امیر محمد خان
=============

خدا خدا کرکے دو سال دو ماہ کے بعد 9مئی کے کچھ لوگوں کو جو منظم انداز میں عسکری قیادت کے خلاف انقلاب لانے اور اپنی من پسند لوگوں کو عسکری قیادت کیلئے اس منسب پر بٹھانے کے تمنا لئے میدان میں آئے تھے، دہشت گردی توڑ پھوڑ کے ذریعے تقریبا ہر شہر میں اودھم مچادی تھی اس دن لگ رہا تھا اس پاکستان میں کوئی قانون ہی نہیں ہے، دہشت گردی کے ذریعے ایک سیاسی جماعت جسے عوامی حمائت کا ذعم ہوچکا تھا ، اس جماعت کا بیڑا غرق کردیا، گرفتا ر ہونے والوں کو سزا دینے یا رہائی دینے جو اس دہشت گردی میں ملوث نہیں تھے مگر گرفتار کئے گئے تھے انہیں بھی اس انصاف کی تاخیر کے سبب جیل کی صوبتیں برداشت کرنا پڑیں، صوبتیں تو معصوم کارکن برداشت کررہے تھے اپنے اہل خانہ سے دور جبکہ ان معصوموں کو اس دہشت گردی کیطرف راغب کرنے والے جیلوں میں تاحال اپنے پر آسائش گھر سے زیادہ سکون سے جیلوں میں بیٹھے ہیں یہ ہمارے ملک کے قانون کی کوتاہی ہے، ایک طویل عرصے تو یہ بحث جاری رہی جو دہشت گردی میں ملوث ہیں انکے مقدمات فوجی عدالت مین چلیں یا عام عدالتوں میں اگر قانون ایک ہو یا جرم واضح ہو تو کسی بھی عدالت میں مقدمہ چلے اس سے صرف یہ ہی فرق پڑتا ہے جو اب پڑا یعنی مقدمات میں وہی مشہور جملہ کہا جاسکتا ہے ”تاریخ پر تاریخ پر ، تاریخ پر تاریخ“اگر فیصلہ بغیر تاخیر کے ہوتا تومنفی سوشل میڈیا کی توپیں خاموش ہوچکی ہوتیں، یہ بات بھی ہے شائد تاخیری حربہ سایکولوجیکل وار کا حصہ بھی ہوسکتا ہے کہ آج اس جماعت کے رہنماء آپس میں دست و گریبان ہیں جس سے عوامی حمائت ماند پڑگئی ہے اور حکومت کو معاشی حالات کو درست کرنے کا وقت مل گیا۔ معاشی حالات اعداد و شمار کی مطابق تو بہت خوبصورت ہیں مگر یہ خوبصورتی اسی طرح ہے کہ شادی کے بعد دولہا اپنی خوبصورت دلہن کا فوری چہرہ نہیں دیکھ پاتا، اسی طرح اعداد و شمار والی معاشی بہتری کا اثر تاحال عوام تک نہیں پہنچا وہ اب تک مہنگائی اور بے روزگارکی چکر میں پھنسے ہیں۔ سرحدوں پر تو بہادر افواج فتنہ الہند، جیسے معاملات کو بہترین انداز میں مقابلہ کررہے ہیں جس میں ہمارے بھی بہادرجام شہادت نوش کررہے ہیں، مگر ملک میں معاشی دہشت گردی کے ذمہ دار وہ لوگ جو کرپشن میں ملوث ہیں وہ بھی کسی دہشت گرد سے کم نہیں جو معیشت کا بیڑہ غرق کررہے ہیں، حکومت کی گرفت ان لوگوں پر مضبوط نظر نہیں آتی وہاں بھی مفادات کا ٹکراؤ نظر آتاہے، گزشتہ پندرہ سالوں کوہی لے لیں تو بے شمار میگا اسکینڈلز کا ظہورہوا ، مگر ان لوگوں کیا بناء جو کرپش میں ملوث تھے اسلئے عوام کا اعتمادبحال نہیں ہوتا جب بھی کوئی کرپشن کا اسکینڈل آتاہے عوام کچھ گالیاں دل میں نکال کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ ”ہوگا کچھ نہیں“ ایک سے رقم برآمد کی جائے گی اور دوسرے کی جیب میں چلی جائے گی۔ ایک عام غریب آدمی اگر کسی مجبوری کی بناء پر ایک نل چوری کرتا پکڑا جائے ہماری پولیس اور متعلقہ ادارے اسکی و درگت بناتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں بھی نل دیکھتا ہے تو اسے بخار چڑھ جاتا ہے مگر ہمارے ہاں قانون کچھ اسطرح ہے کہ چوری کی رقم پکڑی گئی، چور نے نیب کو کہا کہ میں ”پلی بارگین“کرتا ہوں کوئی رقم طے کرلیں وہ واپس کردیتا ہوں۔ چوری تو چوری ہوتی ہے اسکی اپنی سزا ہے رقم کی وصولی کے بعد بھی معافی کس بات کی ؟؟؟دکیلوں کی دکانیں کھلی ہیں اگر چور پکڑا جائے تو وہ مقدمہ دائر کردیتے ہیں کہ میرا موکل پلی بارگین کررہا ہے مگر اسے گرفتار کرلیا گیا
