دنیا کے آخری کنارے پر آخری سرد سڑک کی کہانی

“ناروے کی برفانی سڑک: دنیا کا آخری سرا”
“منفی 55 ڈگری میں دنیا کے آخری گاؤں کی سیر”
دنیا کے آخری کنارے پر ایک ایسی سڑک ہے جو نہ صرف انتہائی سردی میں ڈوبی ہوئی ہے بلکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آگے کوئی راستہ نہیں جاتا۔ یہ سڑک ناروے میں واقع ہے، جسے “ہائی وے نمبر E69” کہا جاتا ہے۔ یہ سڑک دنیا کی آخری سڑک ہے، جہاں سے آگے صرف خاموش برف اور سمندر کا پانی ہے۔ آج ہم آپ کو اس سڑک کی سیر پر لے چلیں گے، جہاں زندگی انتہائی مشکل حالات میں بھی جیتی ہے۔
ہماری یہ سفر 120 کلومیٹر طویل ہے، جو ہمیں دنیا کے آخری آباد علاقوں تک لے جائے گا۔ یہ سڑک ناروے کے سمندر کے کنارے بنائی گئی ہے اور اس پر سفر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ سردیوں میں یہ سڑک برف سے ڈھک جاتی ہے، اور کئی مہینوں تک یہاں سورج طلوع نہیں ہوتا۔ جبکہ گرمیوں میں یہاں رات کا تصور ہی نہیں ہوتا، کیونکہ سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔
ہم نے اپنا سفر ایک پیٹرول پمپ سے شروع کیا، جو اس علاقے میں واقع ہے۔ یہ پیٹرول پمپ دنیا کی آخری سڑک کا نقطہ آغاز ہے۔ یہاں سے آگے بڑھتے ہوئے ہم ایک تین ستارہ ہوٹل “اولڈر ٹورسٹ سینٹر” پر پہنچے، جہاں ایک رات قیام کی قیمت 25 لاکھ روپے ہے۔ لوگ پیسے بچانے کے لیے اپنے خیمے لے آتے ہیں، لیکن یہ صرف گرمیوں میں ممکن ہوتا ہے۔ سردیوں میں خیمے میں رات گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
اس ہوٹل سے تھوڑا آگے بڑھنے پر ہمیں ایک چھوٹا سا گاؤں “راسنز” نظر آیا۔ یہ گاؤں 20ویں صدی سے آباد ہے، لیکن آج تک یہاں کوئی دکان نہیں ہے۔ گاؤں والے خریداری کے لیے قریب کے ہوٹل کے پاس بنی دکان پر جاتے ہیں۔ سردیوں میں یہ صورتحال اور بھی مشکل ہو جاتی ہے، لیکن پھر بھی لوگ یہاں کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔
گاؤں والوں کے لیے سمندر ہی ان کی دکان ہے۔ وہ سمندر سے مچھلیاں اور دیگر آبی جانور پکڑتے ہیں اور اسی سے اپنا گھر چلاتے ہیں۔ یہ لوگ کئی دہائیوں سے اسی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ گاؤں سے آگے بڑھنے پر ہمیں کئی کلومیٹر تک کوئی ہوٹل یا گھر نظر نہیں آیا، صرف سمندر اور خوبصورت مناظر تھے۔
کچھ دور جا کر ہم ایک اور گاؤں “سمفجورڈ” میں پہنچے۔ یہ گاؤں نہ صرف اپنے خوبصورت آسمان کے رنگوں کے لیے مشہور ہے، بلکہ یہاں کی زندگی بھی بہت پر سکون ہے۔ یہاں نہ ٹریفک کا شور ہے اور نہ ہی شہر کی دھواں بھری فضا۔ سردیوں میں جب کئی مہینوں تک سورج طلوع نہیں ہوتا، تو یہ گاؤں ایک خوبصورت پینٹنگ کی طرح لگتا ہے۔
اس گاؤں میں بجلی کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ چھ مہینوں تک جب سورج نہیں نکلتا، تب بھی یہاں ایک منٹ کے لیے بھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس صدی کے 23 سالوں میں یہاں کے لوگوں نے کبھی بجلی کی کمی کا سامنا نہیں کیا۔ جبکہ ہمارے ملک میں ہم نے اس دوران کتنے ہی گھنٹے بجلی کے بغیر گزارے ہیں۔
اس گاؤں سے آگے بڑھنے پر ہمیں ایک اور بستی نظر آئی، جو 18ویں اور 19ویں صدی کے لوگوں کی یاد دلاتی ہے۔ یہ لوگ سمندر کے راستے یہاں آئے تھے اور یہیں آباد ہو گئے۔ یہ بستی ایک میوزیم کی طرح ہے، جہاں صدیوں پرانے گھر اور کشتیاں موجود ہیں۔ یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ کس طرح لوگ سخت سردی سے بچنے کے لیے اپنے گھروں کو پتھروں اور مٹی سے ڈھانپتے تھے۔
اس بستی میں ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے، جہاں صدیوں پرانی کشتیاں اور دیگر استعمال کی چیزیں رکھی گئی ہیں۔ یہ میوزیم یہاں آنے والوں کو ماضی کی کہانی سناتا ہے۔ کچھ دنوں میں یہاں مقامی لوگوں کے ساتھ سیاح بھی میوزیم میں جمع ہوتے ہیں اور موسیقی کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔
اس بستی سے آگے بڑھنے پر ہمیں ناروے کے اور گاؤں نظر آئے، جہاں یہ سڑک پہاڑوں اور سمندر کے درمیان سے گزرتی ہے۔ جب کار سرنگ سے نکلتی ہے، تو سڑک کا نظارہ انتہائی خوبصورت اور خوفناک ہوتا ہے۔ یہاں دنیا کے گہرے سمندر میں سے ایک سمندر برفانی سڑک کے ساتھ بہتا ہے۔
آخرکار ہم دنیا کے آخری کنارے پر پہنچ گئے، جہاں سے آگے کوئی راستہ نہیں جاتا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دنیا ختم ہوتی ہے اور آگے کوئی انسان نہیں رہتا۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں کار سے 50 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑا۔ یہ سفر ہمارے لیے ایک یادگار تجربہ تھا، جو ہمیں دنیا کے آخری کنارے تک لے گیا۔
اختتام:
یہ کہانی ہمیں دنیا کے آخری کنارے پر زندگی کی مشکلات اور خوبصورتی کا احساس دلاتی ہے۔ ناروے کی یہ سڑک نہ صرف انتہائی سردی میں ڈوبی ہوئی ہے، بلکہ یہ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ زندگی کس طرح انتہائی مشکل حالات میں بھی جیتی ہے۔
Keywords:
ناروے
دنیا کی آخری سڑک
منفی 55 ڈگری
سمفجورڈ گاؤں
برفانی سڑک
ناروے کا سمندر
آخری کنارہ
سردیوں کی راتیں
میوزیم
صدیوں پرانی بستی


























