پہلی ازاد ہند گورنمنٹ کے صدر اور تحریک ازادی کے عظیم مجاھد ڈاکٹر محمد اقبال شیدائی بھٹہ ( 13 جنوری یوم پیدائش)


تحریر۔۔۔شہزاد بھٹہ

====================

ڈاکٹر محمد اقبال شیدائی کا نام گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں لیکن اج کی نوجوان نسل کو شاید تحریک ازادی کے نامور پنجابی مجاھد اور عظیم انقلابی کے بارے علم نہیں جس نے اپنی ساری زندگی وطن پاک کی ازادی کے لیے انگریز سامراج کے خلاف لڑتے ھوئے گزار دی ۔ڈاکڑ محمد اقبال شیدائی صیح معنوں میں ایک انقلابی تھےان کی عمر کا پیشتر حصہ جلاوطنی میں گزرا ۔کھبی افغانستان میں تو کبھی ترکی کبھی اٹلی تو کبھی فرانس یا پھر روس میں مگر ھر جگہ مغربی سامراجیت کو للکارا اور انقلابی قوتوں کے ساتھ چلے
الحاج اقبال شیدائی اس مردم خیز خطہ سیالکوٹ میں پیدا ھوئے جس نے مسلمانوں کو عصر حاضر کا سب سے بڑا حکیم فلسفی اور شاعر اقبال عطا کیا ۔اور حسن اتفاق ھے کہ ملت کو یہ اقبال بھی خاک پاک سیالکوٹ ھی سے نصیب ھوا ۔اقبال شیدائی 13 جنوری 1888ء میں راجپوت بھٹہ خاندان کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ھوئے اپ کے والد محترم چویدری غلام علی بھٹہ اسکاچ مشن ھائی سکول سیالکوٹ میں ریاضی سائنس و انگریزی کے استاد تھے ۔چویدری غلام علی بھٹہ حضرت مولانا سید میر حسن کے شاگرد اور حکیم الامت علامہ اقبال کے استاد ھونے پر بڑا فخر کیا کرتے تھے ۔اقبال شیدائی کو بھی مولانا سید میر حسن کا شاگرد ھونے کا فخر حاصل ھوا ۔اپ نے ابتدائی تعلیم اسکاش مشن ھائی سکول سے حاصل کی ۔اور مرے کالج سے گریجویشن حاصل کی ۔
اقبال شیدائی 1914 میں عملی سیاست میں داخل ھوئے حالانکہ یہ بہت کم عمری کا زمانہ تھا اپ نے علی برداران مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کی سرپرستی میں کام شروع کیا اور ان کی قائم کردہ تنظیم ” انجمن خدام کعبہ ” میں شامل ھوگئے اور جلد ھی اس کے سرگرم عمل رکن بن گئے ۔جنگ عظیم کے دوران پہلے دو مہینے انہوں نے سرحدی صوبوں میں اپنی سرگرمیاں سرانجام دیں۔ اس کے بعد برطانوی حکومت نے انہیں ہندوستان کے اس حصے کو چھوڑنے کا حکم دیا ۔ اگست 1915 میں اقبال شیدائی کو امن عامہ کے لیے خطرناک قرار دیتے ھوئے گرفتار کرکے سیالکوٹ کے نواحی گاوں # کوٹلی بھٹہ# میں نظر بند کر دیا گیا ۔کوٹلی بھٹہ اقبال شیدائی کا ابائی گاوں تھا ۔۔جو دریائے چناب کے کنارے واقع ھے ۔ 25 اکتوبر 1915 میں انہیں اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ اہندہ کسی تحریک میں حصہ نہیں لیں گئے ۔رہائی کے بعد اقبال شیدائی صاحب قانوں کی تعلیم حاصل کرنا چاھتے تھے لیکن کالج اور حکومت نے انہیں اس بات کی اجازت نک دی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ ایڈووکیٹ بن کر انگریز سرکار کے لیے بہت خطرناک ثابت ھوں گئے
1918 میں اقبال شیدائی نے پھر سے خفیہ طور پر سیاسی سرگرمیاں شروع کیں اور ایک سامراج دشمن تنظیم کے رکن منتخب ھوئے اور جلد ھی اس تنظیم کے سرگرم رکن کی حیثیت اختیار کر لی۔اور ان کا شہرہ دور دور تک پھیلنے لگا ۔اسی وجہ سے بہت جلد ان کا رابط تحریک ازادی کے سرگردہ لیڈروں سے قائم ھوگیا ۔1919 میں ایک بار پھر انہیں حراست میں لے لیا گیا ۔لیکن پولیس ان کے خلاف کوئی ثبوت فراھم نہ کرسکی اس لیے رہا کر دیا گیا ۔

