام احمد میر نے اس بات کو حیران کن قراردیا کہ ایک طرف بھارتی حکومت علاقے میں حالات معمول پر لانے کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری طرف کہتی ہے کہ جونہی حالات معمول پر آئیں گے جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کی جائے گی جو تضادات کی نشاندہی کرتا ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر نہیں ۔ یہ محض خاموشی ہے، جو کسی بھی وقت بڑے طوفاں کا پیش خیمہ ثابت ہو گی ۔۔ سری نگر میں جو لاوا پک رہا ہے آتش فشاں کی صورت میں ابل سکتا ہے۔ اس طرح کی صورت حال ماضی میں بھی دیکھنے میں آئی جب طویل وقفے کے بعد وادی پرتشدد واقعات اور فسادات کی لپیٹ میں آئی۔۔ یہ تو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال ہے، ادھر آزاد کشمیر میں بھی سیاسی کارکن مختلف امور میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ راولاکوٹ میں قوم پرست رہنماء سردار لیاقت حیات خان، ساتھیوں سمیت جیل میں ہیں۔ راولاکوٹ انتظامیہ کا یہ عمل بین الاقوامی خبر بنی۔سلاخوں کے پیچھے لیاقت حیات خان اور ان کے ساتھیوں کی ایک تصویر کے ساتھ ،ساوتھ ایشیا پیس فورم کینیڈا نے لکھا کہ جب تک حکومت من مانی طور پر یہ فیصلہ کرتی رہے گی کہ کون سا عمل قانونی ہے اور کون سا غیر قانونی، تب تک جن لوگوں کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا جائے گا وہ سیاسی قیدی ہیں۔ تو سادہ اور آسان زبان میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سیاسی قیدی ہیں تو اس طرف بھی ہیں ۔۔۔اگر کوئی گروہ بین الاقوامی سطح پر یہی پیغام دینے کی کوشش کرتا ہے تو حکومت کو تو اپنا کندھا پیش نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کوشش کی جا رہی ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کے پانچواں صوبے کا نوٹیفکیشن 23 مارچ 2022 یا اس سے قبل جاری کر دیا جائے۔ گلگت بلتستان کی اسمبلی نے اس حوالے سے حال ہی میں ایک قرار داد بھی منظور کی ہے ۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید اس قرار داد کی فائل کے ساتھ اپنی کابینہ سمیت اسلام آباد میں پڑاو ڈالے ہوئے ہیں۔۔ وزیر اعلی کو ادراک ہو گا کہ 15 لاکھ آبادی کے عبوری صوبے کے عوام کو فیڈریشن میں کتنے فوائد حاصل ہوں گے جہاں 12 کروڑ آبادی کی ایک یونٹ سے دیگر تین یونٹ پہلے ہی نالاں ہیں۔ ممکن ہے گلگت بلتستان کی قیادت یہ محسوس کر رہی ہو کہ عبوری صوبہ بننے کے بعد ہمیں سینیٹ میں دیگر اکائیوں کے برابر نمائندگی ملے گی خام خیالی ہے۔۔ برحال فیڈریشن میں جتنے بھی نمائندے بیٹھے ہوں گے عبوری ہی ہوں گے جن کو سینٹ یا اسمبلی میں ووٹ دینے کا اختیار بھی ہو گا یا نہیں اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اقوام متحدہ نے 1950 کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی ایسی ہی ایک صوبہ بناوں قرار داد کو مسترد کر دیا تھا۔ جس کو ہم آج تک حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیا بھارت گلگت اسمبلی کی قرار داد کا حوالہ نہیں دے گا۔ خالد خورشید ہوں یا ان کے پیش رو حافظ حفیظ الرحمن اور سید مہدی شاہ گلگت بلتستان کے نہیں پاکستان کی سیاسی جماعت کے مقامی نمائندے ہیں جس کو گلگت بلتستان کے عوام کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی نہیں۔ ان کے اختیار کا منبع بنی گالہ یا کوئی اور مقام ہے۔ یہ مقامات قدرت نہیں رکھتے کہ کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ کریں ۔ خالد خورشید کا یہ اقدام ایسے ہی ہے جیسے سردار عبدالقیوم خان نے 70 کی دہائی میں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگایا تھا ۔ اس وقت کچھ ہوش مندوں نے بڑی عاجزی سے عرض کیا تھا کہ قبل از وقت مسلمان کے لیے سب سے اچھا اور پسندیدہ عمل نماز بھی جائز نہیں، تو آپ کے اس نعرے بازی میں برکت کیسے ہو سکے گی لیکن۔ وقت نے دیکھا کہ اس عمل میں برکت نہیں جب تک سردار صاحب کی ضرورت تھی کام لیا جاتا رہا باقی اللہ ۔۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو کام قومی مفاد میں نہیں ہوتے وہ کٹ پتلیوں سے لیے جاتے ہیں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کا قیام ہی کٹ پتلیاں پیدا کرنا تھا تاکہ فیصلہ سازی کا اختیار کشمیریوں سے لے لیا جائے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کے کسی بھی لیڈر کو مسئلہ کشمیر کے روح کو سمجھنے کی صلاحیت نہ تھی یا دانستہ سمجھنے نہیں چاہ۔ 