سدھن ایجوکیشنل کانفرنس۔۔۔۔ جو کچھ نہیں کرتے تنقید کرتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے،  سدھن ایجوکیشنل کانفرنس۔۔۔۔ جو کچھ نہیں کرتے تنقید کرتے ہیں۔  بشیر سدوزئی،  جموں و کشمیر کی قدیم این جی او ” سدھن ایجوکیشنل کانفرنس” کی تاریخ و مقاصد پر لکھنا بے محل ہو گا، آزاد کشمیر خاص طور پر  پونچھ ڈویژن کا ہر ہوش مند فرد اس کے بارے میں خوب جانتا ہے۔ تاہم یہ 87 برس کی طویل عمر کے ساتھ تناور درخت نہیں بن سکی۔ اس کا ادراک و اعتراف تنظیم سے وابستہ ذمہ داران کو بھی ہے اور ہمدردوں کو بھی ۔ لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں تنگ دلی اور بخل کیوں کیا جائے کہ معاشرے میں معکوس کا جو عمل شروع ہوا اس میں ہر ادارہ خواہ سرکاری ہو یا نجی آگے جانے کے بجائے پیچھے گیا۔ بہتری کے بجائے خرابی ہوئی، ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف لوٹا۔ ایسے  میں اس تنظیم کا زندہ رہ جانا ہی غنیمت ہے۔ چے جائے کہ محدود ہی سہی کچھ طالب علموں کو اسکالر شپ دینے اور کچھ ادارے قائم کر کے حکومت کے حوالے کرنے کا کام جاری ہے۔ گویا تعلیم کے فروغ میں حکومت کے ساتھ بھی تعاون رہا۔ جس کا اعتراف چانسلر جعامات اور صدر ریاست نے تحریر طور پر کیا۔ ان کامیابیوں کا سہرا بھی انہی کے سر باندھا جانا چاہئے جنہوں نے  جیسے تیسے اس ادارے کو یہاں تک پہنچایا۔ ان کی اس محنت اور خلوص کی قدر و تحسین پیش کرنے کے بجائے تنقید کرنا ناانصافی اور ناشکری کے زمرے میں آتا ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کچھ نہیں کرتے صرف تنقید کرتے ہیں ۔ جب سے سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی سرگرمیاں اجاگر ہونا شروع ہوئیں، تنظیم کے ذمہ دار شدید تنقید کی زد میں ہیں،  جیسے بھاجپا کے بارے میں کلمہ خیر کہہ دیا ہو ۔نقاد دوستوں کے ایک گروپ کی خواہش ہے کہ تاریخی تنظیم کو تاریخی کام ہی کرنا چاہئے تھے۔ کوئی یونیورسٹی قائم کی ہوتی کوئی بڑا تعلیمی ادارہ چل رہا ہوتا۔ پونچھ کے ہر گھر کے ہر بچے کو اسکالر شپ دی گئی ہوتی ۔ ہر فیصلہ اور کام ان سے پوچھ کر کیا ہوتا۔۔ یہ جذبات تو قابل ستائش ہیں لیکن یہ خواہش قابل عمل نہیں ۔لوگ دارالعوام پلندری کی مثال دیتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس کی بنیادوں میں ہر گھر کی ماں اور بیٹی کا مٹھی آٹا شامل ہے ۔ ہر گھر تنظیم میں شامل ہوئے بغیر ہر بچے کو اسکالر شپ کیسے دی جا سکتی ہے۔ یونیورسٹیاں اور ادارے کیسے قائم کئے جا سکتے ہیں۔ یہ چند لوگ ہیں جو رقم بھی دیتے ہیں اور وقت بھی۔ جس شخص نے پوری زندگی میں تنظیم کے لیے 10 روپے نہیں دئے اس کو کیا حق ہے کہ تبصرے اور تبرے بھیجئے۔ صرف پونچھ کے اساتذہ اور سرکاری ملازم سال بھر میں ایک دن کی تنخواہ تنظیم کو عطیہ کریں تو بہت زیادہ بچوں کی مدد بھی کی جا سکتی ہے اور ادارے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ پونچھ ڈویژن کا ہر تاجر سو روپے ماہانہ عطیہ دے تو پونچھ کے ہر بچے کو اسکالر شپ اور ہر شہر میں ماڈرن تعلیمی ادارے قائم ہو سکتے ہیں  ۔جب کہ ایک گروپ صرف اس بنیاد پر تنقید کرتا ہے کہ تنظیم کے ذمہ داروں میں اکثریت سابق فوجی افسران کی ہے۔ یہ نامناسب رویہ اور بے وقعت دلیل ہے ۔تنقید ضرور ہونا چاہئے لیکن وہ بامقصد اور تعمیری ہو۔ فلاحی تنظیمیں اور کلب صرف ممبران کے ہی ہوتے ہیں  وہی لوگ پالیسی بناتے ہیں اور وہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سدھن ایجوکیشنل کانفرنس میں بھی ممبر شپ کا طریقہ کار ہے۔ ہر سدھن ممبر نہیں ہے، بلکہ ممبر وہی چند سو افراد ہیں جو رجسٹرڈ ہیں اور پابندی سے سالانہ فیس ادا کرتے ہیں۔جو لوگ ممبر ہیں وہی انتخابات لڑتے ہیں وہی عہدیدار یا ذمہ دار منتخب کرتے ہیں۔ منتخب جو ہوں گے وہی پالیسی بھی بنائیں گے وہ اپنے ممبران کو جواب دہ ہیں ساری قوم کو نہیں ۔ ہاں جس کو انسانوں کی خدمت اور اس تنظیم سے محبت ہے وہ راولاکوٹ الشفاء اسپتال میں  ڈاکٹر غلام حسین خان سیکریٹری جنرل سے مل کر ممبر شپ حاصل کرے،  انتخابات میں حصہ لے صدر،  چئیرمین، اور جنرل سیکرٹری منتخب ہو کر اپنی مرضی سے پالیسی بنائے اور معاشرے کی خدمت بھی کرے  ۔۔ موجودہ کابینہ مبارک باد کی مستحق ہے کہ راولاکوٹ میں تنظیم کا 5 منزلہ ایجوکیشنل کمپلیکس پر ترقیاتی کام شروع ہو چکا جس پر 11 کروڑ روپے کے اخراجات ہوں گے ۔ ابھی کسی بھی سرمایہ دار یا سرکاری اہلکار سے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے عطیات جمع نہیں کئے گئے ۔ انہی ممبران نے اس منصوبے کے لیے لگ بھگ تین کروڑ روپے جمع کر لیے جن کو لعن طعن کی جا رہی ہے ۔ بقیہ آٹھ کروڑ روپے بھی یہی لوگ جمع کریں گے اور یہ منصوبہ بھی مکمل ہو گا۔ لیکن ہر فرد اس کار خیر میں شامل ہو ،ممبر شپ حاصل کرے تو منصوبہ بھی جلد مکمل ہو گا اور اتحاد و اتفاق کی اعلی مثال بھی قائم ہو گی۔صرف تنقید سے کام بہتر نہیں ہو گا خود کرنے سے بہتر ہو گا ۔ جنہوں نے ابھی تک اس عظیم الشان تعلیمی کمپلیکس کی تعمیر میں اپنا حصہ نہیں ڈالا وہ اس پر غور کریں  ۔ صدر تنظیم سردار مشتاق حسین خان نے اس حوالے سے عوام کے نام ایک خط جاری کیا ہے جس کا متن مندرجہ ذیل ہے۔” مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ، تعلیم کے فروغ اور اصلاح معاشرہ کے لئے بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان کی جانب سے 1934 میں قائم کردہ فلاحی تنظیم جس کا نام انہوں نے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس تجویز کیا تھا لیکن باوجہ مجبوری رجسٹریشن دوسرے قبائل کے سربراہان کی تجویز پر “سدھن ایجوکیشنل کانفرنس” رکھا گیا  گزشتہ 87 سال سے بلا تعطل  اپنے منشور پر عمل پیرہ ہے ۔