چین اور امریکا دونوں میں روبوٹیکسی پختگی کو پہنچ چکی ہے۔ خود کار ڈرائیونگ والی سواریوں کا تجربہ کرنے والے صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے مثبت تاثرات اس ٹیکنالوجی کے لیے ریگولیٹری اپنانے کے امکانات کو بڑھا رہے ہیں۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق گولڈمین سیکس نے اندازہ لگایا ہے کہ عالمی روبوٹیکسی مارکیٹ 2030 تک 25 بلین ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق چینی کمپنیاں عالمی سطح پر اپنے امریکی حریفوں سے اس دوڑ میں آگے ہیں۔ جب کہ امریکی کھلاڑی ایک پیمائشی رفتار سے پھیل رہے ہیں۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کمپنیاں زیادہ ترقی کر رہی ہیں۔ پچھلے 18 مہینوں میں بیڈو، پونی اے آئی اور وی رائیڈ نے مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں روبوٹیکسی خدمات پیش کرنے کے لیے اوبر کے ساتھ شراکت داری کی ہے جس سے ان کمپنیوں کو تیز رفتار ترقی اور آپریٹنگ اخراجات میں کمی کا موقع ملا ہے۔
رپورٹس کے مطابق بیڈو کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ اس کے ”اپولو گو“ یونٹ نے ووہان میں فی گاڑی منافع حاصل کیا جہاں وہ 1,000 سے زیادہ گاڑیاں چلاتا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کی اپنی الیکٹرک روبوٹیکسی گاڑیوں کی تیاری سے لاگت میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔
چین سے باہر Apollo Go کے آپریشنز کے سربراہ ہالٹن نیو کا کہنا تھا کہ دوسرے درجے کے شہر میں منافع حاصل کرنے کا مطلب ہے کہ ماڈل کو عالمی سطح پر نقل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک بڑا بیڑا کامیابی کی کلید ہے۔
چینی کمپنیاں اپنی عالمی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے تیزی سے کام کررہی ہیں، ابوظہبی نے اپولو گو کو مکمل ادا شدہ بغیر ڈرائیور کے سواریوں کو چلانے کا اجازت نامہ دے دیا ہے۔
اسی طرح کا پرمٹ ”وی رائیڈ“ کو بھی مل گیا ہے اور اس نے تصدیق کی ہے کہ یہ انسانی عملے کی ضرورت کو ختم کرکے فی گاڑی منافع کما سکتی ہے۔ ”پونی اے آئی“ 2026 میں دبئی میں اپنی تجارتی خدمات شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ کمپنی یورپ اور سنگاپور میں توسیع کا منصوبہ بھی رکھتی ہے۔























