نیشنل بینک کے افسر کا غیر اخلاقی واٹس اپ پکڑا گیا ۔پریزیڈنٹ آفس کا غصہ بجا ہے !

نیشنل بینک آف پاکستان وطن عزیز کا قومی بینک ہے اس لیے اس بینک میں ملازمت کرنے والوں پر اخلاقی تقاضوں کے حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یہاں کے افسران سے غیر اخلاقی گفتگو اور حرکتوں کی توقع نہیں رکھی جاتی ۔سرکاری دفاتر ہویا غیرسرکاری ۔ہر جگہ دفتری ماحول میں ڈسپلن اور اخلاقیات کہ کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن کا ہر ملازم کو پاس کرنا ہوتا ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کہ قومی بینک کے ایک افسر کا غیر اخلاقی واٹس اپ پکڑا گیا ہے جس میں وہ ایک خاتون کو غیر اخلاقی پیغامات بھیجتے رہے اس حوالے سے ذمہ دار ذرائع کے مطابق ایک رپورٹ نیشنل بینک آف پاکستان کے اعلی ترین حکام تک پہنچائی گئی ہے جس پر پریزیڈنٹ آفس کا غصہ بجا ہے ۔مذکورہ افسر کے بارے میں نیشنل بینک آف پاکستان کی اعلیٰ انتظامیہ نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور یہ ریمارکس سننے میں آئے ہیں کہ ایسے شخص کی بینک کو کیا ضرورت ہے ۔


لیکن بینک کو بدنامی سے بچانے اور اس معاملے کو دبانے کے لیے اب تک مذکورہ افسر کے خلاف کوئی سخت ایکشن نہیں لیا صرف زبانی وارننگ دی گئی ہے البتہ واٹس ایپ کے پیغامات منظر عام پر آ چکے ہیں لیکن انہیں ییاں دہرایا نہیں جا سکتا ۔


اس واقعے سے یہ بات تو ثابت ہوئی ہے کہ پاکستان کے قومی بینک میں اگر یہ کچھ ہو رہا ہے تو باقی دفاتر میں کیا کچھ ہوتا ہوگا یاد رہے کہ حکومت پاکستان میں وفاقی سطح پر اور صوبائی حکومتوں نے صوبائی سطح پر ہے ایسے واقعات کی روک تھام اور خواتین کو کام کے مقام پر حراساں کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کے لئے باقاعدہ سرکاری سطح پر کمیشن قائم کر رکھے ہیں جہاں اس قسم کے واقعات کی شکایات موصول ہونے پر اور ایکشن لیا جاتا ہے ۔ بعض کیسز میں یہ کمیشن خود بھی سامنے آنے والی شکایات پر کارروائی کرتے ہیں لیکن عام طور پر وہاں شکایت کنندہ کا خود رابطہ کرنا ضروری ہوتا ہے یہ کمیشن عام طور پر شکایت کنندہ اور جس کے خلاف شکایت کی جاتی ہے دونوں کے نام کارروائی مکمل ہونے تک صیغہ راز میں رکھتے ہیں ۔مختلف واقعات میں ایکشن بھی ہوئے ہیں اور سزائیں بھی ملی ہیں بعض افسران اور ملازمین کے خلاف شکایت آئی تو انہیں اپنی صفائی کا پورا موقع دیا گیا لیکن تھوڑا شواہد اور قانونی بحث کے بعد جب ان پر الزام ثابت ہوا تو انہیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ایسا پرائیویٹ اداروں کے حوالے سے بھی ہوچکا ہے اور سرکاری اداروں کے حوالے سے بھی ۔
آنے والی رپورٹس میں اس قسم کے مزید واقعات کے بارے میں زیادہ تفصیلات پیش کی جائیں گی ۔