2مئی 1920 کو وہ دوبارہ سرحدی علاقہ میں پہنچنے میں کامیاب ھو گئے جہاں سے وہ کابل تشریف لے گئے 1920 سے 1922 تک وہ کابل میں رھے وھاں پر اپ نے جمال پاشا کی زیر نگرانی شعبہ پروپیگنڈہ کے سربراہ کی حیثیت سے کام شروع کیا۔لیکن 1923 میں برطانوی حکومت کے اصرار پر انہیں افغانستان سے نکال دیا گیا ۔1923 کے اخیر میں اقبال شیدائی ماسکو پہنچے جہاں انہیں کمیونزم کا مخالف سمجھ کر گرفتار کیا جانے لگا لیکن ترکی کے سفیر مختار بے نے انہیں اپنی حفاظت میں لے لیا اور انقرہ بھجوا دیا وھاں ترکی کے وزیر حسین روف بے نے بہت باعزت طریقے سے ان کا خیرمقدم کیا ۔دو ماہ کے بعد ترکی کی حکومت نے مزید مہمانداری سے انکار کر دیا ۔چنانچہ 1923 میں اپ یورپ کے لیے روانہ ھوئے اور 30 مئی کو برسیلز پہنچے ۔چند دنوں کے بعد اپ پیرس فرانس چلے گئے۔جہاں ایک ہفتہ قیام کے بعد اقبال شیدائی اٹلی روانہ ھوگیا ۔۔۔10 جون 1923 کو اپ روم پہنچے ۔جہاں گیارہ ماہ قیام کے بعد اپ سے درخواست کی گئی کہ مارسیلز جا کر ہندوستانی تاجروں کے درمیاں پروپیگنڈہ کا کام کریں جو ھر ہفتہ بڑی تعداد میں وھاں اتے تھے ۔تقربیا دو سال کام کرنے کے بعد فرانس کی پولیس نے انہیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا اور مارچ 1930 کو اپ کو گرفتار کرلیا گیا ۔اور حکم دیا کہ پہلی گاڑی سے ھی فرانس سے چلے جائیں ۔مگر چند دوستوں کی مداخلت سے انہیں فرانس میں چند دن مذید قیام کرنے کا موقع مل گیا ۔فرانس سے اپ سوئزرلینڈ پہنچے۔اور کچھ عرصہ وھاں قیام کیا ۔



1941 میں اقبال شیدائی نے روم میں ایک ازاد اور خفیفہ ریڈیو اسٹیشن # ریڈیو ہمالیہ #کے نام سے قائم کیا ۔اسپیکر کے فرائض بھی خود ھی سرانجام دیتے تھے پروگرام مرتب کرنا بھی ان کی ذمہ داری تھی ۔اس وقت دنیا کے جتنے بھی ریڈیو اسٹیشنوں سے پروگرام نشر ھوتے شیدائی صاحب انہیں سن کر پھر اپنے مخصوص انداز میں ان پروگرامز پر تبصرے لکھتے اور پھر نشر کرتے ۔ڈاکڑ صاحب کو کئی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ریڈیو ہمالہ کی نشریات شروع ھوتے ان کا چرچا دور دور تک پھیل گیا ۔ اور لوگ بہت جلد ڈاکڑ صاحب کی اواز سے اشنا ھو گئے ۔ایک دفعہ پنڈت نہرو اور گاندھی جی نے کسی بات پر برطانوی سامراج کی طرف داری کی تو ڈاکڑ شیدائی نے ریڈیو پر سخت انداز میں تنقید کی جس کا حکومت نے نوٹس لیا اور ڈاکڑ صاحب کو طلب کیا اور ان کی جواب طلبی کی تو ڈاکڑ صاحب نے فرمایا کہ مجھے تنقید کا حق حاصل ھے کی اگر میرا اپنا کوئی ادمی بھی کوئی غلطی کرے تو میں اس پر بھی تنقید کروں گا لیکن حکومت اٹلی نے انہیں ایسی باتوں سے باز رہنے کی تلقین کی تو انہوں نے ردعمل کے طور پر ریڈیو پر نشریات بند کر دیں ۔پانچ دن کے اندر اندر اس کا روعمل سامنے ایا جہاں جہاں بھی ریڈیو ھمالیہ کی نشریات سنی جاتی تھیں عوام نے اپنی اپنی حکومتوں پر اسے دوبارہ شروع کرنے کے لیے دباو ڈالا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روم کی حکومت نے ڈاکڑ صاحب کو طلب کیا اور دوبارہ نشریات شروع کرنے کی درخواست کی۔ یہ تھی ایک چھوٹی سے جھلک جس سے پنجابی مجاھد شیدائی کی سرگرمیوں کا پتہ چلتا ھے
