
Hasan Jalil
◦ وہ ریڈیو کے عروج کا زمانہ تھا اور میں لڑکپن سے نوجوانی کے دور میں قدم رکھ رہا تھا۔ ریڈیو کی خوبصورت اور باوقار عمارت بڑے بڑے نامور ادیبوں،شاعروں، صداکاروں، گلوکاروں اور موسیقاروں کے وجود سے جگمگا رہی تھی۔ ہر جگہ ریڈیو کا طوطی بول رہا تھا۔ اعلی تخلیقی صلاحیتوں والے پروڈیوسرز کے شاہکار پروگرام سننے والوں کے دلوں میں بسے ہوئے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں آنے والے خطوط اس مقبولیت کے شاہد تھے۔ میں نے اس عظیم درسگاہ سے بہت کچھ سیکھا، ریڈیو نے مجھے نام دیا، مقبولیت عطا کی اور پہچان بخشی۔ آج ریڈیو کے اس سنہری دور کے افراد سے ملاقات کا دن تھے۔ یادوں دریچے کھلتے چلے گئے اور ہم سب اسی سنہری دور میں پہنچ گئے۔ وہی ریکارڈنگز اور اناونسمنٹس میں مصروف سٹوڈیو،
اندرونی اور بیرونی لان میں فنکاروں کا ہجوم، کینٹین سے آتی ہوئی باتوں اور قہقہوں کے ساتھ برتنوں کے کھنکنے کی آوازیں۔ یہ سب کچھ نگاہوں میں گھوم گیا۔ تقریب کا اہتمام نورجہاں ہال میں کیا گیا تھا- سٹیشن ڈائریکٹر لاہور ڈاکٹر احمر سہیل بسرا اور حال میں ریٹائر ہونے والے حسن فاروقی کی کاوشوں نے اس تقریب کو چار چاند لگادئیے۔ شرکا میں نعیم طاہر، ریاض محمود، افضل رحمن، آعظم خان، راشد محمود، ۔ ،احمد شیخ، بادشاہ گر زیدی، سلیم زبیری، خالد بھٹی ،شوکیہ ظہیر ، طارق رحیم، راجہ اسد علی خان ، فدا حسین ، طاہر امین اور پاکستان ٹیلیوژن کے زاہد مرزا شامل تھے۔ ان میں سے بیشتر لوگوں سے برسوں کے بعد ملاقات ہوئی۔ شرکا نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میرے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ میرے لئے ایک سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ بعد میں پرتکلف چائے نے رہی سہی کسر پوری کردی صرف ایک خواہش ذہن ودل میں مچلتی رہی کہ کاش ریڈیو کا وہ خوبصورت زمانہ واپس آجائے اور روٹھی ہوئی بہاریں لوٹ آئیں۔۔۔























