تحریر ۔۔۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
======================
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین معاشی حالات سے گزر رھا ھے پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے بڑے ممالک سے قرضے مانگ رھی ھے جو اپنی اپنی شرائط پر پاکستان کو امداد اور قرضے دیتے ھیں اور آئی ایم ایف کی بات کریں جو اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ قرضے دیتا ھے آئی ایم اے نے پاکستان کو اس بری طرح اپنے جال میں پھنسا رکھا ھے کہ وہ پاکستان کو قرضے دینے کے عوض اپنی اپنی من مانی شرائط منوا رھا ھے اور ھمارے حکومتی اداروں ان ملک دشمن شرائط کو ماننے پر تیار ھوتے ھیں ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں پاکستان پر قرضے 127 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں ھم جتنے بھی قرضے لیتے ھیں وہ مقتدر اشرافیہ اپنے اقتدار اور عیش و عشرت کے نشے مست موج مستیوں میں مشغول ھیں ان حلقوں کو کوئی فکر نہیں کہ یہ قرضے کون اتارے گا
اوپر سے موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل صاحب ھیں جو آنکھیں بند کئے آئی ایم ایف کی جائز ناجائز شرائط مانتے جارھے ھیں کہ کسی طرح سے ایک ارب ڈالر قرضہ مل جائے اور حکومتی ادارے عیاشیاں کر سکیں
پاکستان کو قدرت نے لاتعداد قدرتی معدنیات اور دیگر وسائل سے مالامال کیا ھے معدنیات وہ قدرتی دولت ھے جو زمین کے اندر دبی ہوئی صورت میں ملتی ھے یہی قدرتی وسائل ملک کی اقتصادی اور صنعتی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ھیں
قدرتی وسائل و معدنیات کو موثر طور پر استعمال کرنے سے ھم آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں کے قرضے واپس کر سکتے ہیں بلکہ اپنے عوام کے معاشی حالات بھی بہت بہتر کر سکتے ھیں
آج ھم دنیا کی دوسری سب سے بڑی کھیوڑہ نمک کی کان کی بات کرتے ھیں جو ضلع جہلم پنجاب پاکستان میں واقع ھے ۔
کھیوڑہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریبا 250 کلومیٹر اور ضلع چکوال سے تقریبا 50 کلومیٹر کے فاصلہ پر ھے کھیوڑہ پنڈدادنخان کے قریب ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔اس کے شمال میں کوہستان نمک کا سلسلہ ہے جبکہ جنوب میں
پنجاب کا میدانی علاقہ ہے۔شہر کی بیشتر آبادی زیادہ تر نمک کے کاروبار یا کان کنی سے وابستہ ہے۔اسلام آباد سے کھیوڑہ سفر میں قریباً ساڑھے تین گھنٹے لگتے ہیں۔یہ راستہ مندہ‘کلرکہار‘چکوال اور چوآسیدن شاہ سے ہوتا ہوا کھیوڑہ آتا ھے موٹر ویز سے کھیوڑہ کان تک آنے والی سڑک نہایت خراب ھو چکی ھے جس پر سفر نہایت مشکل طے ھوتا ھے اسلام آباد سے کھیوڑہ مائن آتے ھوئے درمیان میں کلر کہار اور چوآسیدن شاہ بہترین تفریحی مقامات ہیں اسی راستے پر کٹاس کا تاریخی شہر بھی موجود ہے جہاں دسویں صدی عیسوی تک ہندوؤں کی حکومت قائم تھی اور اس کی باقیات یعنی موریہ سلطنت کے آثار قدیمہ اور مندر آج بھی یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
