افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کا مستقبل

عزیز سنگھور

روزنامہ آزادی، کوئٹہ

افغانستان کی موجودہ صورتحال نے نہ صرف ہمسائے ممالک کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا بلکہ افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کو عدم تحفظ جیسی صورتحال سے دوچار کردیا۔ افغان طالبان اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان تصادم پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کیاجارہا ہے۔دوسری جانب بلوچ مزاحمت کار حلقوں نے افغان طالبان سے تصادم کے خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بلوچ تحریک پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔لیکن اس طرح نہیں جس طرح لوگ سوچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کے حالات 1990 کی دہائی سے یکسر مختلف ہیں کیونکہ آج بلوچ تحریک کسی ہمسایہ ملک پر انحصار نہیں کرتی۔ یقیناً جنگ سے متاثرہ بلوچ مہاجرین افغانستان و ایران کے ان بلوچ علاقوں میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں، جنہیں وہ اپنا وطن تصور کرتے ہیں۔
بلوچ مزاحمت کاروں کے اس موقف کو سمجھنے کے لئے ہمیں افغان اور بلوچ قوم کی تاریخی معاہدوں اور عسکری رشتوں پر روشنی ڈالنی پڑے گی۔
تاریخی طورپر بلوچ اور افغان قوم کے درمیان ریاست کے ریاست کے ساتھ اور قبائل کے قبائل کے ساتھ ثقافتی، تاریخی، عسکری اور معاشی رشتے ہیں۔ جو صدیوں سے چلے آرہا ہیں۔ ان کے درمیان کچھ ایسے معاہدے ہیں جو زبانی ہیں۔ اور یہ معاہدے صدیوں پرمحیط ہیں۔
بلوچ ریاست کے ایک سوسال بعد افغان ریاست افغانستان میں قائم ہوئی۔ جبکہ بلوچوں کی مدد سے درانی سلطنت کوتقویت ملی۔درانی سلطنت کابانی احمدشاہ درانی جسے احمدخان ابدالی بھی کہا جاتا ہے۔ ریاست قلات کے حکمران میرنصیرخان نوری نے بلوچ فوج اور دیگر بلوچ ریاستوں کے سربراہوں کی مدد سے احمد شاہ ابدالی کا ساتھ دیااورمرہٹوں کے خلاف مشہور پانی پت کی لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ نصیرخان نوری نے درانی سلطنت کے بانی احمد شاہ ابدالی کی سلطنت کوتوسیع دینے میں اہم کردارادا کیا۔ نصیر خان نوری نے پانی پت کی جنگ جیت لی۔ انہوں نے فارس کے حکمرانوں سے احمد شاہ ابدالی کی جنگ لڑی۔ اور ہرات جنگ میں فتح حاصل کی۔
جب برطانوی سامراج اس خطے میں فتح حاصل کرنے کی کوشش کی تو بلوچوں نے سخت مزاحمت کی۔ تاہم طویل مزاحمت کے بعد برطانوی سامراج نے فتح حاصل کرلی۔ انگریزوں نے بلوچ مرکزیت کا خاتمہ کرنے کے لئے گریٹر بلوچستان کو تین ممالک میں تقسیم کردیا۔جس کی وجہ سے آج بلوچستان آپ کو پاکستان، ایران اور افغانستان میں ملے گا۔ تقسیم در تقسیم کی پالیسی کامقصددراصل بلوچوں کوسیاسی و عسکری طورپر کمزور کرناتھا۔ ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کروانا تھا۔ بلوچوں کی قومی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ان کی طاقت کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کیاگیا۔تاکہ بلوچ کمزور سے کمزورتر ہو سکیں اور حکمران ان پر حکمرانی کرتے رہیں۔ انگریز نے موجودہ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کے درمیان گولڈ سمتھ لائن بنائی۔ جبکہ افغانستان میں موجودہ بلوچستان کو ڈیورنڈ لائن کے ذریعے تقسیم کردیا۔ افغانستان میں بلوچ آبادی کی تعداد لگ بھگ بارہ سے پندرہ لاکھ ہے۔بلوچوں کی اکثریت جنوبی افغانستان میں رہتی ہے۔ زیادہ تر صوبہ نیمروز میں آباد ہیں۔ باقی صوبہ قندھار، ہلمند اور دیگر علاقوں میں رہتے ہیں۔ سینٹرل افغانستان میں بھی بلوچ کی بڑی تعداد آباد ہیں۔ عبدالکریم بروہی نیمروز کے گورنر رہے ہیں۔ اور اشرف غنی کے دور میں وہ وزیر بھی رہے۔
پاکستانی بلوچستان میں صورتحال کی خرابی کی وجہ سے بے شمار بلوچ خاندان نے افغانستان کی طرف ہجرت کی۔ عام بلوچ جو پاکستانی بلوچستان سے افغانستان گئے ۔ ان کو افغانستان کی مقامی آبادی میں ضم ہونےمیں کوئی مسائل درپیش نہیں ہونگے۔ جو قبائل وہاں پرموجود ہیں۔ انہیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چاہے وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہوجایاکسی کی بھی حکومت ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کے قومی ترانے میں دیگر قومیت کے ساتھ بلوچ کا نام موجود ہے۔ حال ہی میں آل بلوچ کانفرنس ہرات میں ہوئی تھی۔ جس میں حامد کرزئی اور دیگر افغان قیادت نے شرکت کی تھی۔ تاہم افغانستان میں پاکستان مخالف ذہن بہت ہے۔ کوئی بھی پاکستان سے وہاں آجائے اس سے نفرت کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغان طالبان ایک پراکسی ہے۔ اور وہ کسی کی کمک کی وجہ سے جنگ لڑ رہا ہے۔ جس کی مدد سے وہ جنگ لڑ رہا ہے۔ ان کے کہنے پر کچھ بھی کرسکتا ہے۔افغان طالبان چین، ایران اور پاکستان کے مفادات کے خلاف نہیں جائیں گے۔ بلوچوں مزاحمت کار اسلام آباد مخالف ہیں۔ اور افغان طالبان اسلام آباد کے حامی ہے۔ اس صورتحال میں بلوچ پناہ گزینوں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو بلوچ مہاجرین ہیں۔ ان میں دو قسم کے پناہ گزین ہیں۔ ایک ان کا اعلیٰ قیادت ہیں۔ دوسرے عام متاثرین ہے۔ جن کی فیملی کے لوگ لاپتہ ہیں۔اور وہ اپنی جان بچانے کے لئے افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ عام بلوچ پناہ گزین مقامی آبادی میں گھل مل گئے ہیں۔ ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور جو لیڈر شپ ہیں۔ وہ ان حکومتی زیراثر علاقوں میں چلے جائیں گے۔ جہاں افغان طالبان کا کنٹرول نہیں ہے۔ جن میں اشرف غنی کے علاقے شامل ہیں۔ ماضی میں بھی افغانستان میں بلوچ کمانڈر مارے گئے ہیں۔ جن میں گوریلا کمانڈر اسلم بلوچ شامل ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ طالبان اگر افغان قومی سوچ و فخر کی بنیاد پر جنگ لڑیں گے۔ ان کو کوئی بھی ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔ماضی میں ملا عمر نے اسامہ بن لادن کی حوالگی پر انکار کردیا تھا۔ دراصل وہ سوچ ایک افغان نیشنلزم کی عکاسی کرتی تھی۔ یہ بڑا مشہور واقعہ ہے جب ملا عمر سے سعودی اینٹلی جنٹس کے چیف نے ملاقات کی۔ جس کو ملا عمر نے اپنے دفتر سے بھگا دیا تھا۔ دیکھا جائے افغان طالبان کی قیادت مکمل قبائلی ہیں۔ ان کے اندر ایک حد تک قبائلی نیشنلزم کا عنصر ہوتا ہے۔ یہ نیشنلزم کا مظاہرہ پہلے بھی دیکھاگیا ہے۔
جب اسلام آباد نے ڈیورنڈلائن پر باڑ لگانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس سلسلے میں سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر نے افغانستان میں ملا عمر سے ملاقات کی۔ جس پر ملا عمرنے ڈیورنڈلائن پر باڑ لگانے کی مخالفت کی۔ کیونکہ اس منصوبے پر پاک افغان سرحد پرآباد پشتون اور بلوچ قبائل تقسیم ہوجائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ طالبان میں پشتون نیشنلزم موجود ہے۔ لیکن یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ پراکسیز ہیں۔ افغان طالبان کی بڑی تعداد اسلام آباد مخالف ذہن رکھتے ہیں۔ جبکہ وہ پاکستان میں بھی رہتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ افغان طالبان کو افغانستان میں موجود پاکستانی پشتون اور ایرانی بلوچ اور چائینز طالبان جیسی شدت پسند تنظمیوں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین کے صوبے سنکیانگ کی افغانستان کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر، چین کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ اگر واقعتاً طالبان اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ تو چین کے علاقے سنکیانگ میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کو وہاں سے پناہ اور امداد مل سکتی ہے۔ وہ ایک آزاد مشرقی ترکستان کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ سنکیانگ صوبے میں چین کی نسلی اقلیت یعنی اویغر مسلمان ہیں۔
اسی خوف کی وجہ سے دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے ملا برادر کی سربراہی میں چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور سنکیانگ میں چلنے والی تحریک پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس ملاقات کے بعد افغان طالبان کا چائینز طالبان کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح ایران کو داعش اور جنداللہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات گزشتہ پندرہ سال سے بہت خوشگوار ہیں۔ افغان طالبان کا تہران میں غیر سرکاری طورپر دفتر بھی قائم ہے۔ افغان طالبان کا اعلیٰ قیادت ایران میں موجود ہیں۔ جن کی بڑی تعداد پارسیوان ( پارسی‌ زبان بولنے والے) ہیں۔ اور افغان کے دیگر اعلیٰ قیادت بھی ایران جاتے رہتے ہیں۔ جس کی کچھ مثال کچھ یوں ہے۔ افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کو امریکہ نے ایران سے واپسی پر بلوچستان کے ضلع نوشکی پر فضائی حملے میں ماردیا تھا۔ ماضی میں ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والی مزاحمت پسند تنظیم جنداللہ کو افغانستان میں افغان طالبان کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ افغان طالبان نے یہ عمل ایران کو خوش کرنے کے لئے کیا تھا۔ آج بھی جنداللہ کی بعض لیڈر افغانستان میں موجود ہیں۔ ان سے مزید دودوہاتھ ہوسکتے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ ان کے لئے بھی افغانستان میں جگہ تنگ ہوچکی ہے۔ پاکستانی پشتون مہاجرین کی بڑی تعداد کابل وغیرہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔افغان طالبان کو مسئلہ سب سے زیادہ پی ٹی ایم سے ہے۔
یہ ساری چیزیں اس وقت افغان طالبان کے لئے ممکن ہونگی۔ جب وہ کابل پر قبضہ کرلیں گے۔ کابل فتح کرنے کے بعد وہ افغانستان میں اپنی حکومت بنائیں گے۔ حکومت کے قیام کے بعدوہ نیشنل پالیسی مرتب کرسکیں گے۔ اور اس پالیسی کے تحت وہ بلوچ اور پشتون پناہ گزینوں کو ٹف ٹائم نہیں دے سکیں گے۔ وگرنہ انہیں بھی سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
———————

افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کا مستقبل