آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام معروف ادیب سید مظہر جمیل کی کتاب ”مغنیِ آتش نفس مخدوم محی الدین اور تلنگانہ تحریک“ کی تقریب پذیرائی


کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام معروف ادیب سید مظہر جمیل کی کتاب ”مغنیِ آتش نفس مخدوم محی الدین اور تلنگانہ تحریک“ کی تقریب پذیرائی حسینہ معین ہال میں منعقد کی گئی جس کی صدارت زہرا نگاہ، سحر انصاری اور افتخار عارف نے کی جبکہ اظہارِ خیال کرنے والوں میں حارث خلیق، رخسانہ صبا، معین الدین عقیل، مظہر جمیل اور دیگر شامل تھے۔نظامت کے فرائض عنبرین حسیب عنبر نے انجام دیے۔ زہرا نگاہ نے کہاکہ مبارک ہیں وہ لوگ جو اعتقاد، فکر اور اپنے اعتماد کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور کہ ابدی زندگی یہی ہوتی ہے، سرخ سویرا ہوگا یا نہیں یا مگر تلنگانہ کی سرخ زمین پر مخدوم کے پیروں کے نشانہ ہمیشہ چمکتے رہیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ جب بڑے لوگوں کو یاد کیا جائے تو بہت خوشی اور عزت کے ساتھ کیا جانا چاہیے، مظہر جمیل نے یہ کتاب لکھ کر قرض چکا دیا۔پروفیسر سحر انصاری نے صدارتی خطبہ میں کہاکہ مخدوم محی الدین اور تلنگانہ تحریک ایسا موضوع ہے جو بہت اہمیت رکھتا ہے جس وسیع پیمانے اور دقتِ نظر سے مظہر جمیل نے ان کو یکجا کیا ہے وہ واقعی قابلِ تعریف ہے، اس کتاب کو ہم تین حصوں میں پیش کرسکتے ہیں جس میں پہلا حصہ دکن کی تاریخ، دوسرا تلنگانہ تحریک اور اس میں مخدوم محی الدین کی خدمات/ لائحہ عمل اور تیسرے میں مخدوم محی الدین کا کلام اور اس کی ترقی پسندانہ نہج ہے اس کے بہت عمدہ تجزیے پیش کیے گئے ہیں، افتخار عارف نے کہاکہ ہمارے زمانے میں ترقی پسند تحریک کے لیے جتنا کام جتنا مظہر جمیل نے تنہا کیا اتنا کسی نے نہیں ہے، مخدوم ایک منفرد آدمی تھے اور جتنا مواد مظہر جمیل نے اپنی تازہ کتاب میں جمع کیا وہ کسی اور میں نہیں ملتا،ان کی سندھی زبان و ادب کے لیے خدمات قابلِ تعریف ہیں، تقسیم کے بعد سب سے بڑا نقصان اردو ادب کو پہنچا ، ترقی پسند تحریک جب تنظیم بنی تو اس کا اثرورسوخ جاتا رہا اور وہ پہلے جیسی نہیں رہی، جب بھی کوئی تحریک تنظیم کی شکل اختیار کرتی ہے تو وہ آگے نہیں جاپاتی، جس کی بڑی وجہ تحریکی عنصر کا وقت کے ساتھ ساتھ دھیمہ پڑ جانا ہے اور یہی ترقی پسند تحریک کے ساتھ ہوا ۔ حارث خلیق نے کہاکہ ادیب ، محنت کش، سماجی و معاشی علوم کے ماہر، صحافی اور فن کار کا وہ رشتہ نئے انداز سے استوار کرنے کی ضرورت ہے جس کی جھلک مظہر جمیل کی کتاب میں نظر آتی ہے، انہوں نے کہاکہ مظہر جمیل عصرِحاضر کے اہم ترین منصفین میں شامل ہیں جن کی تحریر سے ان کے ہم عصروں کی غیرمعمولی فکری آبیاری ہوئی ہے جس کے لیے ہماری اور ہمارے بعد آنے والی نسل ان کی احسان مند رہے گی۔ معین الدین عقیل نے کہاکہ مظہر جمیل نے جو کام کیے وہ باقی رہنے والے ہیں، مخدوم پر کئی کتابیں لکھی گئیں لیکن جس انداز میں انہوں نے تلنگانہ تحریک کو موضوع بنایا یہ بہت بڑی بات اور چیلنج بھی ہے۔ رخسانہ صبا نے مخدوم محی الدین پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ مغربی فلسفوں کے بوجھ تلے دبی بے فیض اور بھونڈی جدیدیت کے انتہا پسندانہ دائروں سے ہمارا ادب باہر نکل چکا ہے لیکن سماجی اور قومی مسائل کے ضمن میں ادیب کی ذمہ داریوں اور ادب کی تعمیر اورمزاہمتی قوت سے آج تو کیا کسی بھی دور میں انکار نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ سید مظہر جمیل کی تازہ کتاب کی اہمیت سے صَرفِ نظر کرنابھی مشکل ہے، اس کتاب کو مخدوم محی الدین اور بطور خاص تلنگانہ تحریک کے موضوع پر ایک دستاویز کی حیثیت حاصل ہے، تاج حیدر نے کہاکہ نے کہاکہ مخدوم ہمارے قبیلے کے مرشدوںمیں سے ہیں، مخدوم محی الدین کی بہت بڑی سیاسی جدوجہد ہے ، مظہر جمیل کی کتاب ایک بہت بڑے خلا کو پُرے کرے گی،آخر میں مصنف سید مظہر جمیل نے تمام مقررین اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔

====================================

=================================

=================================

===============================

==============================

=================================

==========================