گلفرڈ اسلامک کلچرل سینٹر اپنے علاقے میں دینی خدمات کی انجام دہی میں پیش پیش ہے سینٹر کے ڈائریکٹر سید عمار زیدی سے بات چیت نمازوں کے اہتمام کے لیے مصلے میں توسیع کا اہتمام


مسرور احمد مسرور

کینیڈا کے شہر وینکور میں کوالٹی آف لائف کو بھرپور طریقے سے انجوائے کر رہے ہیں، جھیلوں کے خوب صورت مناظر سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن اس حسین شہر میں شدت سے جس چیز کی کمی محسوس ہو رہی ہے وہ ہے مساجد کی کمی۔ ہمیں پاکستان میں ہر طرف مساجد نظر آتی ہیں گھر سے نکلتے ہیں پانچ منٹ میں جامع مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں، یہاں گھر سے پانچ میل دور یا پھر دس بارہ میل دور مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے گاڑی سے جانا پڑتا ہے۔ یہاں مصلے اور مسجد کا بہت ذکر سننے میں آتا ہے، دونوں میں فرق کیا ہے؟ بتایا گیا کہ مصلے میں نمازوں کا اہتمام ایک عارضی انتظام ہوتا ہے جبکہ مسجد میں باقاعدہ پانچ وقت کی نماز اور مستقل امام موجود رہتا ہے۔
ہمیں یہاں مساجد کی کمی اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی بابت جاننے کے لیے ایک نوجوان سید عمار زیدی سے بات چیت کا موقعہ ملا جو پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجینئر ہیں اور ایک ادارے میں پیشہ ورانہ ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ مساجد کے معاملات میں بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ گلفرڈ اسلامک کلچرل سوسائٹی میں بہ حیثیت ڈائریکٹر اعزازی طور پر اپنے علاقے میں مسجد کے قیام اور اس کو وسعت دینے کے سلسلے میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اکیلے ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ بورڈ کے دس ارکان مسجد کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں برابری سے شریک رہتے ہیں۔ سید عمار زیدی کا کہنا ہے کہ گلفرڈ کے علاقے میں مصلے کا اہتمام 2008 میں کیا گیا تھا، مسلم کمیونٹی کے لوگ یہاں نماز پڑھنے باقاعدگی سے آتے ہیں، ابتدائی طور پر مصلے کے لیے جو جگہ مختص کی گئی تھی اس میں 50 لوگوں کے لیے نماز پڑھنے کی گنجائش تھی۔ نمازیوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھا گیا تو ایک بڑی جگہ ویئر ہاؤس میں کرایہ پر حاصل کی گئی جس میں 300 لوگوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو گئی۔ جمعہ کے روز ایک ہزار کے قریب نمازی نماز پڑھنے آتے ہیں اس لیے نماز جمعہ تین بار ادا کی جاتی ہے تاکہ تمام لوگ جمعہ کی نماز پڑھ سکیں۔ مصلے کی یہ جگہ 2014 میں لی گئی تھی، نمازیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اس سے بڑی جگہ حاصل کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کے ذریعے قریبی علاقے میں ایک کمرشل بلڈنگ میں 2400 اسکوائر فٹ مصلے کے لیے باقاعدہ خریدی ہے جس میں زیادہ نمازیوں کی گنجائش نکل آئے گی۔ انھوں نے بتایا کہ مسجد کے معاملات کے لیے قائم کیے گئے گلفرڈ اسلامک کلچرل سینٹر کے جو دس ارکان بورڈ میں شامل ہیں ان میں مختلف پیشہ ور، بزنس مین اور انشورنس کے شعبے کی شخصیات شامل ہیں۔ ان ارکان میں 2 عربی ہیں، ایک عراق، ایک فلسطین، 2 بنگلہ دیشی اور 4 پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ وسیم ملک صاحب اس سینٹر کے صدر ہیں اور سینٹر کی سرگرمیوں میں اپنا کردار پوری ذمہ داری سے انجام دے رہے ہیں۔
سید عمار زیدی نے مزید یہ بھی بتایا کہ 2014 میں گلفرڈ اسلامک کلچرل سینٹر نے مدرسہ بھی قائم کیا جس میں 150 کے قریب بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ قرآن و حدیث اور دوسرے متعلقہ مضامین نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں۔ مدرسے کے لیے ایک پرنسپل کی تقرری عمل میں لائی گئی جن کا تعلق گجرات بھارت سے ہے ایک امام صاحب عراق کے تھے اب ایک امام یوسف بن یعقوب گجرات سے تعلق ہے وہ موجود ہیں بہت متحرک نظر آتے ہیں۔
اسلامک سینٹر کے تحت اذان کا مقابلہ، حفظ اور سیرة النبی سے متعلق موضوعات پر مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ تبلیغی جماعت بھی اپنے طریقہ کار سے دین پھیلانے کی سرگرمیوں میں متحرک رہتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں برطانیہ سے قاری خلیل کو بلایا جاتا ہے جو پورے رمضان تراویح پڑھاتے ہیں۔
سید عمار زیدی جو اپنا تعلق لاہور سے بتاتے ہیں، بہ طور الیکٹریکل انجینئر کسی بجلی کی فراہمی کے ادارے میں پیشہ ورانہ ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں۔
2001 میں کینیڈا آئے جب ان کی عمر 15 سال ہوگی ، اس سے پہلے آسٹریا میں 6 سال رہے۔ پاکستان سے بیرون ملک جانے کا اتفاق ہوا تو اس وقت چوتھی کلاس کے طالب علم تھے۔ گریڈ5 سے آگے تمام تعلیم یہاں حاصل کی۔ اسکول، کالج اور پھر یونیورسٹی اور انجینئرنگ کی ڈگری لے کر عملی زندگی کا آغاز کیا۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں میں ایک کامیاب زندگی گزار رہا ہوں اور اپنی لائف سے الحمدللہ پوری طرح مطمئن ہوں۔


