انتقامی احتساب کو شکست ۔آزادی صحافت کی جیت ۔ میر شکیل الرحمان کی ثابت قدمی نے ان کو سرخرو کر دیا ۔

انتقامی احتساب کو شکست ۔آزادی صحافت کی جیت ۔ میر شکیل الرحمان کی ثابت قدمی نے ان کو سرخرو کر دیا ۔
پاکستان میں صحافت کے اہم ستون جنگ اور جیو کے روح رواں میر شکیل الرحمان پر لگائے جانے والے الزامات کا عدالت میں جھوٹا ثابت ہونا درحقیقت انتقامی احتساب کی شکست ہے اور یہ پاکستان میں آزادی صحافت کی شاندار فتح ہے میر شکیل الرحمان اس تمام عرصے میں ثابت قدمی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے اور سرخرو ہوئے۔


دنیا بھر میں یہ کیس آزادی صحافت کے حوالے سے توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ پاکستان کے حکمران دعویٰ کررہے تھے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے لیکن دوسری جانب میر شکیل الرحمان کے خلاف لگائے جانے والے الزامات ان کی گرفتاری اور مقدمات اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر صحافیوں کے

خلاف سخت دباؤ کی صورت حال سے اندازہ ہو رہا تھا کہ حالات حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس ہیں اس پر دنیا بھر میں بحث ہو رہی تھی اور پاکستان کی عدالتوں میں ایسے مقدمات عوامی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں میں شکیل الرحمان کی گرفتاری سے لے کر رہائی تک ملک بھر میں


اور دنیا کے مختلف ملکوں میں احتجاج ہوا تھا طویل اور مسلسل احتجاج میر شکیل الرحمان ان کے ادارے اور ان کی صحافت پر دنیا بھر کے صحافیوں کے بھرپور اعتماد اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی
کی زندہ مثال تھی ۔

اس تمام مشکل عرصے میں شکیل الرحمان نے کمال بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کیا اور جھوٹے الزامات کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر کے صحافیوں کا سر فخر سے بلند رکھا

==========================

میر شکیل الرحمٰن کیخلاف نیب کا ہر لحاظ سے اپنی نوعیت کا منفرد کیس،تجزیہ کار
——
کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتےہوئے کہا ہے کہ لاہور کی احتساب عدالت نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو نیب کیس میں باعزت بری کردیا ہے، یہ ہر لحاظ سے اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے، یہ ایک ایسا کیس ہے جو ثابت کرتا ہے کہ دنیا کیوں پاکستان میں صحافتی اور دیگر جمہوری آزادیوں کیخلاف آواز اٹھارہی ہے، اس ایک کیس کی وجہ سے دنیا کی صحافتی تنظیموں اور عالمی اداروں نے پاکستان میں صحافتی آزادی پر سوالات اٹھائے اور پاکستان کی بدنامی ہوئی، مارچ 2020ء میں نیب نے شکایت کی تصدیق کے مرحلہ میں ہی پیشی کے دوران میرشکیل الرحمٰن کو گرفتار کرلیا، یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا اور پھر آٹھ مہینے تک میر شکیل الرحمٰن بغیرکوئی الزام ثابت ہوئے زیرحراست رہے، پھر 9نومبر 2020ء کو سپریم کورٹ نے میرشکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت منظور کرلی اور وہ ضمانت پر رہا ہوئے، اس دوران عالمی ادارے ملک میں آزادیٴ صحافت کی صورتحال پر سوالات اٹھاتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ جب ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کا سربراہ ایسے من گھڑت کیس میں بغیر کچھ ثابت ہوئے ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا تو ملک میں میڈیا آزاد کیسے ہوسکتا ہے، اس حوالے سے آرٹیکلز لکھے گئے، یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے حکومت کو خط لکھا، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے گرفتاری کی مذمت کی، تمام بڑے عالمی صحافتی اداروں نے تشویش کا اظہار کیا، مقامی صحافتی تنظیموں ، انسانی حقوق کے اداروں، سول سوسائٹی اور بار ایسوسی ایشنز نے نیب کے کیس