موٹروے کا پل غائب ہو گیا ۔۔۔افسران گم سم ۔۔۔! کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ؟

دنیا بھر میں جہاں جہاں سمندر ہے وہاں موٹرویز کو بندرگاہ سے شروع کر کے ملک کے بالائی حصوں تک لے جایا جاتا ہے تاکہ باہر سے آنے والا سامان بحری جہاز سے اتارے جانے کے بعد تیز رفتاری سے ملک کے بالائی حصوں تک پہنچایا جا سکے پاکستان میں سب سے مصروف بندرگاہ کراچی میں ہیں پہلے کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم جیسی بندرگاہیں کام کر رہی ہیں اس کے بعد گوادر بندرگاہ بنائی گئی پاکستان میں موٹروے کا منصوبہ گوادر بندرگاہ کو ملک کے بالائی حصوں تک سامان پہنچانے کے حوالے سے اہمیت کا حامل رہا

بہت بعد میں اسے کراچی کی بندرگاہوں سے جوڑنے کے منصوبے پر کام شروع ہوا لیکن تاحال موٹروے کراچی کی بندرگاہوں سے سامان ملک کے بالائی حصوں تک پہنچانے کے لیے مکمل نہیں ہو سکی کراچی سے حیدرآباد تک موٹروے کا نام تو سڑک کو حاصل ہے لیکن یہ پہلے سے موجود سفر ایویں تھی جیسے اب گریڈ کر کے

موٹروے کا نام دیا گیا اور نئے سرے سے موٹروے نہیں بنائی گئی جیسے لاہور اور راولپنڈی کے درمیان بنائی گئی تھی یا جیسے راولپنڈی سے اسلام آباد تک اور گوادر سے پنجاب تک بنانے کا فیصلہ ہوا ۔


موٹر وے منصوبے کے مکمل ہونے کا انتظار کرنے والے پاکستانی عوام کو صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ سکھر سے حیدرآباد تک موٹروے مکمل ہونے کے بعد یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ سکھر سے حیدرآباد تک آنے والی موٹروے حیدرآباد میں دریائے سندھ کہاں سے عبور کرے گی واقف یہاں لوگوں کا بتانا ہے کہ سکھر سے


نوابشاہ تک روڈ فائنل کر لیا گیا ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ نواب شاہ سے آگے حیدرآباد یہ سڑک کہاں پہنچے گی اور کس مقام سے دریائے سندھ کو عبور کرکے کراچی جانے والی موٹروے سے جڑے گی دریائے سندھ پر نئی موٹروے کا بننے والا پُل ابھی تک ڈیزائن سمیت غائب ہے اس کا کچھ اتا پتا نہیں ہے کہ وہ کل کہاں سے بنے گا اور اس کے لیے زمین کی خریداری کہاں سے ہو گی کیونکہ جس مقام پر پل بنانے کا فیصلہ ہوگا اس کے دونوں جانب سرکاری حکام کو زمین خرید کر فراہم کرنی ہوگی اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل منعقد کیے گئے کہ اجلاس میں موٹرویز این ایچ اے اور متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے افسران یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کل کہاں بنے گا اور دریائے سندھ سے موٹروے کس مقام سے عبور کرے گی نوابشاہ سے حیدرآباد تک وہ موٹروے کس مقام پر آئے گی اس حوالے سے افسران گم سم رہے اور انہیں کچھ پتہ نہیں تھا اور اعلی حکام نے انہیں اندھیرے میں رکھا ہوا ہے نہ کوئی نقشہ نہ کوئی ڈیزائن نہ کوئی تفصیلات ۔زبانی طور پر باتیں کی جارہی ہیں لیکن عملی طور پر سکھر سے کراچی کو جوڑنے والی موٹر وے دریائے سندھ سے کہاں سے گزرے گی یہ نہیں پتا اس کا بل کس مقام پر بنے گا اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا ۔