ہندوستان کے شمالی علاقے ہماچل پردیش میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جسے لوگ “ملعون گاؤں” کے نام سے جانتے ہیں۔ اس گاؤں کا اصل نام سمو گاؤں ہے، مگر اس کی پہچان اس کے خوفناک ماضی اور ایک بددعا سے جڑی کہانی کے باعث بدل چکی ہے۔
جب پورا بھارت دیوالی کی روشنی میں نہاتا ہے، تو سمو گاؤں اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔ یہاں نہ کوئی چراغ جلتا ہے، نہ مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، اور نہ ہی جشن کی آواز سنائی دیتی ہے — جیسے یہ گاؤں وقت کے ساتھ رک سا گیا ہو۔
گاؤں کے بزرگوں کے مطابق یہ خاموشی سو برس پرانی ایک بددعا کا نتیجہ ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران سمو گاؤں کا ایک نوجوان سپاہی برطانوی فوج میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ دیوالی کے دنوں میں، اس کی حاملہ بیوی اپنے میکے جانے کے لیے تیاری کر رہی تھی کہ خبر ملی — اس کا شوہر جنگ میں شہید ہو گیا ہے۔
لاش جب گاؤں لائی گئی تو غم سے نڈھال اس عورت نے اپنے آپ پر قابو نہ رکھا اور اپنے شوہر کی چتا پر زندہ جل کر ستی ہو گئی۔ روایت کے مطابق، جلنے سے پہلے اس نے گاؤں والوں کو بددعا دی:
“جس دن اس گاؤں میں دیوالی منائی گئی، اس دن یہاں کسی کی جان جائے گی۔”
اس ایک جملے نے صدیوں کی خوشیاں چھین لیں۔
اس کے بعد سے آج تک، 100 برس گزر چکے ہیں، مگر سمو گاؤں میں کوئی دیوالی نہیں مناتا۔ نہ گھروں میں دیا روشن ہوتا ہے، نہ مندروں میں پوجا کی جاتی ہے۔
ایک مقامی بزرگ ویر سنگھ بتاتے ہیں کہ بزرگوں نے کئی بار یہ روایت توڑنے کی کوشش کی، مگر ہر بار کوئی نہ کوئی سانحہ ہو گیا — کبھی موت، کبھی آگ، کبھی حادثہ۔
“اب تو لوگ ڈرتے ہیں،” وہ آہستہ سے کہتے ہیں، “اگر کوئی دیا جلانے کی ہمت بھی کرے، تو پورا گاؤں اندیشے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔”
سمو گاؤں کے باسی آج بھی آنے والے مہمانوں سے ایک ہی گزارش کرتے ہیں —
“ہمارے لیے دعا کریں، تاکہ ہم اس بددعا کے سایے سے آزاد ہو سکیں، اور ایک دن اپنے گھروں میں بھی روشنی کر سکیں۔”