کوہستان نمک (کھیوڑہ) کی سترہ منزلہ اور 120؍کلومیٹر لمبی کان سطح سمندر سے نو سو فٹ بلند ہے۔ اس میں دنیا کا 80 فیصد قدرتی نمک پایا جاتا ہے۔ یہ 260 کلومیٹر لمبے اور 16 کلومیٹر چوڑے پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے اور 327؍ق۔م پرانی ھے اور صدیوں سے یہاں سے نمک کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔ سکندراعظم کی فوج کے ایک جرنیل نے بھی اپنی سوانح عمری میں اس کا ذکر کیا ہے۔ سولہویں صدی میں اسپ خان نے مغل بادشاہ اکبر کو اس شرط پر نمک کے اس پہاڑ کی تفصیلات فراہم کیں کہ بادشاہ اُس کو انعام کے طور پر تمام کوہکنوں کے معاوضہ کے برابر رقم دے گا۔ ’’آئین اکبری‘‘ میں کھیوڑہ کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔
1809ء میں یہ کان سکھوں کی عملداری میں چلی گئی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس پر کافی ٹیکس لگادیا۔ 1849ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کرلیا اور یہ کان اُن کے تصرف میں آگئی۔ اُس وقت نمک گھوڑوں ، گدھوں پر لاد کر دریا تک لایا جاتا تھا اور کشتی کے ذریعہ وہاں سے دریا کے پار بھیجا جاتا تھا۔ چونکہ کھیوڑہ کے چشمے بھی نمکین تھے اس لئے یہاں کی آبادی کو پینے کے لئے میٹھا پانی لکڑی کی ایک نالی کے ذریعہ مٹھاپتن سے 1853ء میں مہیا کیا گیا۔
1856ء میں سڑک کے ذریعہ کھیوڑہ کو پنڈدادنخان سے ملادیا گیا۔ 1872ء میں پہلی دفعہ اس کان پر ماہر مائننگ انجینئر کا تقرر کیا گیا اور کان کنی کا کام سائنسی بنیادوں پر شروع کیا گیا۔ 1886ء میں دریائے جہلم پر پُل تعمیر کرکے کھیوڑہ کو ریل کے ذریعہ بقیہ ملک سے منسلک کردیا گیا۔
1902ء میں کان کنوں کے لئے ایک ہسپتال تعمیر کیا گیا۔ 1918ء میں جانوروں کی بجائے سٹیم انجن کے ذریعہ کان سے نمک نکالنے کا کام شروع ہوا۔ 1924ء میں کان میں بجلی مہیا کرنے کے لئے جنریٹر نصب کئے گئے جو ڈیزل سے چلتے تھے۔ 1933ء میں سٹیم انجنوں کی جگہ الیکٹرک انجن متعارف کروائے گئے۔ 1971ء میں واپڈا نے کان میں بجلی فراہم کردی جس کے بعد جنریٹر صرف ایمرجنسی استعمال کے لئے استعمال ہوتا ھے
دنیا کی سب بڑی نمک کی کان پولینڈ میں موجود ھے جو 900 سال پرانی ھے پولینڈ کے بعد کھیوڑہ کی کان کا دوسرا نمبر آتا ھے جس میں تقریباً 6 ارب ٹن سے زیادہ نمک کے ذخائر موجود ہیں کھیوڑہ سے حاصل ھونے والے کوہستانی نمک کو پنک سالٹ ( گلابی نمک ) کا نام بھی دیا جاتا ھے جو 99 فیصد خالص ھے پاکستان میں پنک سالٹ کے سب سے بڑے برآمد کنندہ جناب اسماعیل ستار کے مطابق گلابی نمک صرف پاکستان میں پیدا ھوتا ھے کھیوڑہ مائن کی مجموعی پیداوار 25 سے 30 لاکھ ٹن سالانہ ھے جس میں سے پاکستان صرف 2 سے ڈھائی لاکھ ٹن گلابی نمک برآمد کرتا ھے جو دنیا میں ھمالین سالٹ کے نام سے فروخت کیا جاتا ھے پنک نمک سب سے زیادہ امریکہ کو برآمد کیا جاتا ھے اس کے علاوہ یورپی ممالک کو پنک نمک برآمد کیا جاتا ھے کھیوڑہ کان کی سترہ منزلوں میں دن رات نمک کی کھدائی کا کام جاری رہتا ھے
کھیوڑہ کے علاؤہ واڑچھا اور کالا باغ کے مقامات میں نمک کی کانوں کے بڑے ذخائر ہیں۔ یہاں سے نکلنے والا عمدہ اورخالص نمک عرف عام میں ”لاہوری نمک” کہلاتا ہے۔
