قرآن کا اعجاز

قرآن کریم ایک معجزہ ہے……ساڑھے چودہ سو سال بیت گئے مگر حرف حرف کسی تحریف سے محفوظ ….کیا ہدایت کے لیے کتاب اللہ کا یہی اعجاز کافی نہیں؟؟رہے نام اللہ کا…..رہے کلام اللہ کا……!!!

سورہ کوثر نازل ہوئی تو ادب شناس قریش تین آیتوں پر مشتمل سورہ کے ادبی حسن اور اختصار و جمال پر عش عش کر اٹھے……عرب میں رواج تھا کہ کعبہ کے دروازے پر چیلنج کے طور پر کسی شعر یا کلام کو آویزاں کر دیا جاتا کہ کوئی مقابل ہے تو سامنے آئے…….مسلمانوں نے سورہ کوثر کی جامعیت کو دیکھ کر اسے بھی بیت اللہ کے دروازے پر سجا دیا…..صحن کعبہ میں اس چیلنج کا جواب لانے والوں کی لائنیں لگ گئیں…..حج پر جمع ہونے والے شاعروں اور خطیبوں نے بھی خوب خوب زور لگایا مگر سب بے بس ہو گئے…. کسی نے کہا تو یہ کہا:ما ہذا کلام البشر….یہ کسی انسان کا کلام نہیں…..!!!

کچھ دن ہوئے عربوں کی طرح خوب صورت قرآن پڑھنے والے پی ایچ ڈی سکالر برادرم مفتی امداد اللہ محمود فرید کہنے لگے کہ آپ کو اپنے استاد گرامی جناب ڈاکٹرمحمد طاہر مصطفیٰ سے ملوانا ہے…..انہوں نے اردو زبان میں قرآن کریم کا پہلا غیر منقوط ترجمہ کرکے نئی تاریخ رقم کی ہے……بتائیں کب اور کہاں بیٹھیں؟میں نے کہا کہ استاد ہمارے پاس چل کر آئے یہ استاد کی توہین ہے….خود حاضر ہو کر “دست بوسی” کرینگے…

دینی اور عصری تعلیم سے آراستہ مفتی امداد،خود ایک بڑے علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں….ان کے نانا مولانا سراج الدین اور دادا مولانا علاؤالدین اپنے وقت کے بڑے شیخ الحدیث جبکہ والد فرید الدین پروفیسر ڈاکٹر تھے……….دو ماموں ڈاکٹر احمد علی سراج اور ڈاکٹر نجم الدین پی ایچ ڈی سکالر ہیں…..مدینہ منورہ میں مقیم ڈاکٹر سراج کویت اسلامی بینک کے بانی رکن ہیں ….. وزارت اوقاف کویت کی جامع مسجد میں تیس سال بغیر تنخواہ خطبہ جمعہ دیا………پھر شہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاوا آگیا اور سب کچھ چھوڑ کر مدینہ کے فقیروں میں جا بیٹھے…….

قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت والے لوگ اللہ کے منتخب بندے ہوتے ہیں…….شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری ہوں یا امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری……..اللہ والوں کی نیک صحبتوں کے اثرات نسلوں چلتے ہیں….شاہ جی کے فیض یافتہ عالم دین مولانا عبدالمجید عارف کے فرزند ارجمند ڈاکٹر محمد طاہر مصطفیٰ بھی ایسے چنیدہ لوگوں میں سے ہیں جن پر قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے کرم ہو گیا اور وہ انعام یافتہ لوگوں کی صف میں شامل ہو گئے……

عزت مآب حفیظ تائب نے کہا تھا کہ نعت ضرور لکھنی چاہئیے کہ مدح پیغمبر صلی الله علیہ وسلم بھی درود کے ذیل میں آتی ہے…..ڈاکٹر طاہر خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے اسمائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پی ایچ ڈی کر کے بڑی ہی مستند نعت لکھی……. اس شب زندہ دار کا آنسوؤں میں بھیگا یہ درود کتنا مقبول ہوگا….!!وہ مبارک ناموں کی رحمتوں اور برکتوں سے خوب خوب مستفیض ہوئے….اسم محمد و احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بوسوں سے ان کے قلب و ذہن کو ایسی روشنی ملی کہ ان پر قرآن کا “غیر منقوط جہان” کھل گیا…..

یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی ) کے “شعبہ اسلامی فکرو تہذیب” میں ڈاکٹر طاہر کے قدموں میں بیٹھے،رشک آ رہا تھا کہ اردو زبان میں قرآن مجید کے پہلے غیر منقوط ترجمے سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے؟؟؟؟مبارکباد دی تو اظہار تشکر کے طور پر پروفیسر صاحب کی آنکھیں خم اور نم ہو گئیں……رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگے:آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو فرماگئے وہی حرف آخر ہے…….ایک حدیث ہے کہ قرآن کریم کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہونگے…..ساڑھے چودہ سو سال بعد بغیر نقطوں والے الفاظ کے ساتھ “درس کلام اللہ” کے نام سے اردو ترجمہ، قرآن مجید کے معجزات اور عجائبات میں سے ایک ہے…. شنید ہے کہ وہ یہ نسخہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لے کر گئے،جہاں سے انہیں منظوری کا خاص اشارہ ملا……

پوچھا غیر منقوط ترجمے کا خیال کیسے آیا ؟بولے:جب قرآن نازل ہوا تو کاتبین وحی نے کلام اللہ کے متن کو بغیر نقطوں کے لکھا…نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں عربی عبارت پر نقطے اور اعراب لگانے کا رواج نہیں تھا………مصحف عثمانی کی ایک فوٹو کاپی مسجد نبوی کے کتب خانے میں موجود ہے،اس پر اعراب اور نقطے نہیں….تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن مجید پر سب سے پہلے اعراب،تابعی ابو الاسود الدؤلی نے لگائے…..

انہوں نے بتایا کہ 14مئی 2011کو شروع ہونے والا ترجمہ صرف 2سال16دن میں مکمل ہو گیا…….بعض اوقات ایک دن میں دو آیات کا ترجمہ ہو جاتا…..بعض اوقات 22دن تک ایک منقوط لفظ کا غیر منقوط متبادل نہیں ملتا تھا……پھر اللہ وہ لفظ میرے ذہن میں ڈال دیتا تھا ….اس طرح 30مئی 2013کو کلام اللہ کا اردو زبان میں پہلا غیر منقوط تفسیری ترجمہ تکمیل کو پہنچا…….7سال نظر ثانی ہوتی رہی اور اب اپنی مدد آپ کے تحت پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں دستیاب ہے…….

کہنے لگے:1421صفحات پر مشتمل تفسیری ترجمے میں 98فیصد الفاظ اردو،صرف 2فیصد دوسری زبانوں کے ہیں، جن کا اردو میں کوئی نعم البدل نہیں تھا….میری یہ مجبوری شاید دوسری زبانوں کی سعادت بن گئی جو اس تفسیری ترجمے میں استعمال ہو گئیں…..

بولے: لوگ سوال کرتے ہیں غیر منقوط ترجمے کی کیا ضرورت تھی…؟؟؟عرض کرتا ہوں میں نے خود یہ کام نہیں کیا ،مجھ سے یہ خدمت لی گئی ہے…..سمندر سا گہرا اور صدیوں سا طویل کام اس ڈاکٹر طاہر سے لیا جس کو تیس لفظوں پر مشتمل مختصر تحریر لکھنی نہیں آتی…. عطا دیکھئے کہ اس عاجز سے 30پاروں پر مشتمل مکمل قرآن کریم کا غیر منقوط تفسیری ترجمہ کرادیا….ہاں یہ طمع تھی کہ اللہ میری ذات کو پوری دنیا میں ایک امتیازی اعزاز عطا کردے اور اس اعزاز کی نسبت قرآن اور صاحب قران صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو…..الحمد للہ! قرآن سے میری امتیازی نسبت اس غیر منقوط ترجمے سے حاصل ہو گئی اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ذاتی نسبت” اسماء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم “کے موضوع پر پی ایچ ڈی مقالے سے قائم ہوئی……خوش نصیب ہوں جو مانگا مل گیا……

وہی بات جو اپنے عہد کے بڑے اخبار نویس جناب جاوید جمال ڈسکوی نے اپنی کتاب”میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس” میں کہی :مجھے کوئی بھول نہیں کہ میں کہوں یا خیال کروں کہ میں نے ادب کا کوئی نیا شاہکار تخلیق کیا ہے میں اسے معجزہ رسول کہوں گا کہ آپ کی ذات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ….ایک سے واقعات بار بار دہرائے گئے مگر ہر دفعہ پڑھنے اور سننے میں ایک نیا ہی لطف آتا ہے….