اور میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی مذمت کی اور ملک میں آزادیٴ صحافت کی صورتحال پرتشویش کا اظہار کیا گیا، پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی، اب تقریباً دو سال بعد لاہور کی احتساب عدالت نے میر شکیل الرحمٰن کو تمام الزامات سے بری کردیا ہے، لاہور کی احتساب عدالت کے جج اسد علی نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پراسیکیوشن کے پورے کیس کا انحصار دو گراؤنڈز پر ہے، پہلا گراؤنڈ یہ ہے کہ ملزم میرشکیل الرحمٰن نے زائد یا اضافی زمینوں کی قیمت مارکیٹ پرائس کے بجائے ریزرو پرائس پر ادا کی ہے، دوسرا گراؤنڈ یہ ہے کہ اگزمپشن پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میرشکیل الرحمٰن کو کمپوزیٹ بلاک میں پلاٹس کی الاٹمنٹ کی گئی ہے جس میں دو اسٹریٹس بھی شامل ہیں، عدالتی فیصلے کے مطابق یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ میرشکیل الرحمٰن کو پلاٹ کی الاٹمنٹ 1986ء میں ہوئی ہے اور اضافی زمین کیلئے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے میر شکیل الرحمٰن کو ہدایت کی تھی کہ وہ اضافی زمین کیلئے ریزرو پرائس میں قیمت ادا کریں اور پھر میرشکیل الرحمٰن نے ایسا ہی کیا، عدالتی فیصلے کے مطابق کسی بھی اتھارٹی نے کسی بھی اسٹیج پر کبھی یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ میرشکیل الرحمن کو اضافی زمین کی قیمت ریزرو پرائس پر نہیں بلکہ مارکیٹ پرائس میں ادا کرنی ہے، ریکارڈ میں ایک خط موجود ہے جو ایل ڈی اے کے سابق ڈائریکٹر نے میرشکیل الرحمٰن کی اہلیہ کو لکھا تھا اور تقاضا کیا تھا کہ انہیں اضافی زمین کی ادائیگی مارکیٹ پرائس پر کرنی ہے لیکن ایل ڈی اے کی جانب سے یہ خط 1990ء میں نئی پالیسی آنے کے بعد لکھا گیا تھا اور اس پالیسی کا اطلاق ماضی کے کیسوں پر نہیں ہوسکتا تھا بلکہ یہ صرف مستقبل کے کیسوں پر نافذ العمل ہوسکتی تھی، اس لیے ایل ڈی اے کی جانب سے جو خط 1992ء میں لکھا گیا اس کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، جب اس پالیسی کا اطلاق مستقبل کے کیسوں پر ہونا تھا تو کیسے میرشکیل الرحمٰن کو اضافی زمین کی ادائیگی کا کہا جاسکتا ہے جس کی ادائیگی وہ پہلے ہی 1986ء میں کرچکے ہیں، اس لیے 1992ء میں ایل ڈی اے کی جانب سے میرشکیل الرحمٰن کی اہلیہ کو جو خط لکھا گیا وہ بنیادی انصاف کے اصولوں کیخلاف ہے، عدالتی فیصلے کے مطابق جب بھی کوئی الاٹی یا زمین کا مالک ایل ڈی اے میں این آر سی کیلئے درخواست دائر کرتا ہے تو ادارہ سرٹیفکیٹ کے اجراء سے پہلے تمام ادائیگیوں کی تصدیق کرتا ہے اور میر شکیل الرحمٰن نے متعدد دفعہ این آر سی کیلئے اپلائی کیا، ایک دفعہ بھی میر شکیل الرحمٰن کو یہ کہہ کر این آر سی کا اجراء نہیں روکا گیا کہ آپ نے کسی بھی بقایا جات کی ادائیگی کرنی ہے، ریکارڈ کے مطابق 2016ء میں تمام تصدیقی عمل کے بعد ادارے کی جانب سے میرشکیل الرحمٰن کو نوریکوری سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا اور ادائیگیوں کی تصدیق کے بعد ٹرانسفر ڈیڈ کی ایگزیکیوشن کیلئے کیس کی منظوری دیدی گئی، گواہوں کے بیانات اور ایل ڈی اے کے ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ میر شکیل الرحمٰن پر کوئی بقایا جات کی ادائیگی نہیں تھی، عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پرائس اسسمنٹ کمیٹی نے اس کیس میں جو رپورٹ تیار کی وہ بھی خامیوں سے بھری ہوئی ہے، عدالت نے اس کیس سے متعلق ایک اہم نکتہ اٹھایااورلکھا کہ اگر یہ بات درست تسلیم بھی کرلی جائے کہ ایل ڈی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور سابق ڈائریکٹر لینڈ ڈپارٹمنٹ نے یا ایل ڈی اے کے کسی بھی اہلکار نے میرشکیل الرحمٰن کو رعایت یا فائدہ پہنچایا تو پھر ان حکام کیخلاف محکمہ کی طرف سے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی، عدالت