اگر میں بیمار ھوں تو بھی مجرم نہیں

تحریر:- چوہدری قمراعجاز بھٹہ ایڈووکیٹ
اقوام متحدہ کے ذ یلی ادارہ عالمی صحت کی تعریف کے مطابق” صحت” ایک مکمل جسمانی، ذہنی اور معاشرتی بھلائی کی کیفیت کا نام ھے نہ کہ صرف بیماری یا نقص کی عدم موجودگی کا۔ اس تعریف کی کسوٹی پر کتنے معاشرے اور گھرانے صحت مند قرار پاتے ھیں اور اقوام متحدہ نے کیا اور کب کوئی قدم اٹھایا، اس کو فی الحال چھوڑتے ھیں۔ اور ڈبلیو۔آیچ۔او کی اس دہشت گردی کی بات کرتے ھیں، جو اس نے پوری دنیا میں اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے بڑی عُمدگی سے پھیلا رکھی ھے۔
عالمی ادارہ کی دی گئی تعریف کے مطابق کسی حکومت یا معاشرہ میں معصوم اور بے گناہ افراد میں موت کا خوف پھیلا کر اس کو سیاسی اور سماجی مقاصد کے لۓ کوئی کام کرنے پر مجبور کرنا دہشت گردی کہلاتی ھے۔ سوچیۓ یہ کام ڈبلیو۔آیچ۔او کس خوبصورتی سے سرانجام دے رھا ھے۔ کیا کوئی اسے دہشت گرد ادارہ کہنے کی جسارت کرسکتا ھے، حالانکہ وہ پوری طرح اس تعریف کی زد میں آتا ھے۔ نام نہاد کورونا وباء خواہ لیبارٹرری میں تخلیق کردہ جرثؤمہ سے یا قدرتی طور پھیلی، سب جانتے ھیں کہ جب تک ڈبلیو۔آیچ۔او نے اس کے موجود اور خطرناک ھونے کا نوٹس نہ لیا تھا، اس سے خوفزدہ ھونا تو در کنار، کوئی اس سے واقف تک نہ تھا۔
ڈبلیو۔آیچ۔او کے اپنے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس وباء میں مبتلاء مریضوں کی شرح اموات دو فیصد کے قریب ھے۔ جبکہ سگریٹ نوشی سے شرح اموات پندرہ فیصد بیان کی جاتی ھے۔ ٹریفک حادثات میں ہر پچیس منٹ بعد ایک موت ھوتی ھے۔ کینسر کی وجہ سے سالانہ تقریباُ دس ملین آدمی موت کی آغوش میں چلے جاتے ھیں۔ ھیپاٹائیٹس دنیا میں موت کا دسواں بڑا سبب مانا جاتا ھے۔ ٹی۔ بی سالانہ چودہ سے بندرہ لاکھ افراد نگل جاتی ھے۔ خود کشی موت کی اٹھارویں بڑی وجہ ھے۔ ڈینگی کا اگر علاج ھو تو دو فیصد اور اگر بغیر علاج چھوڑ دیا جاۓ تو بیس فیصد تک موت کا سبب بن سکتی ھے۔ زچگی کے دوران شرح اموات آٹھ سوسے لیکر گیارہ سو روزانہ تک ھے۔ ایبولا گوکہ اب کم ھے مگر اس کے تین میں سے دو مریض بچ نہیں پاتے۔ پانچ سال سے کم عمرکے ھزار بچوں میں ستائیس بچے اگلی بہار نیہں دیکھ پاتے۔ ذیا بیطس کے مریضوں میں شرح اموات سات فیصد سے اوپر ھے۔ جبکہ عارضہ قلب اب بھی موت کا نمبر ون سبب ھے۔ کیا ڈبلیو۔آیچ۔او نے ان بیماریوں سے نپٹنے کے لۓ بھی ایسے ھی اقدامات کا کہا ھے۔
