تحریر: سہیل دانش
============
دنیا کی ہر کہانی پہلے باب سے آخری باب کی طرف بڑھتی ہے۔ میں آپ کو ایسی کئی کہانیاں سناؤں جو ناانصافیوں، دھونس، من مانیوں کے ساتھ ساتھ ہچکیوں، آہوں اور بے بسی سے عبارت ہیں۔ سائیکل رکشہ پر پاپڑ فروخت کرنے والے عمران عارف اور اپنی آنکھوں میں اُمید کے خواب سجائے اُن کی بیٹی آمنہ جس اندوھناک انداز میں ایک امیرزادی نتاشا اقبال کی مجرمانہ غفلت کے سبب اِس جہانِ فانی سے رُخصت ہوگئے اور اپنے پیچھے آہ و بکا کا ایسا کرب چھوڑگئے جس نے ہر کسی کو رُلاکر تڑپاکر رکھ دیا ہے۔ ساتھ ساتھ کتنے نوجوان اِس خاتون کی قیمتی گاڑی کی ٹکر سے زخموں سے چُور ہوکر ہسپتالوں میں کراہ رہے ہیں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس دلخراش واقعے کو اپنے اپنے زوایہ نگاہ سے رپورٹ کیا جارہا ہے، قانون اور انصاف کے ہاتھ باندھنے کے لئے کیا کیا بازیگریاں اور “پیسہ بولتا ہے” کا جادو چلانے کا کس برق رفتاری سے اہتمام اور انتظام کیا گیا ہوگا۔ چنی لال کی میڈیکل رپورٹ کو نیا لبادہ پہنانے کے لئے کونسا منتر پھونکا گیا ہوگا۔ میں ایسے واقعات کو ایک اور زاوئیے سے دیکھتا ہوں۔ درحقیقت قانون کا مطلب ہی معاشرے کے زور آوروں امراء رئیس اور بااختیار لوگوں کی انا غرور اور تکبر کے آگے بند باندھنا ہے درحقیقت انصاف ہی وہ بیسک ریالٹی ہے جو اس ملک میں نہیں ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں نہ صرف قانون اور انصاف نہیں بلکہ ہم اس کا مذاق بھی اُڑاتے ہیں اِس ملک میں آپریشن تھیٹر سے لے کر قبرستان تک کرپشن ہے اِس ملک میں چپراسی سے لے کر صدر تک ہر ایک کی طرف انگلیاں اُٹھائی جاتی ہیں اس ملک میں سرکاری خزانے سے لے کر مسجد کا لوٹا تک محفوظ نہیں ہے جس ملک میں ہر قانون ساز اور ایلیٹ کلاس قانون توڑنے کے عمل کو اپنا استحقاق سمجھتے ہوں اور کوئی اِن کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ ہمارے حکمرانوں کو کون بتائے کہ دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی ایک بڑی خصوصیت ہوتی ہے مثلاً ہندومت عاجزی کا مذہب ہے۔ بودھ بے لوث ہوتے ہیں۔ عیسائیت قربانی اور یہودیت بالادستی کا درس دیتی ہے جبکہ اسلام عدل کا نام ہے۔ اگر ہم اسلام سے عدل اور مسلمانوں سے انصاف نکال دیں تو پیچھے کچھ نہیں رہتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چودہ سو سال قبل فرمایا تھا دنیا میں ظلم کی حکومت رہ سکتی ہے۔ بے انصافی کی نہیں اور ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں جن کی حکومتوں کے سارے پائے بے انصافی کی مٹی سے بنے ہیں اور صرف وہ لوگ حکومت کرسکتے ہیں جن کے ڈنڈے لمبے ہوتے ہیں یا جو اپنے ضمیر کے گورکن ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم سب ہیرا پھیری اور بے انصافی کی مٹی سے بنے ہیں۔ اگر کوئٹہ کے بھرے بازار میں ایم پی اے ایک پولیس کانسٹیبل پر گاڑی چڑھاکر اُسے موت کی نیند سلاکر رہائی پاسکتا ہے۔ اگر ایک امیرزادہ تمام حقائق اور ثبوتوں کے باوجود قتل کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے بری ہوسکتا ہے اگر ایسے معاشرے میں جہاں قاتل دندناتے پھررہے ہوں۔ جہاں پولیس اپنی پھرتیاں دکھاکر مٹھیاں گرم کررہی ہو۔ جہاں قانون اور انصاف منہ تک رہا ہو۔ وہاں میڈم نتاشا آپ یقین رکھیں آپ نہ صرف باعزت بری ہوجائیں گی بلکہ کوئی آپ کا بال تک بیکا نہیں کرسکے گا۔ اس کے لئے ہمارے ملک میں مروج جادوگر سسٹم ہر موڑ پر از خود آپکی رہنمائی کرے گا۔ جس ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں بینچوں کی فارمیشن ایڈوانس میں فیصلے کا پتہ دیدیتی ہو وہاں بریک کے بجائے ایکسیلیٹر پر پیر رکھنے کی سزا کیسی؟