مستقبل کے صحتمند معاشرے کے لئے جنک فوڈ کے خلاف موثر حکومتی اقدامات کی اشدضرورت ہے۔پروفیسرڈاکٹر طاہرصغیر
جو لوگ 50 یا 60 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کا شکار ہوتے ہیں، ان کے دل کی بیماری کا آغاز دراصل 15 سے 18 سال کی عمر میں ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ پروفیسرڈاکٹرسیدندیم رضوی
ہمارے معاشرے میں لوگ اب بھی سائنسی طریقوں کے بجائے پیروں، عاملوں اور تعویذ گنڈوں کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو کہ ایک خطرناک رجحان ہے۔پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی
پاکستان میں ہر منٹ میں ایک ہارٹ اٹیک ہوتا ہے، جبکہ ہر دو سے تین منٹ کے دوران ایک قیمتی جان دل کے دورے کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ ڈاکٹرمحمد ہاشم خان
ایگزیکیٹوڈائریکٹروسیکریٹری گورننگ باڈی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیوویسکولر ڈیزیزومعروف ماہرِامراض قلب پروفیسر ڈاکٹر طاہرصغیر نے موجودہ دور میں جنک فوڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا رجحان بن چکا ہے جو نہ صرف نوجوانوں بلکہ بچوں کی صحت کو بھی تیزی سے متاثر کر رہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اگر ہم مستقبل میں ایک صحت مند معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو حکومت کو فوری طور پر جنک فوڈ کے خلاف سخت اور مؤثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ڈاکٹر طاہر نے تعلیمی اداروں کی موجودہ صورتحال پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کل اسکول صرف 200 گز کے پلاٹس پر تعمیر کیے جا رہے ہیں، جہاں طلبہ کے لیے نہ کھیلنے کی جگہ میسر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی صحت مند سرگرمیوں کا انتظام۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کو چاہیے کہ ہر اسکول کے لیے کم از کم ایک ایکڑ یا پانچ ہزار گز رقبہ لازمی قرار دے، تاکہ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی نشوونما کے مواقع بھی میسر آئیں۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے جمعرات کے روز آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن جامعہ کراچی کے زیر اہتمام ورلڈ ہارٹ ڈے کی مناسبت سے منعقدہ آگاہی سیمیناربعنوان:”Don’t Miss a Beat!”سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب کا اہتمام ڈاکٹراے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں کیاگیا۔
ڈاکٹر طاہر نے مزید کہا کہ صحت مند سرگرمیوں کی کمی اور جسمانی مشقت سے دوری ہماری بڑھتی ہوئی بیماریوں کا ایک بڑا سبب ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے پیدل چلنے جیسی سادہ اور مفید عادت کو تقریباً ترک کر دیا ہے، جو ماضی میں ہماری صحت مند زندگی کا ایک لازمی حصہ تھی۔
ڈائریکٹر کارڈیوویسکولرسروسزڈیپارٹمنٹ اوایم آئی اسپتال معروف ماہر امراض قلب پروفیسرایمریطس ڈاکٹرسیدندیم رضوی نے کہا کہ آج جب ہم عالمی سطح پر صحت کے بحران کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دل کی بیماریاں اب بھی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
ہم سب روایتی خطرات جیسے کہ ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور ذیابیطس سے واقف ہیں، مگر طرزِ زندگی سے جڑے ایسے عوامل جنہیں بدلا جا سکتا ہے،جیسے کہ ذہنی دباؤ اور نیند ان پر توجہ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔انہوں نے مزیدکہا کہ ذہنی دباؤ (اسٹریس) دل اور خون کی نالیوں کے نظام کو دو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔اگر اسٹریس اچانک ہو تو یہ دل کی دھڑکن کو بڑھا دیتا ہے۔اگر اسٹریس مسلسل رہے یعنی دائمی اسٹریس ہو، تو اس کا اثر خون کی نالیوں کی اندرونی سطح پر پڑتا ہے، جو کہ پورے جسم میں لاکھوں میل تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔یہ نالیاں بالکل شیشے جیسی صاف اور ہموار ہوتی ہیں، لیکن اگر ان پر خراش آ جائے تو وہاں کولیسٹرول اور دیگر مواد جمع ہونے لگتا ہے۔ یہ عمل 15 سے 20 سال کی عمر سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹرسیدندیم رضوی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ 50 یا 60 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کا شکار ہوتے ہیں، ان کے دل کی بیماری کا آغاز دراصل 15 سے 18 سال کی عمر میں ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ دل کی بیماری اچانک نہیں ہوتی، بلکہ یہ کئی دہائیوں پر محیط عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔
ڈاکٹرسیدندیم رضوی نے اس موقع پر عوام سے اپیل کی کہ وہ دل کی صحت کو سنجیدگی سے لیں، خاص طور پر نوجوانی سے ہی صحت مند طرزِ زندگی اپنانا شروع کریں تاکہ مستقبل میں بڑی بیماریوں سے بچا جا سکے۔
جامعہ کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کہا کہ عالمی یومِ امراضِ قلب منانے کا بنیادی مقصد دل کی بیماریوں کے حوالے سے عوام میں شعور و آگاہی کو فروغ دینا ہے تاکہ لوگ وقت پر احتیاط اور علاج کو ترجیح دیں۔
انہوں نے کہا کہ دل کی بیماریوں کا بروقت علاج اور تشخیص نہایت اہم ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لوگ اب بھی سائنسی طریقوں کے بجائے پیروں، عاملوں اور تعویذ گنڈوں کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو کہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ”ہمیں افسانوں پر نہیں بلکہ سائنس پر یقین کرنے کی ضرورت ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم جدید تحقیق اور مستند طبی ماہرین سے رجوع نہیں کریں گے، تب تک ہم ان بیماریوں پر قابو نہیں پا سکتے۔
ڈاکٹر خالد عراقی نے معاشرے میں صحت مند طرزِ زندگی کے فقدان پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں صحتمندانہ سرگرمیوں کا فقدان ہے، اور والدین بھی بچوں کی خوراک، جسمانی صحت اور طرزِ زندگی پر توجہ نہیں دیتے، جو کہ مستقبل میں سنگین طبی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف تعلیم کے فروغ پر توجہ دیں بلکہ طلبہ و طالبات میں صحت کے حوالے سے بھی شعور بیدار کریں تاکہ نوجوان نسل بیماریوں سے بچاؤ اور صحت مند زندگی گزارنے کے اصولوں سے آگاہ ہو سکے۔
ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے کارڈیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسرو ماہر امراض قلب ڈاکٹرمحمد ہاشم خان نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ہر منٹ میں ایک ہارٹ اٹیک ہوتا ہے، جبکہ ہر دو سے تین منٹ کے دوران ایک قیمتی جان دل کے دورے کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔
ڈاکٹر ہاشم کے مطابق 1990ء میں عالمی سطح پر دل کے امراض موت کی چھٹی بڑی وجہ تھے، لیکن آج یہی بیماریاں دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ دل کے 80 فیصد امراض قابلِ پرہیز (preventable) ہیں، اگر بروقت تشخیص اور علاج کیا جائے۔
انہوں نے عالمی ادارہ صحت اور دیگر سروے رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ورلڈ ڈائیبیٹکس فیڈریشن کی 2023ء کی رپورٹ میں پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریضوں والا ملک قرار دیا گیا ہے، اور بدقسمتی سے یہ صورتحال تاحال برقرار ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کے کسی ہمسایہ ملک کا نام ابتدائی 20 ممالک میں شامل نہیں، جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔
ڈاکٹر ہاشم نے ہائی بلڈ پریشر (ہائیپرٹینشن) کو ایک ”عالمی وبا” قرار دیا۔ ان کے مطابق دنیا بھر میں 1.3 ارب افراد ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں، لیکن ان میں سے 46 فیصد کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں۔ صرف 42 فیصد افراد کی تشخیص اور علاج ہو چکا ہے، جبکہ 21 فیصد سے بھی کم مریض ایسے ہیں جن کا بلڈ پریشرموثر طور پر قابو میں ہے۔
قبل ازیں ڈائریکٹر آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن جامعہ کراچی ڈاکٹر سیدہ حورالعین نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے ورلڈ ہارٹ ڈے کی مناسبت سے منعقدہ آگاہیسیمینارکے اغراض ومقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔اس موقع پر بانی وچیئرمین ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل ڈاکٹر عمران یوسف نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا۔