ڈاکٹر ثناء اللہ حسین ڈاکٹر طاہر کی بڑی علمی کاوش کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اُردو زبان میں کل 36 حروف ہیں جن میں سے 18 حروف ایسے ہیں جن میں نقطہ نہیں آتا، یعنی تقریباً آدھی اردو زبان غیر منقوط ہے…..بہت مشکل ہوتا ہے ایک فقرے میں ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جن میں نقطہ نہ آتا ہو اور فقرہ سلامت رہے…….درس کلام اللہ کے نام سے اس منفرد تفسیری ترجمے سے قرآن کریم کا ایک نیا معجزہ سامنے آیا ہے کہ اردو زبان جو پہلے سے ہی الفاظ کےلحاظ سے تنگی ءِ داماں کا شکار ہے ، اس زبان میں پورے کے پورے قرآن کا ترجمہ غیر منقوط اسلوب میں سامنے آ گیا…..اردو زبان میں بلا شبہ یہ پہلا ریکارڈ ہے…..

اب تسمیہ اور سورہ اخلاص کے غیر منقوط ترجمے کی جھلک ملاحظہ فرمائیے اور سر دھنیے:
اللہ کے اسم سے رحم والا ہے اور لا محدود رحم والا ہے…..
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ اللہ احد ہے…..اللہ (ارحام کے سارے واسطوں سے)ماورا ہے…..سوال ہی معدوم اس کی کوئی اولاد ہو کہ وہ کسی کی اولاد ہو…..اور سوال ہی معدوم کہ کوئی اس کا ہمسر ہو……
بلاشبہ یہ اردو تاریخ میں اپنی طرز کا یہ ترجمہ بھی قرآن کا اعجاز ہے…..چاہئیے تو یہ تھا کہ وزارت مذہبی امور ، وزارت اوقاف اور قرآن بورڈ والے “حضرات گرامی” وطن عزیز کے اس اسلامی سکالر کی تاریخ ساز کاوش پر انہیں “شاباش” دیتے …..سرکاری سطح پر” درس کلام اللہ” کی اشاعت و ترویج کا اہتمام کرتے…. سعودی،ترکی سمیت مختلف اسلامی کو نسخے فخریہ بھجواتے کہ دیکھیں ہمارے اسلامی سکالر نے کتنا بڑا منفرد کام کیا ہے…؟؟؟کاش جامعہ پنجاب سمیت ملک بھر کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں پروفیسر صاحب کے لیے پلکیں بچھاتیں…….دینی مدارس مسند پر بٹھاتے…… پریس کلبز اور چیمبرز آف کامرس خوش آمدید کہتے……مگر شومئی قسمت کہ کسی کو خبر ہی نہیں کہ قران کریم پر اتنا منفرد کام کرنے والا کون اور کہاں ہے؟؟کوئی ناقدری سی ناقدری ہے….!!!محترمہ ڈاکٹرلبنیٰ ظہیر نے درست فرمایا کہ کچھ ذمہ داری تو اس نجی درسگاہ کے ارباب اختیار کی بھی بنتی ہے جہاں ڈاکٹر طاہر برسوں سے پڑھا رہے ہیں….

رات کے آخری پہر کالم لکھتے سوچ رہا تھا ڈاکٹر طاہر صاحب کسی علم دوست معاشرے میں ہوتے تو لوگ ان کو سونے میں تولتے،عقیدت سے ہاتھ چومتے، گھٹنے چھوتے…ہوسکتا ہے قرآن کریم کو انوکھے تفسیری ترجمے میں ڈھالنے والا ان کا نادر قلم ہی کروڑوں میں نیلام ہو جاتا……!!! لیکن کیا کریں ہمارے ہاں زندگی میں عزت دینے کا کلچر نہیں….یہاں “بزرگ”ہونے کے لیے مرنا پڑتا ہے…..!!!