
سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں پاکستانی میڈیا سے منسلک اعزازی نمائیندگان کا مسئلہ ہے، صحافی کہلانے کے بعد ہم اپنا حق تصور کرتے ہیں کہ ہر سرکاری تقریب میں ہمیں دعو ت دی جائے، امتیازی سلوک کیا جائے وغیرہ وغیرہ، غیرممالک میں موجود ٹک ٹاکرز، اور فیس بک نماء صحافیوں کی زندگی موبائل فون نے آسان کردی ہے، انہیں صحافی تسلیم کرکے قونصل خانوں، سفارت خانوں نے ان لوگوں کو اپنی فہرست میں صحافی لکھ کرانکی زندگیاں آسان کردی ہیں، یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر اب چند لائین لکھنے والے تصاویر، کھانوں، نجی محافل کی تصاویر لگا کر وہ حق سمجھتے ہیں کہ انہیں سینئر صحافی بھی لکھااور کہا جائے ،جدہ میں تقریبا 25سال قبل ایک دبنگ قونصل جنرل راشد سلیم خان نے صحافیوں کو مشورہ دیا کہ آپ سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اسکا حلف بھی انہوں نے لیا اور پاکستان جرنلسٹس فورم کی بنیاد رکھی گئی، جس میں واقعی اخبارات کے لکھاری تھے، اسوقت الیکٹرانک چینل کی بھر مار نہیں تھی یہ سلسلہ تو شروع ہوا پرویز مشرف مرحوم کے دور میں جس میں پاکستان میں گھی فیکٹریوں، تعمیراتی کمپنیوں کے مالکان، کالجوں کے مالکان نے لائینسس لیکر اپنے الیکٹرانک چینلز شروع کردئے غیر ممالک میں موجود صحافت کا شوق رکھنے والوں نے بھاگ دوڑ شروع کی پاکستانی چینلز سے رابطہ کرکے انکی نمائیندگیاں لے لیں، خبر لینے چینلز کی ضرورت تھی اور وہ صحافی کبھی ایک چینل کبھی دوسرے چینل کے نمائیندے بنتے رہے وقت گزرتا گیا کارواں بڑھتا گیا صحافیوں کی تعداد نہیں بلکہ لا تعداد ہوگئی۔ اسکے بعد کم از کم جدہ، اور ریاض کی حد تک مجھے علم ہے باقی ممالک میں بھی شائد ایسا ہی ہو سفارت خانہ ریاض میں کم
، جدہ قونصلیٹ میں زیادہ قونصلیٹ کا دخل شروع ہوگیا، پریس قونصلرز محرک بنے، خود سب کچھ کیا اور نام قونصل جنرل کا لگا دیا کہ انکا حکم ہے غرض گروپنگ شروع ہوگئی پی جے ایف چونکہ تین ہی عہدے تھے چیئرمین، صدر اور جنرل سکریٹری کے اسلئے عہدے داری کیلئے دیگر گروپ بننا ضروری تھے، پی جے ایف کا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ جو صحافی کہتے ہیں ہم سب کو تسلیم کرتے ہیں صحافیوں میں تفرقہ ڈالنے میں جدہ کی کمیونٹی کا ہاتھ رہا، اس سب کے باوجود پی جے ایف کا موقف رہا کہ ہمارا کوئی گروپ نہیں کمیونٹی عزت سے بلائیگی ہم عزت سے جائینگے اور اپنے ممبران کو خبریں بھی شیئر کر دیتے ہیں اشاعت بھی بہترین ہوجاتی ہے ،یہ کام کمیونٹی کے سرکردہ افراد اور قونصلیٹ کا ہوتا کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کو تجربہ کار ہے کون نہیں، صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ کمیونٹی یا صحافیوں میں گروپنگ ہے یہ حقیقت سے چشم پوشی کا آسان طریقہ ہے، گزشتہ دنوں کمیونٹی کے ایک دیرینہ دوست چوہدری عبدالوحید نے اپن پسند کے صحافیوں کے اعزاز میں ایک پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا پاکستان جرنلسٹ فورم کے صدر معروف حسین، جنرل سیکریٹری جمیل راٹھور، خالد چیمہ، محمد عدیل، امانت اللہ او ر خادم موجود تھے جبکہ پاک میڈیا جرنلسٹس فورم کے صدر فہد ملک، چئیرمیں نور الحسن گوجر، اور حسن بٹ موجود تھے اسکے علاوہ کمیونٹی کے سرکردہ لوگوں کو دعوت دی گئی جن میں نمایاں اظہر وڑائچ، چوہدری نواز، چوہدری محمد اکرم، تصور چودھری ،میان رضوان، راجہ ریاض،عمر مسعود پوری، ارف تنولی، فدا حسین کھوکھر، ملک عمر فاروق، ملک آصف بابر بٹ، محمد اقبال، اور صحافتی برادری سے اسد اکرم، جمیل راٹھور، امان اللہ خان، عدیل احمد اور دیگر شامل تھے میزبان چوہدری عبدالوحید نے اپنے خطاب میں تمام معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور صحافیوں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کمیونٹی اور عوام کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے ہیں، اور ان کی جدوجہد قابل فخر ہے۔مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور معاشرے کی رہنمائی میں اس
کا کردار کلیدی ہے، تقریب میں شرکت کے دوران معلوم ہوا کہ اس روز پاک میڈیا جرنلسٹس فورم کے چوہدری نورالحسن گوجر کی
سالگرہ بھی ہے، اس موقع پر عشائیہ سے قبل کیک کاٹنے کی رسم صحافیوں اور کمیونٹی نے ملکر کیک کاٹااور نور الحسن گوجر کو دعا دی۔
Load/Hide Comments























