اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور ایران نے عراق میں جواب دیا تو کتنے پاکستانی ایران اور عراق میں پھنس جائیں گے؟

اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور ایران نے عراق میں جواب دیا تو کتنے پاکستانی ایران اور عراق میں پھنس جائیں گے؟

“اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرے اور ایران کا جواب عراق سے آئے، تو ایران اور عراق میں کتنے پاکستانی پھنس جائیں گے؟”

تفصیل:
اگر اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے اور ایران عراق کے ذریعے جوابی کارروائی کرتا ہے، تو اس صورت حال میں لاکھوں پاکستانی زائرین اور شہریوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

پاکستانی زائرین کی تعداد:

ایران میں ہر سال تقریباً 7 لاکھ پاکستانی زیارت اور خصوصاً اربعین کی مناسبت سے عراق جاتے ہیں۔

عراق میں اربعین کے موقع پر پاکستانی زائرین کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے، جو ایران کے راستے کربلا پہنچتے ہیں۔

پاکستان اور ایران کی سرحد محرم اور اربعین کے دوران 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے تاکہ زائرین کو آسانی ہو۔

خدشات اور ممکنہ صورتحال:

اگر ایران اور عراق میں تنازعہ پھیلتا ہے، تو پاکستانی زائرین اور مزدوروں کی واپسی مشکل ہو سکتی ہے۔

ایران نے اربعین کے موقع پر پاکستانی زائرین کو کھانا اور رہائش کی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن جنگ کی صورت میں یہ نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔

پاکستانی حکومت کو ممکنہ بحران سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی پلان تیار کرنا ہوگا۔

نتیجہ:
اگرچہ پاکستانی زائرین کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن تنازعے کی صورت میں ہزاروں سے لاکھوں پاکستانی متاثر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔

حکومت پاکستان کی ذمہ داری:
اگر ایران اور عراق میں تنازعہ بڑھتا ہے، تو پاکستانی حکومت کو فوری طور پر اپنے شہریوں کی حفاظت اور انہیں واپس لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ وزارت خارجہ اور پاکستانی سفارتخانوں کو ایران اور عراق میں موجود پاکستانیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے ان تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ ممکنہ طور پر خصوصی فلائٹس یا زمینی راستوں کے ذریعے پاکستانیوں کو نکالنے کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی، خاص طور پر زائرین جو عراق میں پھنس سکتے ہیں۔

بین الاقوامی ردعمل اور سفارتی کوششیں:
پاکستان کو تنازعے کے حل کے لیے اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) جیسے فورمز پر سفارتی کوششیں تیز کرنی ہوں گی۔ ایران اور عراق میں پاکستانی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ رابطہ بڑھانا ہوگا۔ اگر صورتحال مزید خراب ہوتی ہے، تو پاکستان کو غیرملکی شہریوں کی انخلا کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعاون کرنا پڑ سکتا ہے۔

عوامی ردعمل اور احتیاطی تدابیر:
پاکستانی عوام، خاص طور پر وہ لوگ جو ایران یا عراق جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، کو حالات پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ حکومت کی جانب سے جاری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے غیرضروری سفر سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر تنازعہ شروع ہوتا ہے، تو ایران اور عراق میں موجود پاکستانیوں کو اپنے قریبی پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کرنا چاہیے اور محفوظ مقامات پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس طرح کے بحرانی حالات میں ہوشیاری اور بروقت اقدامات بہت سی جانیں ب