
ائرن لیڈی عائزہ خان
وہ بہادر لڑکی جس نے ماونٹ ایورسٹ سر کر لیا
یہ کہانی ہے عائزہ خان کی، جو پاکستان کے ایک خوبصورت مگر پہاڑوں سے گھِرے علاقے ہنزہ کی رہنے والی تھی۔ وہ ایک عام سی لڑکی تھی، مگر اس کے خواب کسی عام انسان جیسے نہیں تھے۔ اس کا خواب دنیا کی سب سے خطرناک اور بلند چوٹی، ماونٹ ایورسٹ (29,032 فٹ بلند) کو سر کرنا تھا۔
یہ وہی چوٹی تھی جسے سر کرنے کی خواہش میں ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا چکے تھے، جس کی برفانی ہوائیں اور خطرناک دراڑیں سیکڑوں خوابوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کر چکی تھیں۔ مگر عائزہ نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرے گی، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
یہ سفر نہ صرف جسمانی آزمائشوں سے بھرا ہوا تھا بلکہ اس میں سماجی، ذہنی اور جذباتی رکاوٹیں بھی تھیں۔ لوگ کہتے:
“لڑکیاں پہاڑ نہیں چڑھ سکتیں!”
“یہ خطرناک ہے، خودکشی مت کرو!”
“کوہ پیمائی صرف مردوں کا کھیل ہے!”
لیکن عائزہ نے ان سب باتوں کو پسِ پشت ڈال دیا اور اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے دن رات محنت کرنے لگی۔
—
بچپن – پہاڑوں سے عشق کی ابتدا
عائزہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کے والد ایک ٹور گائیڈ تھے، جو غیر ملکی سیاحوں کو ہنزہ اور قراقرم کے پہاڑوں کی سیر کراتے۔ وہ اکثر اپنے والد کی باتیں سنتی، جب وہ بڑے بڑے کوہ پیماؤں کی کہانیاں سناتے—ایڈمنڈ ہلیری، شیرپا تینزنگ، رین ہولڈ مسنر، نانگا پربت کے قاتل پہاڑ پر لڑنے والے عظیم کوہ پیما۔
یہ کہانیاں اس کے ذہن میں نقش ہو جاتی تھیں، اور وہ سوچتی، “کیا میں بھی ایسا کر سکتی ہوں؟”
جب وہ 16 سال کی ہوئی، تو اس نے پہلی بار ایک چھوٹے پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کی۔ وہ لمحہ ناقابلِ یقین تھا۔ جیسے ہی اس نے چوٹی پر قدم رکھا، اسے ایسا لگا جیسے وہ آزاد ہو گئی ہو، جیسے زمین پر رہنے والی باقی دنیا پیچھے چھوٹ گئی ہو۔
یہیں سے اس کے خواب نے حقیقت کا روپ لینا شروع کیا۔ The Writer’s Hub
—
ایورسٹ کی تیاری – مشکلات کا آغاز
ماونٹ ایورسٹ کو سر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں سے ایک تھا، جہاں برفانی طوفان، آکسیجن کی کمی، برفانی دراڑیں، اور منفی 50 ڈگری تک سردی کوہ پیماؤں کا امتحان لیتی تھی۔
عائزہ جانتی تھی کہ اگر وہ کامیاب ہونا چاہتی ہے، تو اسے زبردست جسمانی طاقت، اسٹیمینا، اور تکنیکی مہارت حاصل کرنی ہوگی۔ اس نے کئی سال تک قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑوں پر چڑھنے کی مشق کی، خود کو سخت موسم میں زندہ رہنے کے قابل بنایا، اور فٹنس پر بھرپور محنت کی۔
سب سے بڑا چیلنج پیسے کا تھا۔ ایورسٹ پر چڑھنے کے لیے 30 سے 40 لاکھ روپے درکار تھے—یہ ایک عام خاندان کے بس کی بات نہیں تھی۔
عائزہ نے مختلف اسپانسرز سے رابطہ کیا، حکومت سے مدد مانگی، مگر کوئی مدد کے لیے تیار نہ ہوا۔ آخر میں، اس نے سوشل میڈیا پر اپنی کہانی شیئر کی اور لوگوں سے مدد کی اپیل کی۔ خوش قسمتی سے کچھ کوہ پیمائی کی تنظیموں اور فلاحی اداروں نے اسے سپورٹ کیا، اور یوں اس کا خواب پورا ہونے کی پہلی سیڑھی مکمل ہوئی۔
—
ایورسٹ کی چڑھائی – ایک آزمائش بھرا سفر
پہلا فیز – بیس کیمپ تک پہنچنا
اپریل 2025 میں، عائزہ نیپال پہنچی، جہاں اس کی ٹیم نے اسے ایورسٹ بیس کیمپ (17,600 فٹ) لے جایا۔ یہاں پہنچ کر اس کا پہلا امتحان شروع ہوا—ایڈجسٹمنٹ!