نے فیصلے میں مزید لکھا کہ جب یہ بات طے ہوگئی ہے کہ جس وقت میر شکیل الرحمٰن کو الاٹمنٹ ہوئی تھی تواس وقت نہ ہی جوہر ٹاؤن فیز ٹو کی منظوری دی گئی تھی اور نہ اس کا ماسٹر پلان بنا تھا، اس لیے جو پلاٹس میر شکیل الرحمٰن کواتھارٹی کی طرف سے الاٹ ہوئے وہ قانونی اختیارات سے ہوئے، عدالتی فیصلے کے مطابق پراسیکیوشن نے یہ الزام ہی عائد نہیں کیاکہ اختیارات کے غلط استعمال سے ملزم یا شریک ملزم نے کوئی غیرقانونی فائدہ اٹھایا ہے جو نیب آرڈیننس کے سیکشن نو کا بنیادی جز ہے، عدالتی فیصلے کے مطابق ہوسکتا ہے ایگزمپشن پالیسی کی کچھ خلاف ورزی ہوئی ہو لیکن ایسی کسی بھی خلاف ورزی کو اختیارات کے غلط استعمال کے طور پر نہیں لیاجاسکتا، مجرمانہ ذمہ داری کو ثابت کرنے کیلئے پراسیکیوشن کو ضرورت ہے کہ وہ اس بات کو ثابت کرے کہ کیس میں کلیئر کٹ یعنی واضح مجرمانہ نیت موجود ہے، صرف کسی پروسیجرل اصول کیخلاف ورزی کرپشن یا کرپٹ پریکٹسز کا جرم بنانے کیلئے کافی نہیں ہے، عدالت نے لکھاکہ نیب کا کیس صرف گمان او ر مفروضے پر مبنی ہے، ریکارڈ پربدنیتی ثابت کرنے کیلئے کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے، اس لئے ایل ڈی اے کے جن حکام پر کیس بنایا گیا اس کیس کو اختیارات کے غلط استعمال کے کیس کے زمرے میں نہیں لایا جاسکتا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے اگلے ہی دن اس وقت کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے دعویٰ کیا کہ میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا آزادیٴ صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کی پریس کانفرنس کے فوری بعد جیو نیوز کے نشریات ملک بھر میں بند کردی گئیں یا کچھ علاقوں میں جیو نیوز کو آخر کے نمبروں پر ڈال دیا گیا اور پھر ایسا ہی رہا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے بعد 21مارچ 2020ء کو جیو نیوز کو اس کی اصلی پوزیشن پر بحال کیا گیا، پھر سوال اٹھایا گیا کہ پہلے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک کو گرفتار کیاجاتا ہے، اگلے ہی دن اس کے چینل کی نشریات بند کردی جاتی ہے تو کیا یہ کیس ایک پراپرٹی سے متعلق ہے یا پھر چینل کی کوریج سے مسئلہ ہے، امریکاکے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا، نائب وزیرخارجہ برائے جنوبی وسطی ایشیا ایلس ویلز نے کہا کہ ہم پاکستان کے سب سے بڑی میڈیا کمپنی کے ایڈیٹرانچیف میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری پرتشویش کا اظہار کرتے ہیں، صحافت کی آزادی اور قانون کی حکمرانی ہر جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاری آزادیٴ صحافت کے حکومتی دعوؤں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، جون 2020ء میں اقوام متحدہ کے ادارے ہیومن رائٹس کونسل نے حکومت پاکستان کو باقاعدہ خط لکھ کر موقف اختیار کیا کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر ہمیں خدشات ہیں، یہ گرفتاری بظاہر جنگ میڈیا گروپ میں بطور ایڈیٹر انچیف کے ان کے کردار کی وجہ سے ہے، ہمیں اس بات پر بھی خدشات ہیں کہ جنگ میڈیا گروپ اور دیگر میڈیا کے اداروں کے حق اظہار رائے پر پابندیاں اس وقت لگائی جارہی ہیں جب وہ ملکی سیاست کی کوریج کرتے ہیں ، ہم اس پر شدید تشویش کااظہارکرتے ہیں کہ میرشکیل الرحمٰن کیخلاف کارروائی اور اقدامات ان کے اور ان کے ادارے کی جانب سے حق اظہار رائے کے جواب میں ہوسکتی ہے، اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل کے مینڈیٹ کے تحت یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے تمام کیسوں کے حوالے سے وضاحت لیں جن پر ہماری توجہ دلائی جائے اس لیے حکومت ان معاملات پر مزید معلومات فراہم کرے اور میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی قانونی وجوہات بتائے اور برائے مہربانی وہ وجوہات بھی بتائیں کہ 34 سال بعد یہ الزامات کیوں لگائے گئے ہیں، وضاحت کیجئے کہ میرشکیل الرحمٰن کو ٹرائل سے پہلے ہی کیوں گرفتار کرلیا گیا اور حق اظہار رائے ، حق آزادی کے بین الاقوامی معیار اور قوانین کے آرٹیکل 9اور 19سے یہ گرفتاری کیسے مطابقت رکھتی ہے؟ ، خط میں مزید کہا گیا کہ برائے مہربانی ان اقدامات کے حوالے سے معلومات دیجئے جو آپ نے اپنی حکومت پر لگنے والے ان الزامات کے جواب میں اٹھائے کہ میڈیا اور حق آزادیٴ اظہار رائے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں اور میڈیا پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں، برائے مہربانی ان اقدامات کے حوالے سے معلومات دیجئے جو آپ نے اٹھائے ہوں تاکہ میڈیا دھمکیوں، ہراسانی اور مداخلت کے بغیر اپنا حق اظہار رائے استعمال کرسکے، برائے مہربانی 60 دن کے اندر اس کا جواب دیجئے، یہ خط اور آپ کا جواب عوام کے سامنے ویب سائٹ کے ذریعہ رکھ دیا جائے گا اور ہیومن رائٹس کونسل کی آئندہ رپورٹ میں بھی شامل کیا جائے گا۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکثریتی ایوان میں پے در پے ناکامیوں نے اپوزیشن کے اندرونی اختلافات، انتشار اور بری حکمت عملی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے، یہ واضح ہوگیا ہے کہ اپوزیشن عملی میدان میں حکومت کا کچھ نہیں بگاڑسکتی اور اپنے اراکین کی تعداد تک پوری کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، اپوزیشن میں صرف یوسف رضا گیلانی پر ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی قیادت پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، پارٹی کے اندر اور باہر سے تنقید ہورہی ہے، حکومت پیپلز پارٹی کا شکریہ ادا کررہی ہے، پیپلز پارٹی پر حکومت ساتھ ملی بھگت کا الزام لگ رہا ہے، حکومتی ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں لیڈرآف دی اپوزیشن بنوانے اور اب اس کی قیمت چکانے کا الزام لگ رہا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کیخلاف انکوائری نہ کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین نیب کو توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری کردیا ہے، جسٹس (ر) جاوید اقبال کو 14فروری تک جواب جمع کروانا ہوگا، نیب کے چیئرمین پر الزام ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کیخلاف آمدنی سے زائد اثاثوں اور غیرقانونی الاٹمنٹس کی انکوائری نہیں کروائی۔
https://e.jang.com.pk/detail/42608
============================================

جنگ، جیو کے ایڈیٹر انچیف میرشکیل الرحمٰن نیب کیس میں باعزت بری، الزام مفروضے پر، کوئی ثبوت نہیں، جج اسد علی احتساب عدالت
01 فروری ، 2022
FacebookTwitterWhatsapp
لاہور (نمائندہ جنگ) احتساب عدالت لاہور نے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کو پرائیوٹ پراپرٹی کیس سے بری کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ریکارڈ پر اعانت جرم کی ذرا برابر بھی شہادت نہیں۔ اس کیس میں سزا کا کوئی امکان نہیں اسلیے ناکافی مواد کے سبب ریفرنس کا ٹرائل جاری رکھنا لاحاصل مشق ہو گی۔احتساب عدالت میں جیو اور جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف شکیل الرحمٰن کی پیروی امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کی۔ احتساب عدالت کے جج اسد علی نے امجد پرویز کے توسط سے میرٹ پر بریت کی درخواست پر 20 صفحات کا فیصلہ جاری کیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن پر اعانت کا الزام ہے۔ استغاثہ نیب آرڈیننس کے تحت اصل جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا تو اعانت کا جرم کیسے ثابت ہو سکتا ہے۔ فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ استغاثہ کا کیس صرف مفروضے پر مبنی ہے، شریک ملزمان کے خلاف جرم کی نیت کی کوئی شہادت نہیں۔ اختیارات کا غلط استعمال کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اگر اس میں جرم کی نیت نہ ہو تو یہ قومی احتساب آرڈیننس کے تحت جرم نہیں۔ صرف پروسیجرل رولز کی خلاف ورزی سے کرپشن یا کرپٹ پریکٹس کا جرم نہیں بنتا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ریکارڈ پر اعانت جرم کی ذرا برابر بھی شہادت نہیں اس لئے کیس میں میر شکیل الرحمٰناور شریک ملزمان کی سزا کا کوئی امکان نہیں۔ ناکافی مواد کے سبب ریفرنس کا ٹرائل جاری رکھنا لاحاصل مشق ہو گی جسے سیکشن 265 k پر عمل کرکے روکا جا سکتا ہے. تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جب فرد جرم بے بنیاد ہوجائے اور سزا کا کوئی امکان نہ ہو تو عدالت کے پاس 265 k کے استعمال کا اختیار ہے. فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ ان حالات میں میر شکیل الرحمٰن اور شریک ملزمان ہمایوں فیض رسول اور میاں بشیر کو الزام سے بر ی کیا جاتا ہے. عدالت نے حکم دیا کہ ضبط کی جانے والی تمام کیس پراپرٹی سائلین کو واپس کی جائے. فیصلے میں کہا گیا کہ میر شکیل الرحمان یا شریک ملزمان کے کسی عمل سے ایل ڈی اے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ جو استغاثہ کے گواہ نے بھی تسلیم کیا۔ جرم ثابت کرنے کے لئے استغاثہ کو ملزمان کے خلاف مجرمانہ نیت ثابت کرنا ضروری ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اس کیس کا شکایت کنندہ اس علاقے کا رہائشی نہیں ہے اسلیے اسکے کسی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ اسے متاثرہ فریق بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کے 9 گواہوں کی شہادت ریکارڈ ہو چکی ہے جبکہ ماسٹر پلان بھی ریکارڈ پر آ چکا ہے۔ اسوقت کے وزیر اعلی کے سیکرٹری سید جاوید اقبال کی اس کیس میں شہادت ریکارڈ کرنے سے بھی کیس کے میرٹ پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ میر شکیل الرحمن نے زائد الاٹ ہونے والی زمین کے لیے پیسے ادا کر دیئے تھے۔ نو ریکوری سرٹیفیکیٹ تمام واجبات کی ادائیگی کے بعد ہی جاری ہوتا ہے۔ لیکن میر شکیل االرحمن کی اس سرٹیفکیٹ کے لیے ایک بار بھی درخواست مسترد نہیں ہوئی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ایل ڈی اے حکام نے سائل میر شکیل الرحمان کو فائدہ پہنچایا تو محکمے نے ان افراد کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی۔ دونوں شریک ملزمان کے خلاف سروس کے دوران کبھی کارروائی نہیں ہوئی۔ اگر زائد زمین کے لیے پیسے ادا نہیں ہوئےتو 1986 کے بعد آنے والے ایل ڈی اے کے کسی ڈی جی اور ڈی ایل ڈی نے پیسوں کے لیے سائل کو خط کیوں نہیں لکھا۔ ایسے حالات میں تو ہمایوں فیض رسول اور بشیر احمد کے بعد آنے والے تمام افسران کے خلاف ایل ڈی اے یا نیب کو کارروائی کرنا چاہیے تھی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ڈی جی ایل ڈی اے کو منظوری کے لیے سمری بھیجنے میں ہمایوں فیض رسول اور بشیر احمد کے خلاف بے ایمانی کا کوئی ثبوت ریکارڈ پر نہیں۔ دونوں شریک ملزمان پر مالی فائدہ حاصل کرنے کا بھی کوئی الزام نہیں۔ نیب آرڈیننس کی دفعہ 9 کے تحت جب تک بے ایمانی کا عنصر نہ ہو، ڈی جی ایل ڈی اے کو سمری بھیجنے سے کرپشن یا کرپٹ پریکٹس کا جرم نہیں بنتا ، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف اس کیس میں اشتہاری ہیں. ان کے گرفتار ہونے پر ان کا ٹرائل کیا جائے. اس سے قبل عدالت نے 265K کی درخواست قبل از وقت قرار دے کر 8 ستمبر 2021 کو مسترد کی تھی۔ جسے میر شکیل الرحمن کی جانب سے عدالت عالیہ میں چیلنج کر دیا گیا۔ عالت عالیہ نے اس درخواست پر ٹرائل کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ 265 K کے تحت بریت کی درخواست دائر ہونے پر اسکا میسر مواد پر انحصار کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلہ کرے۔