پوبچھ میں نامور تعلیمی اداروں ، دارالعوام پلندری، خان صاحب پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ راولاکوٹ جس نے بعد میں انجنیئرنگ کالج تک ترقی پائی (جہاں اب عارضی طور پر  میڈیکل کالج پونچھ قائم ہے) یونیورسٹی کیمپس منگ کی عمارت( چھ کروڑ روپے یونیورسٹی آف پونچھ کو بطور عطیہ دیا جس کا ایوان صدر چانسلر آفیس نے خط کے ذریعے تصدیق کی ) اور دیگر اداروں کے قیام میں عملی حصہ،  اور پاکستان بھر میں پونچھ کا اعلی تعلیمی معیار اور عددی برتری، خاص طور پر خواتین کا اعلی تعلیم یافتہ ہونا، تنظیم اپنے لیے اعزاز اور بابائے پونچھ کی اصلاحی و تعلیم عام کرنے کی تحریک و نظریئے کی کامیابی سمجھتی ہے ۔آپ کو اس جان کاری پر خوشی ہو گی کہ سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی جانب سے 2015 سے امسال تک کے دوران اعلی تعلیم کے حصول کے لیے 242 طالب علموں میں 39 لاکھ 47 ہزار روپے کی نقد رقم اسکالر شپ اور انعامات کی مد میں تقسیم کی گئی جن میں 59 طالب علموں کا تعلق ملدیال، چودھری،  راجپوت، کیانی ، سید اور دیگر قبائل سے ہے۔ لہذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تنظیم نے اپنے بانی قائد بابائے پونچھ کی بلا تخصیص قبیلہ تعلیم کو عام کرنے کی پالیسی کو آج بھی اسی جذبہ سے جاری رکھا ہوا ہے جو بابائے پونچھ کا ویژن تھا ۔ فلاحی کاموں میں اس قدر مصروف رہے کہ ہم   راولپنڈی، راولاکوٹ، کھائیگلہ اور پلندری میں قطعہ آراضی ہونے کے باوجود  تنظیم کا ذاتی دفتر تعمیر نہ کر سکے ۔الحمداللہ! “دیر آید درست آید”کے مصداق ‘سدھن ایجوکیشنل کانفرنس’ کامیابی کے اس سنگ میل کو بھی عبور کرنے والی ہے ۔راولاکوٹ یونیورسٹی روڑ پر واقع  دو کنال رقبہ پر خان صاحب کے نام پر ایک کثیر منزلہ کمپلیکس کی تعمیر کا فیصلہ ہو چکا ،جہاں تنظیم کا مرکزی دفتر،  ہوسٹل اور پیرا میڈیکل کالج قائم کرنے کا منصوبہ ہے، جس پر لاگت کا تخمینہ 11 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔اس منصوبے کی تکمیل میں کسی بھی قسم کے سرکاری فنڈ شامل نہیں ۔ یہ عظیم الشان ‘ تعلیمی کمپلیکس’ خالصتا پونچھ کے غیور اور بہادر عوام کے مالی و اخلاقی تعاون سے ہی تعمیر کرنے کا ارادہ ہے۔ جس پر 7 نومبر 2021 صبح 10 بجے کام کا آغاز کیا جا رہا ہے ۔میری تمام قبائل کے مخیر حضرات (اندرون و بیرون ملک) اور بلخصوص سدھن قبیلے کے ہر فرد سے بھرپور اپیل اور  امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف مالی تعاون کریں گے بلکہ آغاز کام کے موقع پر خود یا اپنے نمائندوں کے ذریعے شرکت کر کے ہماری حوصلہ آفزائی فرمائیں گے ۔ شکریہ وعلیکم السلام، میجر(ر) سردار مشتاق حسین خان مرکزی صدر سدھن ایجوکیشنل کانفرنس