سکرنڈ میں حب الوطنی کی نادر مثال-دردمند جوڑے نے اپنے گھر کو درس گاہ میں تبدیل کر دیا

لقمان چوہان نے بیوی فاطمہ کی مدد سے بچیوں کو رضاکارانہ تعلیم کے مواقع دے دیئے
کراچی کی تنظیم نے اسکول میں زیرتعلیم طالبات کے لئے اسٹیشنری کا سامان فراہم کیا

ملک میں رائج کرپشن سے آلودہ طبقاتی تعلیمی نظام اورقاتل مہلک وبا کرونا نے جہاں تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کیا وہیں لڑکیوں کو تعلیمی زیور سے آراستہ کرنے کے لئے سکرنڈ کے میاں بیوی نے مل کر اپنے گھر کو مادر علمی میں تبدیل کردیا ہے، شہید بینظیر آباد کی تحصیل سکرنڈ کے نواحی گاوں علی بخش چوہان میں غریب اور متوسط گھرانہ سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی نے گاوں کی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اپنے

دو کمروں کے گھر کو اسکول میں تبدیل کررکھاہے ۔مالی طور پر کمزور اور درزی کے پیشہ سے وابستہ ہونے


کے باوجود علم کی شمع کو روشن رکھنے کے جذبہ سے سرشار لقمان چوہان نے اپنی بی۔اے پاس بیوی فاطمہ لقمان کی مدد سے گاوں کی بچیوں کو رضاکارانہ معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کررکھے ہیں ،سکرنڈ کے اس باہمت جوڑے نے طالبات میں تعلیم کی شمع روشن کرنے کے جذبہ کے تحت علم کی شمع عام کرنے اور علاقہ کی طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے اپنے حصہ کا چراغ جلاکر ایک نئی مثال قائم کررکھی ہے لقمان چوہان اور فاطمہ لقمان نے قریبی سات گاوں سمیت آبائی گاوں علی بخش چوہان کی دوسالوں تک تعلیم سے محروم طالبات کو علم کی شمع سے منور کرنے کے لیے دو کمروں کے گھرکو ہی درسگاہ میں تبدیل کردیا ہے اسکول کے تمام اخراجات اور سالانہ رجسڑیشن فیس دونوں میاں بیوی اپنے محدود وسائل سے برداشت کرتے ہیں لقمان اور فاطمہ کی شہری آبادی سے دور گاوں کی لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی سچی لگن کو دیکھتے ہوئے نیک دل حضرات بھی اسکول میں زیرتعلیم طالبات کی تعلیمی ضروریات میں وقت فوقت حصہ ڈال لیتے ہیں لقمان چوہان اور فاطمہ نے 92 نیوز کو بتایا گزشتہ دنوں کراچی کی ایک تنظیم کی جانب سے بھی ان کے اسکول کی طالبات کے لئے اسٹیشنری کا سامان فراہم کیا ہے،بچیوں کو اسٹشنری کا سامان دینے پر وہ این جی او کے بے حد مشکورہیں رضاکارانہ بچیوں کو بطور ٹیچر پڑھانے والی فاطمہ لقمان نے 92 نیوز کو بتایا کہ مجھے آج بھی دس سال پہلے کے وہ دن یاد ہیں جب سندہ ایجوکیشن فاونڈیشن کے