1947 میں جب کشمیریوں نے انقلابی حکومت کے زیر انتظام ڈوگرہ کے خلاف بغاوت کی جس پر بھارتی فورسز بھی قابو نہ پا سکی تو بھارت مقدمہ کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیریوں کی انقلابی حکومت کے صدر سردار محمد ابراہیم خان کو اس کا جواب دینے کے لیے یو این او بھیجا ۔ جنہوں نے زبردست طریقے سے موقف پیش کیا اور کہا کہ مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر 48،471 مربع میل پر مشتمل ایک ریاست، جو سیاسی وحدت اور اکائی ہے۔ اس وحدت کی بحالی اور کشمیری عوام کے پیدائشی بنیادی حق، حق خودارادیت کے حصول کا مسئلہ ہے۔ کشمیری عوام ہی مسئلہ کشمیر کے اہم اور بنیادی فریق ہیں اور میں آزاد کشمیر کی عبوری حکومت کا سربراہ اور کشمیریوں کا نمائندہ ہوں۔ یہ تھی قائد اعظم کی کشمیر پالیسی اور ان کی حکومت کا کشمیر کے بارے میں جان دار موقف، قائد اعظم محمد علی جناح کو اس بات کا مکمل ادراک اور اطمینان تھا کہ پاکستان اور جموں و کشمیر ایک دوسرے کے لیے لازم ملزم ہیں ۔ لیکن بھارتی قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے وہ سیاسی حکمت عملی پر عمل پہرا تھے کہ کشمیر پر بات کرنے کے لیے کشمیریوں کو آگئیں کیا جائے۔ ان کی زندگی نے ساتھ نہ دیا اور کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ مشتاق گورمانی کے ہاتھ میں آ گیا ۔ وزیر بے محکمہ نے سب سے پہلے گلگت بلتستان کو مکمل اور آزاد کشمیر کو جزوی بطور محکمہ اپنے قبضہ میں لینے کے لیے سردار محمد ابراہیم خان اور چوہدری غلام عباس کو کراچی بلا کر ایک معائدے پر دستخط لیے جسے معائدہ کراچی کہا جاتا ہے۔لیاقت علی خان حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ لینے کے چکر میں ۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ۔۔۔۔ کشمیر بھی دے بیٹھے حالاں کہ پٹیل تو حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ بھول جانے کی صورت میں کشمیر تشتری میں سجا کر دے رہا تھا دلی میں خود پیش کش کرنے کے علاوہ لارڈ مونٹ بٹن کو پیغام دے کر لاہور بھیجا لیکن بات اور حکمت سمجھ میں نہ آئی۔۔ اس کے بعد تمام تر بیانات کے باوجود لگتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر کشمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک کا مائنڈ سیٹ ایک جیسا ہے۔21 اگست 1957 S/3869 کو، بھارتی حکومت نے سلامتی کونسل کو خط بھیجا کہ پاکستان میرپور میں منگلا کے مقام پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے وہ اس علاقے کے وسائل استعمال کرے گا جس سے جموں و کشمیر کے عوام کو نقصان اور پاکستانی عوام کا فائدہ ہو گا۔ اسلام آباد کے یہ اقدامات 17 جنوری 1948 کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی ہیں۔یہ خط ابھی ٹیبل پر ہی تھا کہ چند سال بعد 1960 میں بھارت اور پاکستان نے کشمیر کے پانیوں کو بانٹنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ کیا۔ بھارت اور پاکستان جموں و کشمیر کے پانی پر یکساں دعویدار ہیں حالاں کہ کشمیر کے کسی بھی حصے میں آبی وسائل کی اصل ذمہ داری کشمیر کے لوگوں کے پاس ہونی چاہیے۔کشمیر میں پانی ایک قدرتی وسیلہ ہے جو کشمیریوں کی ملکیت ہے۔ یہ اعتماد کی خلاف ورزی ہے کہ بھارت اور پاکستان کشمیر میں پانی کے حوالے سے یکطرفہ فیصلے کر رہے ہیں۔ اعتماد کو بحال رکھنے میں پاکستان کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں جو اس کو نبھانی چاہیے تاکہ راہ کو آزاد کشمیر کے نوجوانوں کی ذہن سازی کا موقع نہ ملے۔ سری نگر کی قیادت کی یہ غلطی رہی کہ قومی معاملات میں کبھی جموں، لداخ اور گلگت بلتستان کے عوام کو اعتماد میں نہیں لیا ۔وہ آزاد کی جنگ تنہاء لڑ رہے ہیں، اپنی ان اکائیوں سے اخلاقی مدد بھی نہیں مانگ رہے۔ آزاد کشمیر سے کشمیری قیادت ختم اور پاکستانی پارٹیوں نے عوام کو مفادات کے جھال میں پھنسا دیا۔ گلگت بلتستان پر راجہ فاروق حیدر خان ہی بول رہے ہیں لیکن عوام جانتے ہیں کہ یہ سب جعلی کام ہیں ۔ جب تک راجہ فاروق حیدر خان نواز شریف کے ماتحت ہیں آزادانہ پالیسی کیسے بنا سکتے ہیں ۔ لہذا اب دو رائے نہیں کہ تقسیم کشمیر پر ہر طرف شادیانے