فن لینڈ کی یونیورسٹی آف اوولو اور وہاں کے جیالوجیکل سروے کی مشترکہ تحقیق میں نور وے اسپروس (Norway Spruce) نامی درختوں کے باریک پتوں میں سونے کے نینو ذرات دریافت ہوئے ہیں۔
اینوائرنمنٹل مائیکروبایوم میں شائع رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے 23 درختوں سے 138 نمونے حاصل کئے، جن میں سے چار درختوں کے باریک پتوں میں سونے کے انتہائی نینو ذرات پائے گئے۔
تحقیق کی سربراہی کرنے والی سائنس دان ڈاکٹر کائسا لہوسما نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب سونا درخت کے اندر نینو ذرات کی شکل میں پایا گیا ہے، درخت کی جڑیں مٹی سے ایسے پانی کو جذب کرتی ہیں جس میں سونے کے آئنز موجود ہوتے ہیں، یہ آئنز اوپر جا کر پتوں تک پہنچتے ہیں جہاں بیکٹیریا کی مدد سے یہ ٹھوس ذرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق اس عمل کو بایو مائنرلائزیشن کہا جاتا ہے، جس میں خوردبینی جاندار معدنی ذرات کو ٹھوس شکل میں تبدیل کرتے ہیں۔ درختوں کے اندر یہ قدرتی کیمیائی عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ نباتات زمین کے اندر چھپے معدنیات کو سطح تک لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق اگرچہ پتوں میں پائے جانے والے سونے کے ذرات کی مقدار بہت کم ہے اور تجارتی لحاظ سے فی الحال ان سے فائدہ حاصل کرنا ممکن نہیں، لیکن اس دریافت نے ماحول دوست کان کنی کے ایک نئے تصور کو جنم دیا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق مستقبل میں درختوں کے باریک پتوں کے تجزئے سے زمین کے اندر موجود قیمتی دھاتوں کی ممکنہ موجودگی کا پتا لگایا جا سکے گا۔
ماہرین کے مطابق یہ دریافت نہ صرف سائنس کی دنیا میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ یہ اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ قدرتی ماحول میں درخت ممکنہ طور پر مستقبل کے لیے قدرتی سونے کے سراغ رسان ثابت ہو سکتے ہیں۔























