ملا غنی برادر کون؟


جنرل مشرف دور میں ملا برادر اور آج جنرل باجوہ کا دور ملا برادر۔
– ھدا نے بھائی کو دہشت گرد قرار دیا۔

2006 جنرل پرویز مشرف کا دور تھا، کراچی میں آئی ایس ائی کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر ہدی ہوا کرتے تھے، حساس اداروں نے ایک شخص کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کیا، سی آئی اے سینٹر صدر میں پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، پولیس افسران نے بتایا کہ انہوں نے ایک اہم طالبان لیڈر کو گرفتار کر کے کراچی کو بڑی تباہی سے بچا لیا، تھوڑی دیر میں ایک سپاہی درمیانے قد کے دبلے پتلے شخص کو ہتھکڑی لگاکر کمرے میں داخل ہوا اس شخص کے پیروں میں ٹوٹی ہوئی چپل تھی، صرف پشتو اور دری زبان بول سکتا تھا، اس کے چہرے سے ظاہر تھا کہ اسے کئی دن کی تفتیش کے بعد پولیس کے حوالے کیا گیا ہے، پولیس افسران نے اس شخص کا تعرف ملا عبدالغنی برادر کے نام سے کروایا، دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے تمام الزامات ملا برادر پر لگائے جاچکے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ جن اداروں نے گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کیا تھا وہ پولیس حراست سے ملا عبدالغنی برادر کو اسلام آباد لے گئے، ملا برادر کی اہیمت کا اندازہ اس وقت ہوا جب قطر میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کے آغاز سے قبل ملا برادر کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔


تقریبا 10 سال پاکستان میں قید رہنے کے بعد ملا غنی برادر کو رہا کر کے قطر پہنچا دیا گیا، جہاں انہوں نے طالبان کی طرف سے قائم سیاسی مرکز کی کمان سنبھال لی، پھر وہ تاریخی منظر بھی دیکھا جب دوہا مذاکرات کو قطر میں آخری شکل دینے کے بعد دستخط کی تقریب ہوئی تو چھوٹے قد والے ملا غنی برادر اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان معاہدے نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
ہم یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ملا غنی برادر اور پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو بھول گئے ہونگے۔ گو طالبان کے تمام اہم کمانڈر اور رہنماوں کے خاندان باالکل اسی طرح اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں مقیم ہیں جس طرح ماضی میں گلبدین حکمت یار، عبدالرسول سیاف، برہان الدین ربانی، جلال الدین حقانی اور حزب وحدت کے رہنماون کے خاندان کے قریبی لوگوں کا قیام بھی پاکستان میں تھا اور ان کے گھر بھی اسلام آباد کے پوش علاقوں میں تھے۔ تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