بلاشبہ جن لوگوں کے کنٹرول میں دنیا کی معشیت اور سیاست ھے وھی ڈبلیو۔آیچ۔او کو بھی چلا رھے ھیں۔ اس کے مالکان میں راک فیلرفیملی اور بل گیٹ نمایاں ھیں۔ اور وھی اس کو کنٹرول کرتے ھیں۔ کیونکہ صرف ان کےکٹھ پتلی ھی اس ادارے کے ممبران اور سربراہ بن سکتے ھیں۔ کورونا نامی بیماری سے بہت سی اموات ھو چکی ھیں اور ڈبلیو۔آیچ۔او نے اس کی آڑ میں بہت سے ملکوں کا نظام حکومت براہ راست اپنے کنٹرول میں لے رکھا ھے۔ اس کی جانب سے جو بھی ہدائت نامہ جاری کیا جاتا ھے، ہر ملک کی انتظامیہ ان پر من و عن عمل کرنے میں ھی عافیت پاتی ھے۔ چند ممالک، جن میں چائنہ، روس وغیرہ، شامل ھیں وہ اس وباء کو سہمجنے اور ڈبلیو۔آیچ۔او سے پنگا لینے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اپنی دنیا میں مگن ھیں۔ چائینہ تو اپنی تحقیق بھی سامنے نہیں لاتا جبکہ روس کو روایئتی دشمن کہہ کراس کی تحقیق کومسترد کردیا جاتا ھے۔گو کہ انہوں نے بڑی تک حد اس مرض پر قابو پالیا ھے۔ مگر ھمارے جیسے غریب ممالک، جوعالمی اداروں یا ان کے توسط سے ملنےوالے بھیک کے ان ٹکڑوں پر پلتے ھیں، جسےقرآن پاک کے الفاظ میں “ضریع” کہنا مناسب ھوگا، کیونکہ بحثیت قوم یہ نہ تو ھماری بھوک مٹانے کے کام آتے ھیں اور نہ ھی یہ ھمیں موٹا کرتے ھیں۔ ھمارے نگران اور نام نہاد حکمران، ڈبلیو۔آیچ۔او کے بجاۓ ھوۓ سازوں کی دھن پر بلا سوچے سہمجے رقصاں ھیں۔
کوئی سوچنے کی جسارت نہیں کرتا کہ کورونا وباء یا بیماری کی دہشت ، اس کی ہلاکت خیزی کے تناسب سےبڑھا چڑھا کر کیوں پیش کی جاررھی ھے۔ ایک سال سے بھی زیادہ ھو چلا ھے کہ پوری دنیا کا کارروبار تباہ کرکے رکھ دیا گیا ھے۔ غریب نان جویں کوترس گۓ ھیں۔ کمزور معیشت حکومتیں اورعوام بس گتھم گھتا ھوا ھی چاہتے ھیں۔ ادھر ڈبلیو۔آیچ۔او والے ہر حال میں اپنے ویکسینیشن کے پروگرام کو کامیاب کرنا چاھتے ھیں۔ لوگ جائز سوال کرتے ھیں کہ کیا ڈبلیو۔آیچ۔او یا اقوام متحدہ نے باقی تمام بیماریوں پر قابو پالیا ھے یا تمام بھوکوں تک خوراک پہنچا دی ھے، جو اب اس آخری بیماری کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلۓ دنیا کے ہر انسان کو نشانہ مشق بنانے پر تل گۓ ھیں۔ سازشی تھیوری کو نہ ماننے والے بھی کہتے ھیں کہ اصل مقصد ویکسینیش ھے نہ کہ بیماری کا خاتمہ۔ اور یہ لوگ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک ہر ملک مفلوج اورہر شخص مفلوک الحال اورویکسینیش زدہ نہیں ھو جاتا۔ کورونا کیا ھے اور کس طرح اس کی تصدیق ھوتی ھے، اسکی تشخیص اور توثیق کا پورا نظام انہی لوگوں کے ھاتھوں میں ھے اور کسی ملک یا ادارے کو جرآت نہیں کہ وہ ان کی مرضی کے خلاف کسی بھی شخص یا علاقے کو کورونا فری ڈیکلئیر قرار دے سکے۔ یہ آہستہ آہستہ اپنے من پسند علاقوں اور ملکوں کو کورونا زون سے نکالتے جائیں گے اوردیگر، خاص کرغریب اور کمزور معشیت ملکوں پر کورونا کی تلوار تا دیرلٹکتی رھے گی۔