یہاں مسلم کمیونٹی فروغ پا رہی ہے، یہاں کے انگریز وغیرہ بہت دوستانہ ماحول میں مل جل کر رہتے ہیں۔ بہت اچھا ملک ہے، مسلم کمیونٹی کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے لیکن سب یہاں کے لائف اسٹائل سے بہت مطمئن ہیں۔ سب اپنی اسلامی روایات کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ مساجد تو ہیں لیکن ایک اسلامی ہائی اسکول کی ضرورت ہے۔ سری میں جامع مسجد ہے، اس کے علاوہ رچمنڈ میں بھی ایک بڑی مسجد موجود ہے جہاں مسلمان نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں۔
یہاں پاکستان سے آنے والوں کے لیے مواقع بہت ہیں، کاروبار کرنے کی بھی گنجائش ہے، ملازمتیں بھی مل جاتی ہیں، آبادی کم ہے بس تعلیم کا ہونا ضروری ہے۔ ٹیکنیکل تعلیم ہو تو ملازمت کے بہت مواقع موجود ہیں، کئی علاقوں میں مصلے ہیں، مساجد بھی ہیں۔
مصلے اور مسجد کا فرق جاننے کے لیے ہم نے سوال کیا تو جواب ملا کہ مصلے نمازوں کے اہتمام کے لیے عارضی انتظام جبکہ مسجد میں باقاعدہ انتظام کے تحت نمازوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اسلامک کلچرل سینٹر کراٹے سکھانے کی کلاسز کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ تقریری مقابلے ، Hiking اور فٹبال کا کھیل کھانے کے لیے کوچز کو بلایا جاتا ہے۔ ہم نے مصلے اور مساجد کی تعداد کے حوالے سے سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہاں مجموعی طور پر 17 مساجد اور 30 مصلے ہیں۔ مسجد کے اخراجات اور دیگر سرگرمیوں کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے اور تمام مسلمان بھائی اس سلسلے میں حوصلہ افزا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ مصلے کے لیے جو نئی جگہ خریدی گئی ہے اس کی قیمت ۹ ملین کینیڈین ڈالرز کے قریب ہے۔ یہ ایک قرض کے ذریعے لی گئی ہے لیکن اس پر کسی قسم کا سود نہیں ہے۔ اصل رقم چند سالوں میں ادا کرنا ہوگی۔ آدھے سے زیادہ قرض کی رقم ادا کر دی گئی ہے، اگلے دو تین سالوں میں مکمل ادائیگی ہو جائے گی۔ اس مصلے میں 40 ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان نماز پڑھنے آتے ہیں۔ بقر عید کی نماز کے لیے ایک شادی ہال کرائے پر لیا گیا جس میں کئی ہزار لوگوں نے نماز عید ادا کی۔ دوبارہ بھی نماز عید ادا کی گئی تاکہ جو لوگ رہ گئے وہ بھی نماز عید ادا کر سکیں۔ سری کے علاقے میں ایک جامع مسجد بھی ہے۔ مسلم کمیونٹی کا ایک نمایندہ ادارہ برٹش کولمبیا مسلم ایسوسی ایشن جو صوبے میں مساجد کے معاملات کے زیادہ تر معاملات کی ذمے دار تنظیم ہے جس کے صدر اسد گوندل ہیں ہر دو سال بعد تنظیم کے انتخابات ہوتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے فلاحی کاموں کے لیے گرانٹس منظور کی جاتی ہیں۔ گزشتہ سال بزرگ لوگوں کے لیے گرانٹ منظور کی گئی، اس گرانٹ سے بزرگ لوگوں کے لیے ایک سیشن منعقد کیا گیا جس میں ماہر نفسیات کو مدعو کیا گیا جنھوں نے دماغی صحت کے حوالے سے لیکچر دیا۔ اس سینٹر میں بزرگ افراد کے لیے کھیل کے مختلف پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں، انھیں پکنک پر لے جایا جاتا ہے اور مختلف سرگرمیوں میں انھیں مصروف رکھا جاتا ہے۔ انھیں انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یوتھ کے لیے گرانٹ منظور کی جاتی ہے اور نوجوانوں کو کاموں میں مصروف رکھا جاتا ہے اور ان کی مالی اعانت کی جا تی ہے۔
مسلم کمیونٹی کے لیے تجہیز و تدفین کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے جس کے لیے ایک سوسائٹی قائم کی گئی ہے۔ ہر مسلم فیملی سے پیسے جمع کرکے پورے انتظامات کیے جاتے ہیں اور انتقال کے وقت فیملی پر زیادہ بوجھ نہیں پڑتا، بہت معمولی سی رقم لے کر تدفین کے تمام انتظامات مکمل کر لیے جاتے ہیں۔
سید عمار زیدی نے بتایا کہ گلفرڈ اسلامک کلچرل سینٹر مسلم کمیونٹی کے لیے پوری نیک نیتی سے خدمات انجام دے رہا ہے اور اس سلسلے میں گلفرڈ علاقے کے مسلمان بھی سینٹر کے ساتھ بھرپور تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں۔