انسانی حقوق ، خواتین کے حقوق یکساں ہیں


ڈاکٹر توصیف احمد خان
====================
انسانی حقوق علیحدہ ہیں، خواتین کے حقوق علیحدہ ہیں۔ خواتین کی تعلیم کی نوعیت ہر معاشرے میں مختلف ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے پاکستان کے قبائلی اضلاع اور افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اوآئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کی تقریرکے ان ریمارکس کے بعد ان میں اور مولانا فضل الرحمن ، ملا فضل اﷲ اور طالبان قیادت کے خیالات میں معمولی سا فرق رہ گیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان 1999سے طالبان کے نظریے کی مدح سرائی کرتے رہے ہیں مگر افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد وہ افغانستان کی مددکے لیے دلائل دیتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک جمہوی ملک کے وزیر اعظم ہیں ، جس ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے خواتین کی تعلیم، مرضی سے شادی اورکم سن مسلمان بچیوں کی شادی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
عمران خان نے لاہورکے کھلے، ماڈرن اور لبرل ماحول میں تعلیم حاصل کی ، وہ ایچی سن کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے اور پھر لندن چلے گئے جہاں انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ عمران خان کی تعلیم زندگی ’’ کو ایجوکیشن‘‘ کے ماحول میں گزری۔ وہ ایک زمانہ میں برطانیہ کے امراء کی سوسائٹی ، بھارت اور پاکستان کی فلم انڈسٹری کی فلمی ہیروئنز میں مقبول رہے۔

وہ پاکستان اور بھارت کے امراء اور متوسط طبقے کی خواتین کے پسندیدہ لوگوں میں شامل تھے ، لیکن سیاست میں آنے کے بعد ان کے رجعت پسند نظریات سے عوام کو آگاہی ہوئی ، اس پر انھیں سخت حیرانی ہوئی ہے ۔

دنیا میں ترقی کے بہت سے ماڈل سامنے آئے۔ یورپ میں نشاۃِ ثانیہ کے ساتھ ترقی کا آغاز ہوا۔ بھاپ کے انجن نے صنعتی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ صنعتی معاشرے کی چند بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں۔ ایسے معاشرے کے لیے تعلیم لازمی ہوتی ہے۔ جب صنعتیں لگتی ہیں تو چھوٹے شہر بڑے شہروں میں تبدیل ہوتے ہیں اور نئے شہر آباد ہوتے ہیں۔ یورپ میں صنعتی معاشرہ کے ساتھ متوسط اور مزدور طبقہ پیدا ہوا۔ صدیوں سے استحصال کا شکارکسان ، دیہات سے ہجرت کرکے شہروں میں آباد ہوئے اور صنعتی مزدور بن گئے ، ان میں عورتیں اور مرد دونوں شامل تھے۔ صنعتی ترقی کا حصہ بننے کے لیے تعلیم لازمی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کیا گیا۔ بعض ماہرین نے لکھا کہ 14ویں اور 15ویں صدی میں برطانیہ میں ایک تہائی سے زیادہ خواتین خواندہ تھیں۔ ایشیا میں سب سے پہلے صنعتی ترقی کا آغاز جاپان میں ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ جاپان میں میجی انقلاب کے وقت خواندہ خواتین کی تعداد دو تہائی تک پہنچ گئی تھی۔ خواتین کے تعلیم حاصل کرنے سے یورپ میں غربت و افلاس کے خاتمہ کا عمل تیز ہوا۔ خواتین تعلیم یافتہ ہو کر زندگی کے ہر شعبہ میں متحرک ہوئیں ، جب خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد برسر روزگار ہوئیں تو ان کی آمدنی بڑھنے لگی۔ ایک زمانہ تھا کہ 10افراد کے خاندان میں صرف خاندان کا سربراہ کام کرتا تھا۔ یوں آمدنی محدود تھی مگر جب خاندان کے سربراہ کے ساتھ اس کی اہلیہ اور تعلیم یافتہ بالغ لڑکیاں بھی کام کرنے لگیں تو خاندان میں خوشحالی کا دور شروع ہوا۔

یورپ اور جاپان میں تعلیم عام ہونے کی بناء پر صرف خاندانوں میں خوشحالی ہی نہیں آئی بلکہ ان کی جی ڈی پی میں اضافہ ہوا۔ یوں ریاست تعلیم ، صحت ، ذرایع آمدورفت اور شہروں اور گاؤں کی ترقی پر وافر مقدار میں رقوم خرچ کرنے لگی۔ ایک طرف سائنسی ایجادات دوسری طرف آمدنی میں اضافہ سے زندگی کے معیار کو بلند کرنے میں مدد ملی۔ برطانیہ میں سرد موسم کی بناء پر کوئلہ توانائی کا واحد ذریعہ تھا۔

گھروں میں کھانے پکانے اورکمروں کو گرم کرنے کے لیے کوئلہ استعمال کیا جاتا تھا۔ کوئلہ کے ذرات سے انسانوں، جانوروں اور درختوں کی صحت متاثر ہوتی تھی۔ اب بجلی اور گیس توانائی کے لیے استعمال ہونے لگے، یوں صحت کا معیار بہتر ہوا۔