کورونا زون والے ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرکے ان سے ویکسینیش کا عمل مکمل کرایا جاۓ گا۔ جو لمباعرصہ چلے گا۔ اور جبتک یہ عمل مکمل نہیں ھوتا، انہی ممالک میں سے، ایک ملک سے اٹھنے والی کورونا کی بدلی ھوئی لہر دوسرے ملک میں پہنچائی جاتی رھے گی۔ جو خود بھی ایک دوسرے پر پابندیان عائد کرتے نظر آئیں گے۔ کیا جب پاکستان میں پہلی اور دوسری کورونا لہرسے خوف کی مطلوبہ فضا پیدا نہ ھو سکی تو تیسری لہر ںہیں لائی گئی۔ ھمارے ارباب اختیار کو تو صرف انہوں نے اطلاع دینا ھے کہ اتنی شدت کی نئی لھر فلاں تاریخ کو آ رہی ھے اور یہاں پہلے سے بیٹھے ان کے غلام ان کی خواہش سے بڑھ کر عوام دشمنی کریں گے۔
سوا سال ھونے کو آیا، ھمارے طبی ماہرین یا کسی ادارہ نےاس وباء پرکوئی تحقیق نہیں کی اور اگر کی ھے تو سامنے نہی آئی۔ انہوں نے سواۓ ھسپتال بند کرنے، عام مریضوں کو علاج سے محروم کرنے اور کورونا فنڈ کی خرد برد کے اور کچھ کیا ھوتا تو نظر آ جاتا۔ ایک طرف عالمی اداروں کا دباوُ تو دوسری طرف ھمارے بد دیانت فیصلہ سازوں کی موجیں اور ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانے والے بھتہ خور، جو وہ ھر کاروباری طبقہ کو کورونا ایس۔او۔پی۔ کے بینر تلے تنگ کرکے حاصل کر رہے ھیں۔ جبکہ خود کوئی کام نہیں کرتے۔ ان کی تو دلی خواھش ھوگی کہ یہ کورونا زدہ سسٹم جتنا لمبا چل سکے اسے چلایا جاۓ۔ عام غریب مریض کی پہنچ تو ان تک پہلے ھی ممکن نہ تھی، اب یہ ان سے مستقل جان چھڑانے میں کامیاب ھو چکے ھیں اور مستقبل قریب میں اس کی واپسی ناممکن دکھائی دیتی ھے۔ اگر ڈبلیو۔آیچ۔او والے ان لوگوں سے کرونا مریضوں یا اس سے جڑی اموات کی تعداد بڑھانے کی خواہش کرییں گے تو یہ بے حس، بخوشی اس کو پورا کریں گے۔ کیونکہ ھمارے ملک میں جعلی اعداد وشمار کو برا نہیں سمجھا جاتا اور یہ بات ڈبلیو۔آیچ۔او والے خوب جانتے ھیں۔
ڈبلیو۔آیچ۔او سےآمدہ ہدایات کے تحت حکومت پاکیستان اور صوبائی حکومتوں نے مارچ 2020 میں قانون سازی کی۔ یہ قانون سازی ویسی ھی ھے جو ھم آئی۔ایم۔ایف اورایف۔اے۔ٹی۔ایف جیسے عالمی اداروں کے دباوُ کے تحت کرتے آرھے ھیں۔ اس میں ملکی مفادات اور حالات و واقعات کو سامنے رکھے بغیر اس طرح کے اقدامات شروع کۓ گۓ ھیں جو ھمیں بطور ملک سیاسی و معاشی طور پر جکڑ کر عالمی استعمار کے آگے پھینک دیں گے اور ھم ھاتھ ملنے کے سوا شائد کچھ بھی نہ کر پائیں۔ مگر اس وقت بہت دیر ھو چکی ھو گی۔
کرونا مالکان قوتیں ھم سےھر لحاط سے بہت طاقتور ھیں۔ ھم میں ان سے مقابلہ کی سکت ھے نہ خواہش۔ ھم صرف خود کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ھی جان بچا پائیں گے۔ کرونا شائد اب اس وقت تک لہر در لہر آتا رہے جبتک ان لوگوں کی معلوم خواہشات کی تکمیل نہیں ھو جاتی۔ ھم تو پولیو جیسے مرض سے ابھی تک چھٹکارا نہیں پاسکے، آخری کرونا مریض کیسے ڈھونڈ پائیں گے۔ ڈبلیو۔آیچ۔او والے کسی دن خود ھی تھک ہار کہ دیں گے کہ انہیں کرونا کے ساتھ جینے دو اورجس کسی نے پاکستان سے باہر سفر کرنا ھو وہ کرونا ٹیسٹ کروالے۔