تحت ایک این جی او نے گاوں میں اچانک اسکول بند کرکے گاوں کی بچیوں کے تعلیمی مستقبل پر سوالیہ نشان لگادئے تھے میرے شوہر دوسال تک این جی او کے مقامی نمائندے کی منت سماجت کرتے رہے مگر انہوں نے اسکول کا آغاز نھی کیا بچیوں کے والدین گاوں میں موجود واحد بوائز اسکول میں لڑکوں کے ساتھ بچیوں کو تعلیم دلانے کے خلاف تھے جبکہ بچیاں پڑھنا چاہتی تھیں دوسال انتظار کے بعد شوہر لقمان چوہان کی مشاورت سے گاوں کی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے فاطمہ لقمان پبلک پرائمری اسکول کے نام سے اپنے گھر کے دو کمروں کو اسکول کے لئے وقف کیا تاکہ گاوں کی طالبات کی تعلیم میں حائل تمام رکاوٹیں دور کرکے انہیں معاشرے کا ایک کارآمد اور قابل فخر شہری بنایا جائے تاکہ وہ بھی پڑھ لکھ کر ملک وقوم کانام روشن کریں لقمان اور فاطمہ انتہائی پرعزم ہیں کہ انہوں نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے تعلیم کی شمع کو عام کرنےکے لئے چھوٹے سے گھر کو اسکول کے لئے وقف کردیا یے آج 105 طالبات اسکول میں زیر تعلیم ہیں روزانہ کی بنیاد پر اسمبلی سیشن کے بعد قرانی تعلیمات کے ابتدائی پیرڈ کے ساتھ نرسری سے پانچویں تک کی مختلف کلاسز کو فاطمہ چوہان رضاکارانہ طور پر پڑھا رھی ہیں ملک میں مہلک وبا کے بعد سےمعاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی اور محکمہ تعلیم کی کرپشن اور نااہلی کے سبب ملک بھر میں بیشتر سرکاری اسکول بند پڑے ہیں تو مہلک وبا سے ملک کا تعلیمی نظام بھی بری طرح متاثر ہواہے دوسری جانب مادرعلمی کے نام پر پرائیویٹ اسکولوں سے جڑا ہمارا ملکی تعلیمی نظام پیسہ بنانے کاذریعہ دکھائی دیتا ہے وفاق اور سندھ حکومت کی تعلیم کے شعبہ میں موثر اور واضح پا لیسی نہ ہونے کی وجہ سے آج پاکستان میں نہ کوئی نظام تعلیم ہے اور نہ ہی کوئی نصاب تعلیم ملک میں رائج تعلیمی نظام درجہ بندی کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم میں بٹا نظرآتا ہے ضرورت روزگار کی بنیاد پر بنے تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم نہ ہونے اور میرٹ کا قتل عام ہونے کی وجہ سے معیاری اساتذہ بھرتی نہ ہونے کی بنا پر آج ہمارا معاشرہ جہالت کی دلدل میں دہنستا چلا جاررہاہے،ملک کا موجودہ تعلیمی نظام انتہائی زبوحالی کا شکار دیکھائی دیتا ہے 1980 کے بعد ملک کی مادر علمی میں داخل ہونے والے سیاسی عمل دخل نے پاکستان کے تعلیمی معیار کا جنازہ نکال دیا ہے تو وہیں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ملک کے تعلیمی اداروں میں رچ بس جانے والے سیاسی کلچر اور ضرورت روزگار کے تحت اساتذہ کی بھرتی سے آج ملک کے تعلیمی ادارے قابل اساتذہ سے محروم دیکھائی دیتے ہیں وہیں طلبہ وطالبات بھی معیار تعلیم سے محروم ہیں تعلیم کے شعبہ جڑے تماتر تلخ حقائق اپنی جگہ مگر اگر کوئی طالب علم آج بھی پڑھنا چاہے تو اسے دنیا کی کوئی بھی طاقت تعلیم کے حصول سے روک نھی سکتی ملکی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو عام سے اسکولوں سے تعلیم حاصل کرکے رات رات بھر فٹ پاتھوں اور گلی محلوں میں بجلی کے پول پر لگے بلبوں اور جلتے چراغوں کی روشنی میں تعلیم حاصل کرنے والے نامور افراد نے ملک وقوم کا نام روشن کیا علم کی شمع کے طالب علم ہرحال میں اعلی تعلیم کے حصول کو یقینی بناتے ہیں ایسے ہی تعلیم کے خواہشمند طالب علموں کے لئے سکرنڈ کے میاں بیوی نے اپنا گھر اسکول کے لئے وقف کرکے اپنے حصہ کی شمع جلائی ہے لقمان چوہان اور فاطمہ چوہان نے 92 نیوز کو بتایا ہمارے بھی چھ بچے ہیں ہماری بھی خواہش ہے کہ ہمارے بچوں کی طرح گاوں کے اسکول سے تعلیم حاصل کرنے والی طالبات پڑھ لکھ کر ملک وقوم کا نام روشن کریں،سکرنڈ کے سیاسی و سماجی حلقوں نے حکومت سندھ سے اپیل کی ہے کہ لقمان اور فاطمہ کے اس نیک مشن میں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے سندہ حکومت گرلز اسکول کو سرکاری اسکول کادرجہ دیکر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں ایک اسکول “گود” دے تاکہ اندھیرے میں علم کی شمع کا چراغ جلانے کا عزم لیکر نکلنے والے دونوں میاں بیوی کے اس عظیم مقصد سے سندھ میں بند پڑی درسگاہوں کا سدباب کیا جاسکے۔