ہے اسے ذہنی تکلیف پہنچ رہی ہے واہ جنا ب، کرپشن کرتے ہوئے ذہنی تکلیف نہیں پہنچی کہ قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہا ہے، پلی بارگین کی مثالیں سابقہ بھی کئی ہیں اور تاحال نیب اور NAO کے قوانین 1999 کے تحت موجود ہیں سندھ کے ڈائیریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر ذولفقار دھریوجی جو 420 ملین روپیہ کی کرپشن میں ملوث تھے اور حالیہ سندھ کے وزیر شرجیل میمن 5.7 بلین کی کرپشن میں ملوث تھے گھر سے نوٹ نکلے، نیب کا قانون کہتا ہے کہ کرپشن کا مرتکب فرد اگر پلی بارگین کر بھی لے تو وہ آئیندہ کسی حکومتی عہدے کیلئے نااہل ہوجاتا ہے مگر شرجیل میمن اب پھر وزیر ہیں وہ بادشاہ ہیں صاحب صدر کی جماعت ہیں ہین وہ تو ہسپتال میں شراب ملنے پر اسے آب زم زم کہہ کربری ہوجاتے ہیں۔میری ساری روداد کا مطلب یہ ہے کہ کرپشن کرنے والوں کی بھی دہشت گرد ہی کہا جائے کہ وہ ملک کے خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور عوام و ملک کی معیشت قرضوں جنکی وجہ سے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں پاکستان میں گزشتہ 15 سالوں (2010-2025) کے دوران بدعنوانی کے بڑے مقدمات کی فہرست یہ ہے، جس میں اعلیٰ سیاسی رہنما، تاجر اور ادارے شامل ہیں 2016ء میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پنامہ میں ملوث ہوئے ہیں مگر ثبوت نادارت تھے مگر نااہل کرنا تھا اسلئے اقامہ کیس میں نااہل کردیا یہ ہے ہمارا قانون، رینٹل پاور پراجیکٹ 2012 ء میں راجہ پرویز اشرف ملوث تھے 22ار ب کے غیر قانونی ٹھیکوں میں ملوث تھے، مگر جسے پیا چاہے وہی سہاگن، وہ وزیر سے وزیر اعظم بھی بن گئے،نیب نے اپنے اوپر کمبل اوڑھ لیا، جعلی اکاؤنٹس، اور اومنی گروپ کیس کا شور ہوا جس میں 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی 2018ء کا مقدمہ ہے تحقیقات جاری ہیں باقی عوام جانتے ہیں، بقو ل عمران خان انکے دور میں سب سے زیادہ ایمانداری تھی کرپشن سے پاک انکے دور حکومت میں خیبر پختون خواہ میں بد ترین کرپشن ہوئی ، تحقیقات جاری، BRT ُ ُ پشاور سیکنڈل،70ارب کا گھپلا، توشہ خانہ کیس مقدمہ، تحققیات جاری (یہ بھی کسی دن شائد ختم ہوجائے گا صرف مک مکاء کی تاخیر ہے، عمرانخان نااہل قراردئے گئے، القادر ٹرسٹ، 190ملین پونڈزکرپشن، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل LNG درآمدی کرپشن، قومی خزانے کو 30ارب کا نقصان،جہانگر ترین، اور خسرو بختیار کا چینی، گندم کا کیس جس میں 100ارب روپیہ کی کرپشن، حج جیسے معاملے میں اربوں کا کرپشن، سب سے نیا کرپشن2025ء میں بالائی کوہستان 2018- 2024مقدمہ جس میں خیبر پختون خواہ میں 40ملین روپے کا حیران کن غبن، ملک بھی میں اثاثے مالیت 25ارب،ایک ارب روپے سے زیادہ نقد اور غیر ملکی کرنسی تقریباً 3 کلو سونا (قیمت 80 ملین روپے)بینک اکاؤنٹس (~5 ارب روپے)940 ملین روپے کی 77 لگژری گاڑیاں,17 ملین روپے کے مکانات، زرعی زمینں، نیب اور دیگر ادارون نے بالائی کوہستان کرپشن کا جائیدادیں ضبط تو کرلیں ہیں تازہ مقدمہ ہے گرفتاریں بھی ہوئی ہیں مگر پلی بارگین کے نام پر رہائیا ں جاری ہیں، ان معاملا ت پر مجرمانہ طور پر ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر وقت نہیں کہ وہ عوام کو بتائے کہ ہو کیا رہا ہے؟؟ اس وجہ سے عوام میڈیا کو بھی مجرم سمجھتے ہیں۔ مندرجہ بالا اور کئی دوسری روز مرہ کی کرپشن ہی وجہ ہے کہ حکومت قرضوں سے ملک چلانے کی مشکل ترین کوشش کررہی ہے، مگر بڑے بڑے کرپٹ لوگو پر ہاتھ ڈالنے کی ان میں سکت نہیں چونکہ حکومت بھی چلانا ہے کرپٹ لوگوں کے تانے بانے بڑے پیمانے پر ایوان اقتدار تک جاتے ہیں، اتحادی بیٹھک کی وجہ سے کوئی تادیبی کاروائی ممکن نہیں ورنہ میں ذاتی طور پر میاں شہباز شریف کو جانتا ہوں جب میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور
موجود ہ وزیر اعظم شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب تھے انہوں نے پنجاب کی حد کی جرائیم پیشہ کرپٹ لوگوں کا کھڑاک کیا تھا اور انہوں نے اس سلسلے میں اپنے رشتہ داروں کو بھی نہیں چھوڑا تھا اور نہ ہی وزیر اعظم کی سنی تھی پہلے قانون شکنوں کے خلاف کاروائی کی تھی اسکے بعد اسلام آباد کے فون سنے تھے۔























