سندھ کا فواد حسن فواد اور اعظم خان کون ؟

اسلام آباد میں نواز شریف سے لے کر عمران خان کی حکومتوں تک جن طاقتور سرکاری افسران کا چرچا ہوا ان میں پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر فواد حسن فواد اور اعظم خان کے نام نمایاں ہیں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو تو تبدیلی کی مخالفانہ ہواؤں کے تھپیڑے خوب محسوس ہو چکے اور اب سرکاری حلقوں میں اعظم خان کا مستقبل بھی بہت سے ڈراؤنے خوابوں پر مبنی بتایا جاتا ہے ۔۔۔بس اللہ خیر کرے ۔

پاکستان کی بیوروکریسی میں جو چہرے تیزی سے مقبولیت حاصل کرتے ہیں اور انتہائی طاقتور حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ان کے عروج کا ستارہ جب ٹوٹتا ہے تو زمانے کے گردن کو مسائل سے دوچار کر دیتی ہے سابق وزیراعظم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے ادوار کے پرنسپل سیکریٹری اور دیگر سرکاری افسران ماضی میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد سخت مشکلات اور مسائل کا سامنا کر چکے ہیں اس لیے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری کی حیثیت سے اعظم خان اور دیگر طاقتور سرکاری افسران کے مستقبل کے حوالے سے سرکاری حلقوں میں کافی خوفناک باتیں سننے میں آ رہی ہیں کہ اگر کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن سے بدلتے موسم کا اندازہ لگانے والے آنے والے وقت میں صورتحال اسلام آباد میں بھی ڈرامائی تبدیلی کی طرح دیکھ رہے ہیں تو پھر کچھ اہم سرکاری افسران کا صرف بوریا بستر گول نہیں ہوگا بلکہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوسکتا ہے جو فواد حسن فواد اور ماضی میں دیگر طاقتور سرکاری افسران کے ساتھ ہوتا رہا ہے ۔یہ بات طے ہے کے سارے سرکاری افسران کی قسمت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔نہ تو ہر شخص سلمان فاروقی ہے نہ احمد صادق اور نہ ہی سراج شمس – سعید مہدی -۔تبدیلی کے موسم میں چراغ سب کے بجھیں گے ہیں کیونکہ ہوا کسی کی نہیں ہوتی ۔
پنجاب اور خیبر پی کے میں چہیتے افسران کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہے بلوچستان میں وزیر اعلی کی تبدیلی کے بعد مختلف افسران اپنی بچت کا راستہ تلاش کر رہے ہیں ۔جہاں تک سینے کا تعلق ہے تو یہاں اکثر سیاسی اور سرکاری محفلوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ سندھ کا فواد حسن فواد اور اعظم خان کون ہے ؟