ایک صحت مند شخص کو زبردستی مریض کہہ کراس قدر خوفزدہ کرو کہ وہ اپنی صحت کی خاطر سب کچھ لٹانے کیلۓ تیار تیار ھو جاۓ۔ آج سرکاری ہسپتال میں جانے سے لوگ ڈرتے ھیں کہ خواہ مخواہ کورونا میں ڈال کر گنتی پوری کی جاۓ گی۔ پرائیوٹ ہسپتال اتنے مہنگے ھیں کہ بیس سے پچیس لاکھ کا خرچہ معمولی بات ھے۔ لیبارٹریوں اور ہسپتالوں میں روزانہ آمدن کا حساب لگایا جاتا ھے نہ کہ مریضوں کا۔ جبکہ حقیقی مریضوں کو ھاتھ تک نہیں لگایا جاتا اور سویئپر بھی چھڑی کے ذریعہ ان کو چھوتا ھے۔ اور اس کی موت یقینی ھوتی ھے۔ عام تاثر ھے کہ جو ھسپتال داخل ھوے ان میں شائد آدھے واپس لوٹے اور جو ہسپتال سے دور رھے وہ سارے صحت مند ھو چکے۔ لوگوں کا کہنا ھے کہ جب وہ صحت مند ھیں اور جان ھر ایک کو عزیز ھوتی ھے۔ ھرکوئی موت سے ھر ممکن بچنے کی کوشش کرتا ھے تو اس کو خود پر چھوڑ دیں۔ اگر کوئی بیمار پڑتا ھے تواس کی موت کا امکان دو فیصد سے بھی کم ھے اور وہ خود اس بیماری کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ھے۔ آپ کے پاس از خود جو مریض آتے ھیں آپ ان کا بہتر علاج کریں اوراگر کوئی دوا ھے تو دیکر اس کو صحت مند کرکے معاشرہ میں لوٹائیں تاکہ لوگ آپ کو صرف مارنے والا نہ کہیں۔ کورونا مریضوں سے پرانے دور کے کوڑھ زدہ افراد جیسا سلوک نہ کریں۔ کیا کوئی مفتی یا عالم کہنے کی جرآت کرے گا کہ کورونا وباء سے مرنے والے اس سلوک کے مستحق ھیں جو ایک شہید کا استحقاق ھے۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ھیں کہ کورونا کی ویکسینیشن اس لۓ ھے کہ کسی دوسری بیماری والا تو کہہ سکتا ھے کہ وہ بیمار نہیں جبکہ کورونا مجوزہ مریض تو یہ بھی نہیں کہہ پاتا، کیونکہ اس کی تشخیص کا پیمانہ تو انہی لوگوں کا مقرر کردہ ھے۔ اللہ کی مخلوق سے اس حد تک چھیڑ چھاڑ کا ارادہ رکھنے والے دجالی صفت لوگ ایک بڑی جنگ کی تیاری بھی کۓ بیٹھے ھیں، تاکہ اس کے ذریعہ ساری دنیا پر انہی کا تسلط رھے۔ ھم مسلمان تو صرف منتظر ہستی کو ھی ان سے جنگ کرتے دیکھنا چاھتے ھیں۔ مگر یہ بھول جاتے ھیں کہ نہ تو حضرت امام مہدیؑ اور نہ ھی حضرت عیسٰیؑ نے آ کر موجودہ سلامتی کونسل ممبران سے کوئی خطاب کرنا ھے اور نہ ھی موجودہ عالمی نظام کو مزید ترقی دینا ھے۔ ان کی آمد سے قبل موجودہ لوگوں میں سے ھی کسی نے یہ نظام ختم کرنا ھے۔اورکورونا کی تباہ کاریوں سے تنگ پوری دنیا کے لوگ وباء سے زیادہ وباء والوں سے جنگ کو ترجیع دیں گے۔ اور شائد اب بھی کوئی صاحب فراست بڑی جنگ شروع کردے، جس سے کورونا وباء خود بخود تحلیل ھو جاۓ گی۔
غریب کے گھر میں زبردستی گھس کر سانپ تلاش کرنے والوں نے جب اس کا سارا سامان باہرسڑک کنارے رکھ کراس کو بیوی بچوں سمیت عارضی پناہ گاہ میں منتقل ھونے کا کہا اور خود گھر میں رہ کر اس کے خرچہ پرپہلے شراب نوشی کی اورپھر باقی کاروائی آئیندہ آیام میں مکمل کر کے اسے گھر واپس بلانے کی نوید سنائی تو اس کے دل سےدکھ بھری آہ نکلی کہ کاش سچ مچ کے بہت سارے سانپ ھوتے جو ھم سب کوابھی ڈس لیتے۔