گزشتہ سماعت پر امجد پرویز ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے ایڈیٹر انچیف جنگ اور جیو کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔احتساب عدالت نے گزشتہ روز اپنا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کو اس کیس میں باعزت بری کردیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ میر شکیل الرحمان پر جو الزامات تھے ان سے بھی انہیں بری کیا جاتا ہے اور جو چیزیں تحویل میں ہیں وہ میر شکیل الرحمان کو واپس کی جاتی ہیں۔یاد رہے کہ میر شکیل الرحمان نے 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر نیب نے انہیں 5 مارچ 2020 کو طلب کیا، میر شکیل الرحمان نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا لیکن نیب نے 12 مارچ کو دوبارہ بلایا، میر شکیل انکوائری کے لیے پیش ہوئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دوران انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں، ایک ان کی ضمانت اور دوسری بریت کے لیے دائرکی گئیں، عدالت نے وہ درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ مناسب وقت پر اسی عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے 8 جولائی کو میر شکیل الرحمان کی درخواست ضمانت بعداز گرفتاری خارج کی تھی جس پر ایڈیٹر انچیف جنگ اور جیو نے 11 ستمبر کو سپریم کورٹ میں یہ درخواست دائر کی جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل تین رکنی بینچ نے میر شکیل الرحمٰن درخواست ضمانت پر سماعت کی تھی۔عدالت عظمیٰ نے 9 نومبر 2020 کو جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت منظور کی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ واضح کیا ہے کہ پٹیشنر نے 2016ء میں ایل ڈی اے سے اپنے حق میں اراضی کو اپنے نام رجسٹر کرایا تو اس وقت بھی ایل ڈی اے نے بقایا جات کے بارے میں واضح کیا کہ ان کے خلاف کوئی سرکاری واجبات واجب الادا نہیں ہیں اور محکمہ کے ڈائریکٹر لینڈ ڈویلپمنٹ نے بھی عدالت کو واضح کیا کہ اس پراپرٹی میں این آر سی اور ایف آر سی بھی جاری ہو چکا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ زائد اراضی کے بارے میں جو لیٹر 1992ء میں پٹیشنر کو لکھا گیا تھا اس کے بارے میں بھی ڈائریکٹر لینڈ ڈویلپمنٹ نے یہ بات واضح کی اس کا نفاذ اراضی کے ان مالکان پر نہیں ہوتا جو 1990ء سے پہلے کے ہیں۔ اس کا اطلاق 1990ء کے بعد کے مالکان پر ہوگا جبکہ مذکورہ کیس 1986ء کا ہے۔ احتساب عدالت نے اس کیس کا فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا ہے جبکہ اس کیس میں نیب کے ترمیمی آرڈیننسوں کا سہارا نہیں لیا گیا۔ کیونکہ عدالت عالیہ اس کیس کے حوالے سے یہ حکم صادر کر چکی تھی کہ اس کیس کا میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن نے خریدی گئی اراضی کے تمام ترقیاتی چارجز اور واجبات ادا کئے جبکہ زائد اراضی کی قیمت ریزور پرائس نافذ العمل پالیسی کے مطابق ادا کی۔ 34 سال پرانے پراپرٹی کے معاملہ کو دو بنیادوں پر مقدمہ قائم کیا گیا جس میں ایل ڈی کی کنزمنشن پالیسی کی خلاف ورزی اور ایل ڈی اے کے افسران کی ملی بھگت سے اخراجات کا الزام عائد کیا گیا۔ عدالت نے قرار دیا نہ اس میں کنزمنشن کی خلاف ورزی ہوئی اور نہ ہی افسران نے فائدہ اٹھایا اور نہ ہی قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ ایل ڈی اے نے ریکوری کیلئے کوئی نوٹس نہیں بھیجا اور نہ ہی بقایا جات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس دوران ڈائریکٹر ڈی جی ایل ڈی اے اور ڈائریکٹر لینڈ ڈویلپمنٹ عہدہ کے متعلقہ افسران تعینات ہوئے ان میں سےکسی نے بھی ریفرنس میں ملزم نہیں بنایا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایل ڈی اے قوانین میں قواعد و ضوائط کی خلاف ورزی نہیں پائی گئی