دل دریا سمندروں ڈونگھے

اپنی کتاب “عدل بیتی” میں جب دوستوں نے میرا یہ فقرہ پڑھا کہ “میں نے زندگی میں زیادہ فیصلے دماغ کی بجائے دل سے کیے اور حیرت انگیز طور پر اکثر فیصلوں کے رزلٹ بھی مثبت آئے” تو کئی دوستوں نے اس پر حیرانی اور بعض نے ستائش کی۔ بات بڑی سادہ اور عام فہم ہے صرف غور و فکر اور حُسنِ تدبّر کی طلب گار ہے کہ انسانی جسم میں اللہ تعالٰی نے بے شمار اجزا ترتیب دیے ہیں جو قدرت کی خوبصورت اور اعلٰی صناعّی اور تخلیق کا شاہکار ہیں۔ خوبصورت جسم، دلکش چہرہ، پُر فریب آنکھیں، گلاب جیسی رنگت اور پھنکڑی جیسے ہونٹ کسے متاثر نہیں کرتے۔ پھر انسانوں کے اندر ہی مختلف طرح کے رنگ و نسل، مختلف قد و قامت، مختلف اور متنوع انسانی اجسام تشکیل دیکر انہیں مختلف عقلی و ذہنی قوتوں سے لبریز کیا۔ انسان کو ان ساری ظاہری خوبیوں کے ساتھ بےشمار قلبی و روحانی دولت سے بھی مالا مال کیا جو مختلف انسانوں میں نہ صرف شکل و صورت، قد و قامت بلکہ ذہنی اور قلبی تفاوت اور مختلف حیثیتوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ مگر انسانی جسم کے اندر دل ہی وہ واحد جگہ ہے جس میں قدرت جھاتی ڈالتی یا دیکھتی ہے۔ اللہ تعالٰی کو کسی کے رنگ، خوبصورتی، وجاہت اور جسمانی طاقت سے کیا غرض، وہی تو صرف دلوں کے راز جانتا ہے۔ اگر دل میں کدورت، نفرت، حسد، بغض، کینہ، دشمنی اور فاسد نظریات و خیالات جنم پذیر ہیں تو قدرت ایسے دل میں کیسے نظر ڈالے گی۔ اُسے تو شفاف اور بغض و عناد سے پاک دل دیکھنا ہے۔ نبی آخری الزمان صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے تو اُس شخص کو جنت کی بشارت دی ہے جسکا دل ہر طرح کے کینہ سے پاک ہو مگر یہاں تو لوگ شاید کینہ، بغض اور حسد کے فرق کو ہی نہیں سمجھتے۔ بیک وقت تینوں کو اس قدر دل کے قریب اور عزیز رکھتے ہیں کہ گمان گزرتا ہے کہ انکی کوئی متاع عزیز ہے۔ جس کی دوری کا انکے ہاں تصوّر بھی ممکن نہ ہے۔ جبکہ ہمارا دین اسلام تو وسیع القلبی اور تسّامح کا درس دیتا ہے مگر یہ تو اعلٰی انسانی قدروں سے مزیّن دل ہی قائم رکھ سکتا ہے۔

بہرحال بات کچھ سنجیدہ ہو گئی ہے چلیں دل کا ذکر ذرا ہلکے پھلکے انداز میں کرتے ہیں کہ دل پر بے شمار شعرا اور مفکّرین نے بڑے خوبصورت انداز میں طبع آزمائی کی ہے۔ ہجر و وصال کی ساری داستانیں اسی دل کے گرد ہی تو گھومتی ہیں۔

ہجر کی رات ہے اور اُنکے تصوّر کا چراغ
بزم کی بزم ہے تنہائی کی تنہائی ہے

اور پھر داغ دہلوی کی زبان میں

دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے
جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے

فیض احمد فیض جیسے عظیم شاعر کو بھی جب کافی عرصہ جیل میں گزارنا پڑا تو اُنہوں نے دلِ نااُمید کے لیے کیا خوبصورت بات کی

دل نااُمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

اور پھر بڑے ہلکے پھلکے انداز میں فیض نے اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ یوں کہا کہ

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

مگر داغ دہلوی تو ٹھہرے استاد اُنکا انداز بیان جداگانہ اور اچھوتا ہے۔

تمہارا دل میرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا
وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا

دل اتنی قیمتی اور نایاب چیز ہے کہ داغ دہلوی کو اپنے دلدار کو دل دیتے ہوئے کچھ یوں کہنا پڑا

ابھی کمسن ہو رہنے دو کہیں کھو دو گے دل میرا
تمہارے ہی لیے رکھا ہے لے لینا جواں ہو کر

یہ دل ہی تو ہے جو انسان کی وسعت قلبی، کشادگی، فراخی، تسکین و طمانیت کو متشّکل کر کے انسانی عظمت کے مختلف معیار مقرر کرتا ہے۔ لوگ عقل کو دل پر ترجیح دیتے ہیں مگر ہمارے خیال میں دل ایک پاکیزہ، پُرکیف اور سرمستی کی جگہ ہے۔ جبکہ عقل عیّار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔ اور علامہ اقبال کو بھی کہنا پڑا کہ

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

اور پھر اُنہی کا ایک خوبصورت شعر اس طرح ہے کہ

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

اور جلیل مانک پوری نے تو دل بے تاب کا ذکر کرتے ہوئے کمال ہی کر دیا۔

آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں
دل بے تاب کو عادت ہے مچل جانے کی

انسانی سرشت میں تین بنیادی عیب ہیں۔ جو کہ سارے کے سارے اُسکے دماغ و عقل کی پیداوار ہیں۔ وہ جلد گھبرا جانے والا، حریص اور کم ظرف ہے۔ جبکہ دل اسی انسان کو سخی، بامروّت، بااخلاق، باکردار، متکلّم، بینا، مدبّر اور درویش بنا دیتا ہے۔ جبکہ عقل، فکر و نظر اور قیاس و استنباط کے جھمیلوں میں کھو کر زندگی کے رنگ پھیکے کر دیتی ہے۔ ورنہ بقول باقی صدیقی

تم زمانہ کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا

بہرحال دل انسانی جسم کا سردار ہے جو محویت و استغراق، تواضع اور انکسار سے بھرپور ہمہ وقت ربِ جلیل و کریم کی خوبصورت ترین تخلیق کا مظہر و منبع ہے۔ جسے دوست و دشمن سبھی نشانہ پر رکھتے ہیں۔ یہ زخم خوار ہو کر بھی دعائیں دیتا ہے۔ غرض کے دل ایک بیش قیمت تحفہ، ایک انمول خزانہ اور ایک ایسی لافانی دولت ہے کہ جو کم ظرفوں کے ہاتھ نصیب سے ہی آتی ہے۔ اور ندا فاضلی کے اس شعر سے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی

عابد حسین قریشی ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج (ر)