خواتین کی تعلیم سے صرف صنعتی ترقی ہی نہیں ہوئی بلکہ جمہوری نظام بھی مستحکم ہوا۔ برطانیہ میں میگنا کارٹا معاہدہ کے بعد سیاسی جماعتیں، مزدور اورکسان یونین اور سول سوسائٹی کے ادارے قائم ہوئے تو ان میں خواتین کی شرکت بڑھ گئی۔ ایک وقت آیا کہ یورپ کے کئی ممالک میں خواتین وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئیں۔ جب 1917 میں کمیونسٹ پارٹی نے لینن کی قیادت میں پہلی سوشلسٹ ریاست قائم کی تو اس کے آئین میں تعلیم کو لازمی قرار دینے کے ساتھ خواتین کے ساتھ امتیاز کے تمام قوانیں کو غیر آئینی قرار دیا گیا، یوں سوویت یونین کی حیرت انگیز ترقی میں خواتین کا اہم کردار رہا۔

چین کا شمار 18ویں اور 19ویں صدی میں دنیا کی پسماندہ ترین اقوام میں ہوتا تھا۔ جب جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ نے کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں تاریخی لانگ مارچ کیا تو خواتین بھی ان کے ساتھ تھیں۔ 1948 میں چین میں کمیونسٹ انقلاب کامیاب ہوا تو خواتین کے لیے بھی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور ہر قسم کے امتیازی سلوک کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔ خواتین چین میں ہر شعبہ میں متحرک ہوگئیں اور آج چین ایک سپر پاور بن گیا ہے۔

ہندوستان میں مسلم اقتدار کے آخری دور تک عام گھرانوں کی خواتین کی تعلیم کا کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں تھا بلکہ شاہی خاندان کی خواتین کے لیے کوئی درسگاہ نہیں تھی اور ان خواتین کو شاہی محلات میں تھوڑی بہت تعلیم دلائی جاتی تھی۔

انگریز دور میں خواتین کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستان جن علاقوں میں قائم ہوا وہاں خواتین میں تعلیم کی شرح انتہائی کم تھی۔ عمران خان پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے گن گاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان کی آمریت نے عوام کی تعلیم خاص طور پر خواتین کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ انھیں تعلیم کی اہمیت کا کوئی ادراک تھا۔

محسوس نہیں کیا۔ آمریت کے بعد جمہوری حکومتوں نے بھی تعلیم کو خاطرخواہ توجہ نہیں دی اور آج بھی حالت یہ ہے کہ تعلیم کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ خواتین کی تعلیم کو وہ اہمیت نہیں ملی جو بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تعلیم اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بہت پیچھے ہے۔ مذہبی اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو بہت مشکل سے قبول کیا۔

جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس نے خواتین کی تعلیم اور سیاسی عمل میں شرکت کو یقینی بنایا جب کہ جمعیت علماء اسلام کے رہنما ہمیشہ خواتین کی تعلیم کے مخالف رہے۔ چند سال قبل جب جمعیت علماء اسلام کا ایک اساسی اجلاس منعقد ہوا تھا تو اس اجلاس میں کوئی خاتون شریک نہیں تھی۔ طالبان، دینی مدارس کی پیداوار ہیں۔ انھوں نے اپنے دور میں خواتین کی تعلیم پر قدغن لگائی۔ انھیں کام کرنے سے روکا۔ طالبان کی نئی حکومت ابھی تک خواتین کو تعلیم کا حق دینے کے بارے میں واضح پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے ، جب قبائلی علاقوں میں طالبان کے حامی آئے تو انھوں نے خواتین کے اسکولوں کو تباہ کیا۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علماء اسلام کی کامیابی کو منفی صورتحال سے تشبیہ دی ہے مگر عمران خان کے یہ خیالات تو مولانا فضل الرحمن کو بھی پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ملک کی اقتصادی پسماندگی کی وجہ دو خاندانوں پر عائد کرتے ہیں مگر وہ فواد چوہدری سے مشورہ کریں تو انھیں یہ بات ضرور سمجھائیں کہ ملک کی اقتصادی بدحالی اور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کی ایک بڑی وجہ جدید تعلیم کا کم ہونا ہے ، اگرکوئی مشیر وزیر اعظم صاحب کو نوبل انعام یافتہ بھارتی اقتصادی ماہر امرتاسین کے ترقی کے ماڈل کے بارے میں سمجھائے تو اس ملک پر بڑا کرم ہوگا۔

21 ویں صدی کے 20 سال گزرنے کے بعد وزیر اعظم کا یہ بیانیہ کہ مختلف معاشروں میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، ان لوگوں کے لیے یقیناً پریشان کن ہوگا جو ان سے جدیدیت پر مبنی کچھ تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے بغیر انسانی حقوق کا تصور نہیں ہے، یہ اصول تمام معاشروں کے لیے یکساں ہے۔

https://www.express.pk/story/2264487/268/