ڈاکڑ اقبال شیدائی پہلے ہندوستانی تھے جن کو اپنے ھم وطنوں میں سے سب سے زیادہ مختلف ممالک سے نکالا گیا اس عظیم پنجابی مسلمان مجاھد نے 27 سال یورپ کے ظلمت کدے میں ازادی ملت کی شمع کو روشن رکھا۔۔اقبال شیدائی ان دنوں جلا وطن تھے جب ہندوستان کے مسلمانوں نے قیام پاکستان کا مطالبہ کیا تو ڈاکڑ صاحب تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لے سکے لیکن یہ امر فرمواش نہیں کیا جا سکتا کہ ایک طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد وہ اسلامی ممالک میں سے ھوتے ھوئے پاکستان پہنچے اور راستے میں انہوں نے مسلم برادری کو پاکستان سے روشناس کراتے رھے انہوں مشرق وسطی کے مختلف الخیال سیاستدانوں کو پاکستان کے قیام پر متفق کیا اور کانگریس نے دس برس میں اپنے پروپیگنڈے سے جو طلسم باندھا تھا وہ ڈاکڑ صاحب کی دو مہینے کی مساعی سے ٹوٹ گیا
ڈاکڑ صاحب کو رئیس الامراء مولانا محمد علی جوھر ۔مولانا شوکت علی جوھر۔حکیم اجمل خان ۔مولانا عبید اللہ سندھی ۔مولانا ابوالکلام ازاد کے ساتھ مل کر کام کرنے کا شرف حاصل رھا تھا ۔تحریک ازادی کے دیگر عظیم راہنماوں کے ساتھ بھی ڈاکڑ صاحب کا رابط رہتا تھا جن میں علامہ اقبال ۔قاید اعظم ۔ڈاکڑ انصاری ۔سید عبدالرحمان صدیقی ۔چویدری خلیق الزمان ۔چویدری محمد ظفر اللہ خان ۔گاندھی جی ۔جواھر لال نہرو ۔مولانا ظفر علی خان ۔سوبھاش چندر بوس اور دیگر بے شمار راہنما شامل ھیں ۔
ڈاکڑ صاحب نے اپنی جلاوطنی کا عرصہ مختلف ممالک میں بسر کیا ۔جب ایک حکومت کو ان کی سامراج دشمن سرگرمیوں کا پتہ چلتا تو وہ ان کو فورا ملک چھوڑنے کا حکم دیتی ۔اس طرح وہ بہت سے ممالک میں طویل عرصہ تک رھائش پزیر رھے ان ممالک میں مصر ۔استنبول( ترکی) ۔روم ۔جرمن ۔فرانس ۔افغانستان ۔لیبیا ۔سعودی عرب ۔اور تیونس وغیرہ شامل ھیں ۔یورپ اور سعودی عرب کے تمام برطانیہ دشمن لیڈروں اور مدبرین سے اپ کے دوستانہ تعلقات تھے ۔ڈاکڑ اقبال شیدائی واحد ہندی مسلمان تھے جن کے لیے ہٹلر ۔مسولینی ۔امیر شکیب ۔ارسلان ، رشید الحسن الگیلانی۔ سابق شاہ امان اللہ اور شاہ نادر خان کے قلوب میں یکساں احترام تھا

ڈاکڑ صاحب میں بغادت کا جذبہ بے پناہ تھا ان کی یہ بغاوت انگریزوں اور سامراجیوں کے خلاف تھی اور مظلوم عوام کے حقوق کے لیے تھی ۔اپنی باغیانہ سرگرمیوں کی وجہ سے وہ کالج کے زمانہ سے ھی برطانوی حکومت کے نظر اگئے تھے ایک مرتبہ سیالکوٹ میں پرنس اف ویلز کی امد کے موقع پر ڈاکڑ اقبال پولیس کی نظر میں رھے کیونکہ پولیس ان کی باغیانہ سرگرمیوں کی وجہ سے خطرناک شخص تصور کرتی تھی ۔اس لیے کچھ عرصہ کے لیے اقبال شیدائی کو سیالکوٹ کے نواح میں واقع ان کے ابائی گاوں # کوٹلی بھٹہ # میں نظر بند کر دیا گیا ۔
