چترالی ملٹری روایات

قسط ٢۔ تحریر. برگیڈیربشیرآراٸیں
چترال اسکاٶٹس کی اڑھاٸی سال کی خوبصورت یادوں کے ساتھ میں اپنی دوسری پوسٹنگ پر روہڑی اور سکھر کے درمیاں کجھوروں کے باغ میں ڈیرے لگاٸے اپنی فیلڈ میڈیکل یونٹ میں پہنچا ۔ یہ 88-1987 کا زمانہ تھا اور سندھ پر ڈاکوٶں کا ایسا راج تھا کہ پولیس انکے سامنے بےبس نظر آتی تھی ۔ بسوں کو سرعام لوٹا جاتا تھا ۔ لوگوں کو تاوان کیلیے اغوا کیا جاتا تھا اور وقت پر پیسے نہ پہنچتے تو انہیں قتل کردیا جاتا ۔ صورت حال صوباٸی حکومت سے مکمل بےقابو ہوٸی تو آرمی کے 16 انفنٹری ڈویژن کو سندھ گورنمنٹ کی درخواست پر کوٸٹہ سے سکھر منتقل کردیا گیا اور اسکے تین برگیڈ ہیڈ کوارٹرز شکارپور ۔ لاڑکانہ اور پنوں عاقل پہنچ گٸے ۔ میڈیکل ایڈ کیلیے ہمارا فیلڈ ہاسپیٹل روہڑی سیمنٹ فیکٹری کی بلڈنگ میں اور یونٹ کا کیمپ نیشنل ہاٸی وے پر روہڑی کے قریب کجھوروں کے باغ میں لگا ہوا تھا ۔

وردی کی نوکری میں سب دعا کرتے ہیں کہ کمانڈنگ آفیسر اور بیٹ مین اچھا ملتا رہے ۔ یہ دونوں لوگ اپنی اپنی طبیعت کے مطابق آپکی زندگی آسان یا مشکل بناتے ہیں اور اگر آپ ہارڈ ایریا یا سیکیورٹی ڈیوٹی پر ہوں تو پھر تو سونے پہ سہاگہ ۔ میں آج بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے کمانڈنگ آفیسرز ہمیشہ اچھے ملے اور فوجی زندگی کے پہلے کمانڈنگ آفیسر کرنل مراد خان نیر کی تربیت کے مطابق اگر دوران سروس سینیرز کا کچھ برا لگتا تھا تو خود کمانڈنگ آفیسر بننے کے بعد میں نے اپنے جونیرز کیلیے وہ سب کچھ بہتر کردیا ۔ میں ہمیشہ اس نظریہ پر کمانڈ کرتا رہا کہ جو مجھے برا لگتا تھا وہ اپنے جونیرز پر کیوں لاگو کروں اور شاید یہی اصول تھا کہ مجھے اپنی تینوں کمانڈ میں کبھی جونیرز کی حکم عدولی کا مسلہ درپیش نہ آیا ۔ میں جونیرز کا کمانڈر کم اور سینیر ساتھی زیادہ بنتا رہا ۔

نوابشاہ میرا آباٸی گھر ہے ۔ حالات مزید خراب ہوٸے تو اسپیشل سروسز گروپ اپنے ہیڈکوارٹر سمیت چراٹ سے نوابشاہ پہنچ گیا ۔ میری ایس ایس جی کے ساتھ پیرا ٹروپر والی ٹریننگ اور واقفیت کام آٸی اور میرے سی او نے مجھے SSG ہیڈکوارٹر کے لیے نوابشاہ بھیج دیا۔ مجھے میرے خاندان اور بچپن کے دوستوں نے پہلی دفعہ وردی میں دیکھا ۔ بی بی جی تو ہر صبح چھوٹے بچےکی طرح مونہہ چومتیں اور دعاٸیں دیکر رخصت کرتیں کہ اللہ کسی بھی انہونے حادثے سے محفوظ رکھے کیونکہ جنگلوں میں ڈاکوٶں کے ساتھ مڈبھیڑ میں بہت سے جوان اور 32 پنجاب رجمنٹ کے 4 آفیسرز شہید ہو چکے تھے ۔ سندھ میں ڈاکوٶں اور انکے سرپرستوں کیلے بہت لکھنا ہے مگر پھر سہی ۔ ڈاکوٶں کے پیچھے بھاگتے دوڑتے سوا سال گزرتے پتہ ہی نہ چلا ۔

کرنل مراد خان نیر سے جب بھی بات ہوتی وہ کہتے تمہیں چترالی یاد کرتے ہیں کب ملنے آ رہے ہو ۔ میرا دل بھی وادی چترال سے نکلتا ہی نہ تھا ۔ میں نے ایک ماہ کی سالانہ چھٹی لی اور کرنل مراد کو بتاٸے بغیر چترال جا پہنچا ۔ سوچا تھا سرپراٸیز دونگا مگر اٸیر پورٹ پر ہی پتہ چلا کہ آفیسرز میس چترال میں آٸی جی ایف سی میجر جنرل غازی الدین رانا اپنی فیملی اور والدین کے ساتھ پہنچے ہوٸے ہیں اور کرنل مراد بھی انہی کے سات موجود ہیں ۔ میں میس پہنچا ۔ کرنل مراد بزرگوں کی طرح گلے لگا کر پیار سے ملے ۔ آٸی جی ایف سی اور انکے والد محترم جنرل بختیار رانا سے تعارف ہوا کہ میں سکھر سے چترال اپنے کمانڈنگ آفیسر سے ملنے آیا ہوں وہ بہت حیران اور خوش ہوکر کہنے لگے شکر ہے پروردگار کا کہ فوج میں اب بھی یہ محبتیں پاٸی جاتی ہیں ۔

کرنل مراد جنرل بختیار رانا سے کہنے لگے کہ سر ہم تو کییپٹن بشیر کو دوبارہ چترال اسکاٶٹس میں پوسٹ کروانا چاہتے ہیں مگر ابھی اسکو گٸے ہوٸے کم عرصہ ہوا ہے ۔ انہوں نے فوراََ مجھ سے پوچھا ہاں بھٸی دوبارہ پوسٹنگ چاہیے ۔ میں اس سوال سے انکار کیسے کرتا ۔ ایکسچینج آپریٹر سے کہا گیا کہ جی ایچ کیو میں ایم ایس برانچ ملاٸے ۔ دوسری طرف جنرل فرخ تھے ۔ جنرل بختیار نے صرف ایک جملہ بولا ”فرخ کیپٹن بشیر ہمیں چترال میں چاہیے“ اور فون مجھے دے دیا کہ لو بھٸی اپنا پی اے نمبر لکھوا دو ۔ مجھے چترال میس میں پہنچے بمشکل ایک گھنٹہ ہوا تھا ۔ میری حالت پر سب زور زور سے ہنس رہے تھے اور میں آنکھیں پھاڑے سب کو ٹُک دیکھ رہا تھا کہ فون پر جنرل فرخ کی آواز آٸی Yes Bashir PSS-101 کے بعد بتاٶ ؟

(جاری ہے)