بدقسمتی سے آج تک حکومتی سطح پر ایسا کوئی ارادہ نہیں ھے جو پنک سالٹ کو دینا بھر میں متعارف کروائے اور اس کے برآمد کنندگان کو سہولیات فراہم کرے کہ وہ گلابی نمک جیسی قدرتی دولت کو دنیا میں برآمد کرکے غیر ملکی زرمبادلہ کما کر ملکی معیشت کو استحکام دے سکے اس کے ساتھ ساتھ نمک کی سالانہ پیداوار کو بڑھانے کے لیے موثر اقدامات کرے
وفاقی حکومت کو چاھیے کہ نمک کی برآمد کے لیے سالٹ ایکسپورٹ کارپوریشن قائم کی جائے جو دنیا بھر میں نمک کی برآمد کے لیے موثر ترین اقدامات کرے اور نمک کے برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی بھی کرے جو ملک کے لئے قیمتی زرمبادلہ کما کر لائیں
کھیوڑہ مائن کی مجموعی سالانہ پیداوار بڑھائی جائے
کھیوڑہ میں نمک کے پتھروں سے نہایت خوبصورت اور دلکش سجاوٹی اشیاء تیار کرنے کی صنعت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ھے جن کی دنیا بھر میں مانگ ھے
کھیوڑہ مائن ایک خوبصورت تاریخی تفریحی مقام بھی ھے جس میں بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے ملکی و غیر ملکی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ھے کھیوڑہ مائن کی 120؍کلومیٹر سے زائد لمبائی میں صرف تین کلومیٹر کا علاقہ سیاحوں کے لئے مختص ھے اس مخصوص علاقہ میں مختلف رنگوں کے نمک سے تراشی گئی اینٹوں کی ایک خوبصورت مسجد ہے جس میں باقاعدہ صفیں بچھاکر نماز کا انتظام کیا گیا ہے۔ نمک کی دیواروں کے درمیان خلا رکھا گیا ہے جس میں بجلی کے بلب نصب ہیں۔ بلب روشن ہوں تو قدرت کے اس شاہکار کی بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے۔
ایک جگہ رِستے ہوئے نمکین پانی نے جمع ہوکر سات فٹ اونچی ایک سفید خوبصورت پہاڑی بنادی ہے جو دُور سے برف کی پہاڑی معلوم ہوتی ہے۔ ایک بڑا کمرہ شیش محل کہلاتا ہے جس کی دیواریں صدفیصد ٹرانسپیرنٹ نمک سے بنائی گئی ہیں جو منشور کی طرح مختلف رنگ کی شعاعیں منعکس کرتا ہے۔ کان کے اندر ایک غار بھی ہے جو ایک میٹر چوڑی، چھ فٹ اونچی اور ایک سو فٹ لمبی ہے۔ اس غار کے اندر ایک درخت کے دبے ہوئے آثار ملتے ہیں جس کی خاصیت یہ ہے کہ اگر اسے آگ لگائیں تو لکڑی ربڑ کی طرح بُو دیتی ہے لیکن آگ نہیں پکڑتی۔ یہ غار بھی خالص ترین ٹرانسپیرنٹ نمک سے بنی ھے
کان میں کئی جگہ چشمے جاری ہیں جن کا پانی کان میں موجود چھوٹے بڑے گڑھوں میں جمع ہوکر اُنہیں تالاب کی شکل دیدیتا ہے۔ ایسے تالابوں کی تعداد اسّی کے قریب ھے
اور سچ تو یہ ہے کہ کھیوڑہ کی نمک کی کانوں میں سیاحوں کیلئے بڑی کشش ہے اور حکومت پنجاب محکمہ سیاحت کھیوڑہ نمک کو مزید ترقی دیکر اس علاقے کی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ھے
حکومت کو چاھیے موٹر وے سے کھیوڑہ مائن تک جدید ھائی وے سڑک بنائی جائے اور کھیوڑہ مائن میں سیاحوں کے لئے ریسٹ ہاؤس ریسٹورنٹ بچوں کے لئے تفریحی و دیگر سہولیات فوری طور فراھم کی جائیں تاکہ کھیوڑہ مائن دیکھنے کے لیے جانے والے سیاحوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے قدرت نے آپ کو بے پناہ وسائل دے رکھے ہیں ان کو زیر استعمال لائیں اور قرضوں سے جان چھڑائیں شکریہ پاکستان
=================================================