ڈاکڑ صاحب جہاں بھی گئے بس ایک ھی اواز لے کر گئے وہ تھی انقلاب کی اواز ۔۔۔انگریزی اقتدار اور وطن کی ازادی کی تڑپ سے برابر ان کا سینہ جلتا رھا انہیں بے شمار مشکلات برداشت کرنے کے بعد اپنے وطن کو چھوڑنا پڑا ۔اور دشت غربت کی خاک چاٹنے کی دعوت ملی مگر افرین ھے شیدائی کی ہمت اور جرات پر کہ اس مصیبت میں کلمہ حق ان کی زبان زبان پر ھی رھا ۔ملت اسلامیہ کے اس فرزند نے جب جلاوطنی کی زندگی اختیار کی تو وہ ایک نوجوان تھا ستائیس سالوں میں دنیا میں کئی انقلاب ائے ۔تاریخ اسلام میں بہت سی ترمیمات ھوئی کئی ملک بنے کئی بگڑے اور پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک نقشہ عالم میں نمودار ھوا ۔ڈاکٹر شیدائی نے یہ سب انقلاب اپنی انکھوں سے دیکھے ۔
اس انقلاب میں ان کی حیثیت محض ایک تماشائی کی نہ تھی بلکہ ایک سچے شیدائی کی سی تھی ان کو یورپ کے بڑے بڑے مدبروں اور ڈکٹیڑوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا لیکن انہوں نے کبھی اپنی خود داری کو اپنے ھاتھ سے نہیں جانے دیا اور کسی قیمت پر بھی کسی غیر ملکی طاقت کا الہ کار بننا گوارا نہیں کیا ۔پہلی ازاد ہند گورنمنٹ کے صدر اور انڈین نیشنل ارمی کے بانی جناب اقبال شیدائی تھے انہوں نے 1941 میں مسولینی کی اجازت سے انڈین نیشنل ارمی قائم کی ۔اس کا مقصد ہندوستانی جنگی قیدیوں کے کیمپوں سے قوم پرست جوانوں کو منتخب کرنا اور انہیں فوجی تربیت دے کر ازادی کی جنگ میں شریک کرنا تھا۔شیدائی کئی سال روم اور بعد میں میلان میں ٹھہرے رھے ۔ان کا حلقہ اثر اٹلی میں بہت وسیع ھو گیا تھا ۔سیاسی تجارتی اور ثقافتی حلقوں میں جتنا رسوخ شیدائی صاحب کو حاصل تھا کسی ایشیائی فرد کو حاصل نہ تھا اٹلی کی حکومت نے اپنا سب سے اعزاز جو اس وقت صرف اٹھ اصحاب کے پاس ھے اقبال شیدائی کو دیا ۔شیدائی ٹیورن پونیورسٹی روم میں اردو شعبہ کے انچارج بھی رھے ۔اپ 1945 تک شعبہ اردو کے انچارج رھے اور بہت سے اطالوی افسران اور تاجروں کو اردو پڑھائی ۔شیدائی 27 سال سے زیادہ جلاوطنی کے بعد اکتوبر 1947 میں اپنے ازاد وطن پاکستان تشریف لائے اور کراچی اہرپورٹ پر اترے تو اس وقت کے فنانس سیکڑیری چویدری محمد علی اور دیگر ساتھیوں نے شیدائی صاحب کو خوش امدید کہا جب اپ لاھور تشریف لائے تو ہوائی اڈے پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا ۔ان کے استقبال کرنے والوں میں میاں امیر الدین ۔حمید نظامی ۔کرنل بی ایچ ۔ملک لال دین ۔مولانا ظفر علی خان ۔ڈاکڑ محمد جمال بھٹہ جیسے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اصحاب و عوام کی کثریت تعداد موجود تھی ۔
ڈاکڑ اقبال شیدائی بھٹہ ایک انقلابی تھے اور ان کے کردار کا یہی رخ سب سے روشن رھا اور ان کی صفائی گوئی اور جرات مندی سے سب متاثر تھے ۔روزنامہ امروز لاھور میں ان کی سرگزشت کئی سال تک مسلسل شائع ھوتی رھی بہت سے لوگ ان کی تحریروں سے سیخ پا بھی ھوئے لیکن کوئی ان کو سچ کہنے سے نہ روک سکا ۔سبھاش چندر بوس سے لیکر عبید اللہ سندھی تک جس کسی کے بارے میں انہیں جو کچھ بھی معلوم تھا وہ لکھتے تھے انہوں نے جن زعما کے بارے میں لکھا ان سے ان کے ذاتی تعلقات و سیاسی مراسم بھی تھے اس لیے انہوں بہتوں سے بہتر طور پر سمجھتے تھے ۔بابائے اردو مولوی عبد الحق نے ایک بار لکھا تھا کہ ” شیدائی کا سینہ خزیہ اسرار ھے وہ راز جن کی ہوا دوسروں تک نہ پہنچی وہ شیدائی صاحب کے حافظ میں محفوظ ھے” ڈاکڑ شیدائی نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے لیے بڑا فعال کردار کیا کیونکہ اقبال شیدائی کے مشرقی وسطی اور یورپ کے بہت سے ممالک سے ذاتی تعلقات تھے جہنوں نے شیدائی صاحب کو کوششوں سے پاکستان کے حق میں ووٹ دیئے ۔۔