بظاہر سندھ کے وزیر اعلی ہاؤس میں ایسا کوئی دبنگ اور رعب دار افسر موجود نہیں ہے جو سندھ کے سرکاری معاملات کو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر چلائے ۔ماضی میں جام صادق اور مظفر حسین شاہ تک وزیراعلی ہاؤس میں دبنگ افسران موجود تھے لیکن عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ کے دور میں بھی وزیراعظم ایسا کوئی باک نہیں ہے جسے مخالفین ڈان کہ سکیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعلی سید قائم علی شاہ کے دور میں بھی پرنسپل سیکرٹری تبدیل تو ہوتے رہیں لیکن کسی ایک افسر کو سلطان راہی کی حیثیت حاصل نہ ہو سکی ۔
سندھ کے وزیر اعلی کو جب سرکاری معاملات چلانے ہوتے ہیں تو اس کی معاونت کے لیے بظاہر دو نمایاں افسران موجود رہتے ہیں ان دو افسران میں اس وقت 12 چیف سیکرٹری سندھ ممتاز علی شاہ ہیں اور دوسرے پرنسپل سیکرٹری ٹو سی ایم ساجد جمال ابڑو ہیں۔ اتفاق سے یہ دونوں ہی افسران بہت شریف النفس اور سادہ مزاج کے افسر مانے جاتے ہیں ۔ان دونوں افسران نے اپنا تمام وقت ان عہدوں پر نہایت عمدگی سے گزرا ہے اور بہترین انداز سے کام کر رہے ہیں اور ان کے فیصلوں اور اقدامات پر کوئی شخص انگلی نہیں اٹھا سکا ۔
دوسری جانب وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے سیاسی مخالفین کا اصرار ہے کہ سندھ کے سرکاری معاملات میں اسلام آباد میں بیٹھے ایک اہم اور طاقتور شخص کا عمل دخل بہت زیادہ ہے جو نہایت ہوشیاری چالاکی اور ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور بیٹھ کر پردے کے پیچھے سے سارا تماشا چلاتا آرہا ہے اور فرنٹ اسٹیج پر اس کا کوئی نام نہیں لیتا ۔یہ شخص خود بھی تجربہ کار اور ذہین سرکاری افسر ہے اور وزیراعلی سے قرب بھی رکھتا ہے ۔مراد علی شاہ کے پورے دور میں اس شخص کے کردار کو اہمیت حاصل رہی ہے اور سرکاری افسران بھی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص سندھ کے معاملات پر ناصرف گہری نظر رکھتا ہے بلکہ وزیراعلی کو سرکاری معاملات میں مشکل فیصلوں کے موقع پر ریسکیو بھی کرتا ہے لیکن اسے نہ تو سندھ کا فواد حسن فواد کہا جا سکتا ہے نہ ہی اعظم خان ۔۔۔۔
گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے دور میں وزیر اعلی ہاوس میں نہ تو کوئی فواد حسن فواد موجود ہے نہ ہی اعظم خان ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ سندھ کا وزیر اعلی خود اپنے فیصلوں میں طاقتور اور با اختیار ہے اور وہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے کسی فواد حسن فواد یا اعظم خان کا مرہون منت نہیں ۔ اس صورتحال پر سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پھر آنے والے دنوں میں اگر صوبائی حکومت کے کاموں اور معاملات پر کوئی سوالیہ نشان لگے تو جواب بھی صرف وزیراعلی کی حیثیت سے مراد علی شاہ کو ہی دینا ہوں گے جبکہ قانون نہیں ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی کسی فیصلے میں اکیلے ذمہ دار نہیں ہیں کیونکہ عدالت بھی قرار دے چکی ہے کہ حکومت سے مراد درحقیقت وزیراعلی اور صوبائی کابینہ ہوتی ہے جس طرح وفاق میں حکومت سے مراد وزیراعظم اور کابینہ ہے اسی طرح صوبے میں تمام فیصلوں کی منظوری وزیر اعلی صوبائی کابینہ سے لیتے ہیں ۔
سرکاری حلقوں میں یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں بے شک فواد حسن فواد اور اعظم خان جیسا طاقتور افسر تو موجود نہیں ہے لیکن وہاں جاسوسی کا ایک بڑا نیٹ ورک ضرور موجود ہے جو وزیراعلی کے ہر ایکشن ہر ملاقات اور ہر فون پر نظر رکھتا ہے اور وزیر اعلی سے بھی زیادہ طاقتور شخصیات اور حلقوں کو یہاں ہونے والی سرگرمیوں کی پل پل کی خبر دیتا رہتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس اسی کے اس زبردست نیٹ ورک میں کون کیا کردار ادا کر رہا ہے اس بارے میں وزیر اعلی نہ تو زیادہ انجان ہیں نہ ہی زیادہ فکر مند ۔۔۔۔۔۔!

===========================================
==============================================

وفاقی بیورو کریسی میں اعلیٰ سطح کے تقررو تبادلے کئے گئے ہیں ۔ وفاقی سیکرٹری قومی ورثہ ڈویژن اور پا کستان ایڈ منسٹر یٹو سروس کے گریڈ22 کے افسر سید آصف حیدر شاہ کو تبدیل کرکے وفا قی سیکرٹری پاور ڈویژن، وفاقی سیکرٹری پاور ڈویژن اور پاس کے گریڈ22 کے افسر علی بھٹہ کوتبدیل کرکے و فا قی سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن تعینات کیا گیا ہے۔ وفاقی سیکرٹری وزارت تعلیم و تربیت ناہید ایس درانی کو سیکرٹری قومی ورثہ کا اضافی چارج تفویض کیا گیا ہے۔صوبائی سول اور مینجمنٹ سروسز کے گریڈ 19 افسران کو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں شامل کیاگیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 11 افسران کی شمولیت کے نوٹیفکیشن جاری کر د یے ہیں۔پنجاب سے 4، بلوچستان سے 2، سندھ سے 3 افسران کی شمولیت خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان سے ایک ایک افسر شامل کئےگئے ہیں۔صوبائی افسروں نے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں شمولیت کا امتحان دیا تھا،صوبائی افسران 2 سال پروبیشن پر تصور کئے جائیں گے۔افسران کی سنیارٹی ایڈمنسٹریٹو سروس میں ریگولر تقرری کی تاریخ سے شمار ہو گی ۔صوبائی سول سروس گریڈ19 کے دادیو زہرانی ‘ عمران رضا، منصور احمد، طارق قریشی ‘راشد مسعود خان، ریاض احمد، مہر شاہد زمان‘ عابد اللہ، عامر انصاری ‘ فیصل احسن پیر زادہ، نجیب اسلم پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں شامل کئے گئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نےان تقررو تبادلوں کےنوٹیفکیشن جاری کردیے ہیں۔

https://e.jang.com.pk/detail/17643%22