جنسی ہراسانی کے کیسز میں بیوروکریٹ، 22 گریڈ کے افسر بھی شامل ہیں۔ بینکوں اور بڑے بڑے آرگنائزیشن کے ہیڈز کو اس معاملے پر استعفی دینا پڑے

کشمالہ طارق کا کہنا ہے کہ جنسی ہراسانی کے کیسز میں بیوروکریٹ، 22 گریڈ کے افسر بھی شامل ہیں۔

بینکوں اور بڑے بڑے آرگنائزیشن کے ہیڈز کو اس معاملے پر استعفی دینا پڑے۔

قبل ازیں وفاقی محتسب برائے تحفظ ہراسانی کشمالہ طارق نے کہا ہے کہ آزادانہ طور پرہراساں کیے جانے کے خوف کے بغیر کام کرنے کا موقع فراہم کیا جانا ہر عورت کا حق ہے۔کشمالہ طارق نے جنسی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 دن کی سرگرمی کے موضوع کے تحت منعقدہ ایک آگاہی سیشن میں شرکت کی۔پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک، اقوام متحدہ کی خواتین کی کنٹری نمائندہ برائے پاکستان شرمیلا رسول اور دیگر بھی موجود تھے۔
گزشتہ دنوںمنعقدہ تقریب میں پی آئی اے کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی محتسب کشمالہ طارق نے کہا کہ پاکستان کی تقریبا نصف افرادی قوت خواتین پر مشتمل ہے، جنکی اکثریت کو معاشرتی اور معاشی خوشحالی میں بھرپور حصہ ڈالنے سے محروم رہنے کا احساس رہتا ہے، جس کی وجہ انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہر عورت کا حق ہے کہ انہیں آزادانہ طور پرہراساں کیے جانے کے خوف کے بغیر کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے جس طرح ہمارے معاشرے کے مرد اراکین کو فراہم کیا جاتا ہے۔

وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کشمالہ طارق کا کہنا ہے کہ مجھے کئی مرتبہ ہراساں کیا گیا۔اس عہدے پر بھی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔میرے دور میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کو سنجیدگی سے لیا گیا۔سماء نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے کئی مرتبہ ہراساں کیا گیا۔میرے دور میں جنسی ہراسانی کیس میں سات گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
دلیرانہ فیصلے کی وجہ سے میری کردار کشی کی گئی ہے۔ استعفیٰ لینے کے لئے مجھ پر دباؤ ڈالا گیا۔کشمالہ طارق نے مزید کہا کہ سیاست سے علیحدگی کے بعد بہت اچھا محسوس کرتی ہوں، واپس اپنی ہی فیلڈ میں کام کرنا بہت اچھا لگا

==============================================

فیصل آباد میں خواتین کو برہنہ، تشدد اور ویڈیو وائرل کرنے کے معاملے میں نیا موڑ آگیا ہے۔باوا چک پولیس نے خواتین کے ساتھ موجود دو مرد ساتھیوں کی تلاش شروع کر دی ہے جو جائے وقوعہ کے روز خواتین کے ساتھ موجود تھے۔پولیس کی موصول ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مذکورہ مرد واقعے کے بعد ویڈیو بناتے رہے۔
خواتین کے ساتھیوں نے ہی نازیبا ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی۔ برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمہ میں گرفتار پانچوں ملزمان کو عدالت میں پیش کئے بغیر تین دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا تھا، اس سلسلہ میں ملزموں کی عدالت میں پیش نہ کیے جانے پر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر، ممتاز قانون دان ملک محمد ایوب سیالوی ایڈووکیٹ نے کہا کہ خواتین کی چوری کیخلاف ہم نے بھی درخواست اسی دن دی تھی مگر ہماری درخواست پر کوئی کارروائی نہ کی گئی اور الٹا جھوٹا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے جو فوٹیج سامنے آئی تھی اس میں ایسے لگتا تھا کہ خواتین سے بہت زیادتی ہوئی مگر دوسری فوٹیج میں تو صورتحال بالکل واضح ہو چکی ہے، فوٹیج میں خواتین چوری کرتے اپنے کپڑے پھاڑتے اور اتارتے صاف نظر آ رہی ہیں جبکہ ، ایس ایچ او ملت ٹائون کا کہنا ہے کہ ملزمان کی جانب آسیہ سمیت چار خواتین کو پکڑ کر مار اور گھسیٹتے ہوئے دکان کے اندر بند کر کے محبوس بنایا اسکا جرم 342 کا بھی طلاق کیا جا رہا ہے ملزمان اگر اپنی چوری کی درخواست دیں تو ان کی بھی کارروائی میرٹ پر ہو گی، خانہ بدوش خواتین کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمہ میں گرفتار پانچوں ملزمان صدام، محمد فقیر، فیصل، ظہیر اور یوسف کو عدالت میں پیش کئے بغیر تین دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا، ملزمان کو سکیورٹی خدشات کے پش نظر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ملزمان کو صدر بخشی خانہ میں بند کیا گیا جس کے بعد ایس ایچ او ملت ٹائون رضوان شوکت اور انچارج انوسٹی گیشن محمد اکبر مثل مقدمہ لیکر علاقہ مجسٹریٹ قمر عباس کی عدالت میں پیش ہوئے