اپ پاکستان کے اس وفد کے بھی رکن تھے جس نے مسلہ کشمیر کے لیے جنرل اسمبلی میں شرکت کی اس وفد کے سربراہ وزیر خارجہ چویدری ظفر اللہ خان تھے ۔
ھماری زادی کی تحریک کا یہ ناقابل شکت اور جری مجاھد اپنی عمر کی جدوجہد کے اس ثمر کو دیکھنے واپس ازاد ملک پاکستان ایا تو بدقسمتی سے ھمارے خود غرض سیاستدانوں نے شیدائی کی بے پناہ صلاحیتوں سے سے خاطر خواہ. فائدہ نہ اٹھایا جب شیدائی صاحب نے محسوس کیا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو ان کی کوئی خاص ضرورت نہیں ھے تو وہ سیاست کو چھوڑ کر خانہ نشین ھو گئے ۔اخر 13 جنوری 1974 کو سامراجیوں کا دشمن ازای کا متوالا اقبال شیدائی بھٹہ جن کے قدموں کی چاپ سے براعظم گونجتے تھے اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ان کی جنازہ میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی اپ کو لاھور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا اس وقت کے صدر پاکستان چویدری فضل الہی اظہار تعزیت کے لیے ان کی رھائش گاہ علامہ اقبال ٹاون تشریف لائے
ڈاکڑ محمد اقبال شیدائی بھٹہ ایک سچے اور کھرے مسلمان تھے انہیں اپنے مذہب سے بے حد لگاو تھا انہوں نے اپنی ساری عمر اسلام کی سر بلندی اور مسلمان قوم کی ازادی کے حصول میں بسر کردی ان کی اسلام سے محبت کا ایک ثبوت ان کے نام کے شیدائی کا لفظ ھے یہ خانہ کعبہ سے منسوب ھے جو مولانا محمد علی جوھر اور مولانا شوکت علی جوھر کی قائم کردہ # خدام کعبہ # نامی تنظیم نے دیا تھا شیدائی کعبہ پورے ہندوستان میں صرف نو افراد کو دیا گیا تھا انہی نو افراد میں ایک اقبال شیدائی تھے ۔جنگ عظیم اول کے دوران باقی 8 شیدائیوں نے انجمن خدام کعبہ سے استعفیٰ دے دیئے تھے انگریز سرکار کے ڈر سے شیدائی کا خطاب واپس کر دیا تھا مگر ڈاکڑ اقبال شیدائی نے ایسا نہ کیا ۔
شیدائی صاحب کی اسلامی خدمات کے حوالے سے مولوی صدرالدین فرماتے ھیں کہ شیدائی پکا اور سچا مسلمان تھا اسے اسلام سے گہری محبت تھی اسی جذبہ کے تحت شیدائی صاحب نے کام کیا اور کبھی نقصان کی پروا نہیں ۔وہ مسلمان کی ازادی کے خواہاں تھے یہی وجہ ھے کہ انہوں نے ازادی کی خاطر اپنا وطن اور گھر بار چھوڑا یقینا یہ بہت بڑی قربانی تھی
اج وہ عظیم انقلابی شخصیت ھمارے درمیان نہیں ھے جس نے ھماری ازادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا لیکن ان کی یاد رہتی دنیا تک قائم رھے گئی انہوں نے جو قربانیاں دیں وہ ھمارے لئے مشعل راہ ھیں اور اگر ھم ان اصولوں پر قائم رھے تو ھماری قوم ایک ازاد اور زندہ قوم بن کر ابھرے گئی شیدائی کی سوانح عمری انقلابی کی سرگزشت کے عنوان سے روزنامہ امروز اور نوائے وقت میں شائع ھوتی رھی۔ 1974 میں شہید بھٹو نے ریڈیو پاکستان کو ہدایت جاری کیں کہ وہ شیدائی صاحب کی جدوجہد پر مبنی انکے انڑویو کا سلسلہ شروع کرے مگر زندگی نے مہلت نہ دی ( ڈاکڑ اقبال شیدائی بھٹہ راقم شہزاد بھٹہ کے نانا علی اکبر بھٹہ کے چھوٹے بھائی تھے )