اتنی اونچائی پر آکسیجن پہلے ہی 50% کم ہو چکی تھی۔ سانس لینا مشکل ہو رہا تھا، ہر قدم ایک بوجھ بن رہا تھا، مگر حوصلہ کم نہ ہوا۔
—
دوسرا فیز – خطرناک کھمبو آئس فال
کھمبو آئس فال ایورسٹ کا سب سے خطرناک علاقہ تھا۔ یہ ایک برفانی جال تھا، جہاں ہر لمحہ برفانی تودے گرنے کا خطرہ ہوتا تھا۔
یہاں ایک حادثہ ہوا!
عائزہ برف پر چل رہی تھی کہ اچانک برفانی سطح اس کے نیچے ٹوٹ گئی، اور وہ ایک خوفناک برفانی دراڑ (Crevasse) میں گرنے لگی۔
یہ زندگی اور موت کا لمحہ تھا۔
اس نے آخری وقت میں اپنی کلہاڑی برف میں مار کر خود کو گرنے سے روکا۔ نیچے ایک گہری برفانی کھائی تھی، جہاں اگر وہ گر جاتی، تو اس کا بچنا ناممکن تھا۔
یہاں پہلی بار اس نے اپنی موت کو قریب سے دیکھا!
—
تیسرا فیز – کیمپ 3 اور ایک ساتھی کی موت
جب ٹیم 24,000 فٹ پر پہنچی، تو ان کے ایک ساتھی کو آکسیجن کی شدید کمی ہو گئی۔ عائزہ اور اس کی ٹیم نے اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر وہ زندہ نہ بچ سکا۔
یہ سب کے لیے ایک جذباتی دھچکا تھا، مگر وہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے رکنے کی کوشش کی، تو وہ بھی پیچھے رہ جائیں گے۔
—
آخری چڑھائی – 29,032 فٹ کا سفر
27,000 فٹ کے بعد، آکسیجن 30% رہ گئی تھی۔ ہر سانس لینا ایسے تھا جیسے کوئی گلے پر بوجھ رکھ دے۔ انگلیاں برف سے سُن ہو رہی تھیں، جسم کانپ رہا تھا، مگر عائزہ ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔
آخرکار، 15 مئی 2025 کو، صبح 5 بج کر 45 منٹ پر، عائزہ نے دنیا کی سب سے بلند چوٹی پر قدم رکھا!
یہ وہ لمحہ تھا، جس کے لیے وہ سالوں سے لڑ رہی تھی!
پاکستان کا جھنڈا بلند ہوا، آنکھوں میں آنسو تھے، اور دل میں صرف ایک دعا:
“شکریہ، اللہ! میں نے کر دکھایا!”
—
واپسی کا امتحان – موت کے منہ سے بچاؤ
ایورسٹ سر کرنا ایک بات تھی، مگر واپس آنا اور بھی مشکل تھا!
جب وہ نیچے آ رہی تھی، تو اچانک ایک بڑا برفانی تودہ گر گیا، اور وہ بمشکل ایک چٹان کے پیچھے چھپ کر اپنی جان بچا سکی۔
اس کا ایک جوتا برف میں پھنس چکا تھا، ہاتھ برف سے زخمی ہو گئے تھے، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے آخری طاقت لگا کر خود کو آزاد کیا اور نیچے پہنچ گئی!
—
پاکستان میں ہیرو کی واپسی
جب عائزہ پاکستان پہنچی، تو ایئرپورٹ پر ہزاروں لوگ اس کا استقبال کر رہے تھے۔
یہ صرف اس کی جیت نہیں تھی، یہ ہر لڑکی کی جیت تھی، جو کچھ بڑا کرنا چاہتی ہے!
عائزہ خان نے ثابت کر دیا کہ اگر حوصلہ ہو، تو دنیا کا کوئی پہاڑ ناقابلِ تسخیر نہیں!























