ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی ۔آہ انور فرہاد

تحریر پرویز بلگرامی
=====================

ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی ۔آہ انور فرہاد ۔ ۔کلکتہ سے خمیر اٹھا اور کراچی میں پیوند خاک ہوئے۔زندگی بھر قلم کی مزدوری کی کبھی روزنامہ پاسبان کےانچارج فلمی صفحہ رہے کبھی رومان و نگار کے لیے نامہ نگاری کی۔۔فلمی صحافت میں ایک مقام بنایا ۔ان کی شخصیت کے بارے میں کہا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اخلاص و عمل کا پیکر آبدارتھے، تواضع و انکساری کا آئینہ دارتھے، علم و فضل کا یگانۂ روزگارتھے، ممتاز ادیب، باکمال شخصیت،خردوں کا مشفق و غمخوار اور گونا گوں اوصاف و خصوصیات، امتیازات و کمالات کا آفتابِ تاباں تھے، ماہتاب درخشاں تھے ۔جوآج غروب ہوکر دار فانی سے دار باقی کی طرف روپوش ہوگیا انا للہ و انا الیہ رجعون
۔آج جب ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل خون کے آنسو رو رہا ہے لیکن موت سے کسے مفر ہے۔
چوں قضا آید طبیب ابلہ شود
آں دوا در نفع خود گمرہ شود
میں جس جس ڈائجسٹ میں رہا۔ان کی تحریر سے پرچے کو سجاتا رہا۔سرگزشت میں جب علی سفیان آفاقی کا انتقال ہوا اور میں پریشان حال کے اب فلمی الف لیلہ کون لکھے گا۔اس وقت ذہن میں ان کا نام آیا اور انہوں نے ہاں کر دیا۔ہر قلمکار کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ان کا اپنا انداز بیان تھا،اور اس انداز بیان کو بھی قارئین نے پسند کیا ‘تین چار دن قبل جب ان کی تحریر لینے ان کے ہاں گیا تو پتا چلا کہ وہ اسپتال میں ہیں ۔حالت کریٹیکل ہے۔ماہ اپریل کے لیے تحریر رکھی ہوئی تھی،حیرت ہوئی کہ انہوں نے لفافے پرلکھ دیا تھا کہ” یہ میری آخری تحریر ہے”۔یہ بات سچ ثابت ہوئی۔۔حالانکہ دیڑھ سال قبل بھی ایسی ہی حالت ہوئی تھی ۔اللہ کو زندگی منظور تھی گھر آگئے تھے۔اس وقت بھی بہت سارے ان کے چاہنے والے ان کے ساتھ کھڑے تھے۔اس بار مجھے بہت دیر میں اطلاع ملی۔ابھی کچھ ہی دن قبل کی بات ہے۔میں نے ٹی وی کی دنیا میں ہمدرد مشہور جناب قیصر نظامانی سے ذکر کیا۔انہوں نے دوڑ دھوپ کی اور وزیر اعلیٰ فنڈ سے ہر ماہ ایک معقول رقم ملنے کی امید بندھ گئی لیکن معاملہ ایک نکتے پر آکر رک گیا۔وہاں سے کہا گیا کہ بینک میں ایکائونٹ کھول لیں۔پیسے ڈائریکٹ بینک میں پہچ جائیں گے مگر افسوس فالج کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں سختی آگئی تھی جس کی وجہ سےایکائونٹ میں بینک والے اڑچن ڈال رہے تھے۔۔ قیصر نظامانی اس مسئلہ کو حل کرنے میں کوشاں تھے کہ قضا نے آ لیا۔نہایت تیز رفتاری سے لکھتے تھے۔جب جیسا جس قسم کی تحریر کا تقاضہ کیا دو سے تین دن میں حاضر کر دیتے۔مفلوج ہاتھ سے لکھنا آسان نہیں لیکن ہر ماہ اپنی تحریر کے ساٹھ ستر صفحات بھیج دیتے تھے۔شاعری بھی خوب کرتے تھے۔افسانہ کہانیاں اور فلمی ہنر مندوں کے احوال لکھنے میں ان کا ثانی نہیں تھا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں جنت الفردوس میں مقام اعلیٰ ملے