کراچی کے بعد پیش خدمت ہیں اسکردو کی تین تلواریں ۔ سیب کے درخت ،خوبانی اور چیری کے باغات ،خوبصورت قدرتی نظارے اپنے عروج پر ۔
یہ سب کچھ آپ کو ملے گا اگر آپ خوبصورت اور حسین قدرتی نظارے دیکھنے کے لیے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گلگت بلتستان کا دورہ کریں اور خوبصورت مقام دیو سائی کا رخ کریں یہاں آپ کی ملاقات کراچی کی طرح بنائی گئی اس کردو کی تین تلواروں سے ہوگی تین تلوار چوک یہاں کا ایک مشہور چوک ہے ۔
اس علاقے میں اپ کو سیب کے درخت ملیں گے جن پر اگر سیب پوری طرح پک کر لال نہیں ہوئے تو وہ اپ کو ادھے سبز اور ادھے سرخ رنگ کے ریڈ بے بی ایپل ملیں گے ان کے علاوہ اپ کو خوبانی اور چیری کے باغات ملیں گے اگر کراچی اور لاہور سے ائے ہیں تو اپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اپ کے شہروں میں یہ پھل کتنا مہنگا ہوتا ہے اور یہاں اتنی بڑی مقدار میں دستیاب ہے کہ اپ پیڑوں سے توڑ کر جتنا کھا سکتے ہیں کھا لیں ۔
دیو سائی نیشنل پارک کو لینڈ اف جائنٹس بھی کہا جاتا ہے ۔
اس علاقے کی سیر کے دوران اپ سدپارہ جھیل اور سدپارہ ڈیم بھی جا سکتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کے بڑے بزرگوں نے ضرورت پڑنے پر انڈے کی زردی سے پانی کو روکنے کے لیے جو بندوبست کیا تھا اسے بعد میں ڈیم کی شکل دے دی گئی اور پھر اسے چین کی مدد سے ایک بڑا محفوظ ذخیرہ بنایا گیا ۔
یہاں دیکھ کر اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ جو بینچ بنائے گئے ہیں وہ ری سائیکلڈ پلاسٹک ویسٹ
سے بنائے گئے ہیں پورے گلگت بلتستان کو صاف رکھنے کے لیے ایک پروجیکٹ کلین گلگت بلتستان پروجیکٹ کے نام سے چل رہا ہے جگہ جگہ لکھا ہوا دیکھیں گے کہ گلگت بلتستان کو صاف رکھیں ۔ان پلاسٹک ویسٹ کہ ری سائیکل پلاسٹک سے بننے والے بینچوں کی تیاری اور رسپانسرز میں اپ کو نیسلے پاکستان جیسی مشہور کمپنی کا نام بھی مل جائے گا ۔
اس علاقے میں کوئی رکشہ نہیں چلتا اس لیے نہ دھواں ہے نہ شور ۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے لوگ سوزوکی وینز جیپ کوسٹرز استعمال کرتے ہیں ۔
یہاں سے شوسر جھیل 48 کلومیٹر کالا پانی 39 کلومیٹر بڑا پانی 31 کلومیٹر اور جیلم چیک پوسٹ 68 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔
بڑا پانی اس مقام کو اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں زیادہ مقدار میں پانی گزرتا ہے
یہاں پر پورٹیبل واش روم بھی بنائے گئے ہیں اس علاقے میں گھومنے پھرنے والوں کو کچرہ بیگ استعمال کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے کچرہ ان بیگز میں رکھیں اور ان کو ادھر ادھر مت پھیلائیں
جگہ جگہ ڈسٹ بن لگائے گئے ہیں تاکہ کچرا بیگ بھر جائیں توان میں رکھتے ہیں ۔اونچے مقامات پر لوگوں کا سانس پھول جاتا ہے اکسیجن کی مقدار کم ہوتی ہے کمزور پھیپھڑے والوں کے لیے مشکل ہو سکتی ہے ۔
اس علاقے
میں اپ کو بورڈ نظر ائے گا علی آباد ۔یہاں ایک wok chef نامی ریسٹورنٹ ہے اس ریسٹورنٹ پر کافی رش ہوتا ہے کیونکہ یہاں چائنیز اور پاکستانی کھانے ملتے ہیں بچے یہاں چپس اور پیزا شوق سے کھاتے ہیں ۔
مقامی لوگ مرشد کسے کہتے ہیں ؟
مقامی لوگ جو دیوسائی کے باشندے ہیں وہ نانگا پربت کو مرشد کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ نانگا پربت کو سر کرنا کے ٹو پہاڑ سے بھی زیادہ مشکل ہے اسے موت کا پہاڑ کہا جاتا ہے کلر ماؤنٹین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
اس کی بلندی 260 فٹ ہے جسے دوسرے الفاظ میں 826 میٹرز بھی کہا جا سکتا ہے
گزشتہ دنوں پاکستان کی نامور ٹی وی اینکر عزا خان نے اپنی فیملی کے ہمراہ ایسے علاقوں کا دورہ کیا اور اپنا وی لاگ بنایا اور اس میں کافی معلومات فراہم کی ان کی ویڈیو دیکھ کر اپ کو اس علاقے اور لوگوں کے بارے میں مزید معلومات مل سکتی ہے