جامعہ کراچی: شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام عالمی یوم خوارک کے موقع پر سیمینار کا انعقاد
ہماری پیداواری صلاحیت یا تو ہماری ضروریات کے مطابق نہیں ہے یا پھر ناقص منصوبہ بندی اور غلط پالیسیوں کے باعث پیداوار منڈی تک پہنچنے سے قبل ہی ضائع ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر خالد عراقی
پاکستان میں فی کس سالانہ 22 سے 24 کلوگرام چکنائی (Fat) استعمال کی جا رہی ہے، جو دنیا بھر میں بلند ترین سطح پر ہے۔ڈاکٹرغفران سعید
پاکستان تیزی سے شہری ملک بنتا جا رہا ہے،دیہی آبادی میں ایک فیصد جبکہ شہری آبادی میں 2.35فیصد اضافہ ہواہے۔ڈاکٹر پیدرو آندریس
جامعہ کراچی کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر خالدمحمود عراقی نے کہا ہے کہ پاکستان کو زرعی ملک کہا جاتا ہے، مگر بدقسمتی سے آج بھی کئی اہم اجناس ہمیں بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ ہماری پیداواری صلاحیت یا تو ہماری ضروریات کے مطابق نہیں ہے یا پھر ناقص منصوبہ بندی اور غلط پالیسیوں کے باعث پیداوار منڈی تک پہنچنے سے قبل ہی ضائع ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر خالد عراقی نے کہا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کم رقبے پر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اعلیٰ معیار کی اجناس اور غذائی اشیاء کی وافر مقدار میں پیداوار حاصل کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف وہ اپنی مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ برآمدات کے ذریعے اپنی معیشت کو بھی مستحکم کر رہے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو بھی دقیانوسی زرعی طریقہ کار ترک کر کے جدید ٹیکنالوجی اپنانی چاہیے تاکہ زرعی اراضی کا زیادہ سے زیادہ موثر استعمال ممکن بنایا جا سکے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیمی ادارے، خصوصاً زرعی شعبے سے وابستہ شعبہ جات، اگر وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنا نصاب صنعتوں کی ضروریات کے مطابق ڈھالیں تو یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے اور لائق تحسین عمل ہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جامعہ کراچی کے زیر اہتمام شعبہ ہذا میں عالمی یوم خوراک کے موقع پر منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پرشعبہ فوڈسائنس اینڈ ٹیکنالوجی جامعہ کراچی کے ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹراور ماہر غذائیت ڈاکٹر سید محمد غفران سعید نے کہا ہے کہ پاکستان کو شدید غذائی بحران کا سامنا ہے اور خوراک سے جڑے غیر صحت مند رجحانات ملک کی صحت عامہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکے ہیں۔ڈاکٹر غفران نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستانی عوام کی خوراک میں توازن کی شدید کمی ہے، اور خاص طور پر چار عناصر ایسے ہیں جو صحت کو براہِ راست نقصان پہنچا رہے ہیں جن میں چینی،سچوریٹڈ فیٹس،ٹرانس فیٹس اورنمک شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فی کس سالانہ 22 سے 24 کلوگرام چکنائی (Fat) استعمال کی جا رہی ہے، جو دنیا بھر میں بلند ترین سطح پر ہے۔ ان کے مطابق یہ غیر متوازن کھپت ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں اور دیگر غیر متعدی امراض کا سبب بن رہی ہے، جو صحت کا بوجھ بڑھانے کے ساتھ ساتھ معیشت پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے فوڈ سسٹمز اور ماحولیاتی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر پیدرو آندریس گارزون ڈیلواکس نے کہا کہ پاکستان تیزی سے شہری ملک بنتا جا رہا ہے،دیہی آبادی میں ایک فیصد جبکہ شہری آبادی میں 2.35فیصد اضافہ ہواہے۔یہ شعبہ مضبوط اور متنوع ترقی کی صلاحیت رکھتا ہے، جس میں معیشت پر کثیر الجہتی اثرات (multiplier effect) شامل ہیں۔عوامی اور نجی مفادات ایک دوسرے میں جڑے ہوئے ہیں، جس سے پیچیدگیاں ضرور ہیں، لیکن ساتھ ہی خاطر خواہ مواقع بھی موجود ہیں۔ایف اے او کے لیے پاکستان میں تعاون کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
صدرشعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر عبد الحق نے کہا کہ فصل کی کٹائی کے بعد نقصانات ترقی یافتہ ممالک میں تقریباً 10فیصد یا اس سے کم ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان جیسے ممالک میں یہ تقریباً 30فیصد تک ہوتے ہیں، جو کہ بہتر انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے۔انہوں نے بتایاکہ برازیل تقریباً 70–80فیصد مالٹے کے پھل کو جوس میں پروسیس کرتا ہے؛ جبکہ پاکستان صرف تقریباً 3فیصد پھلوں کو جوس یا جام میں پروسیس کرتا ہے۔دنیا کی باغبانی (horticulture) کی تجارت کا حجم تقریباً 80 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کا حصہ صرف 130 ملین ڈالر (تقریباً 0.16فیصد) ہے،ویلیو ایڈیشن کے ذریعے ترقی کے لیے بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ترکی اور ایران خشک میوہ جات کی برآمدات میں نمایاں ہیں جبکہتھائی لینڈ نے ڈبہ بند انناس کی ایک بڑی صنعت قائم کی اور پاکستان بھی اپنی فصلوں کے لیے ایسے ماڈلز اپنا سکتا ہے۔
رئیس کلیہ علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر مسرت جہاں یوسف نے کہا کہ ورلڈ فوڈ ڈے ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خوراک کی حفاظت، اس کی تیاری کے عمل، یا غذائیت سے متعلق تحقیق میں ہر بہتری ہمارے قومی نظامِ خوراک کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتی ہے۔ انہی کوششوں کے ذریعے ہم ایک ایسے مستقبل کی جانب بڑھ سکتے ہیں جہاں کوئی بھوکا نہ رہے، خوراک محفوظ، غذائیت سے بھرپور اور ہر فرد کی دسترس میں ہو، اور جدت انسانیت کی خدمت کرے۔سیمینار سے شعبہ مائیکروبائیولوجی کی پروفیسرڈاکٹر نصرت جبیں ودیگر نے بھی خطاب کیا۔























