
سچ تو یہ ہے،
بشیر سدوزئی،
گول چکر کے مرکز میں نیم یا برگد کا قد آور درخت اور اطراف میں پھل پھول کےچھوٹے چھوٹے پیڑ پودے حاطے کو بہت زیادہ دلکش بناتے ہیں، لیکن چاروں طرف کی دیواروں پر خوب صورت پینٹنگ کسی آرٹ گیلری کی تمثال ہیں۔ سائیہ دار درخت کے نیچے پختہ چبوترا ہے، میرا خیال ہے کہ کچھ اوقات کے لیے قیدی اس چبوترے پر بیٹھ کر بیرک کے ماحول کو بھول جاتے ہوں گے اور یہی ان قیدیوں کی تفریح ہے۔ ظاہر ہے یہ جبوترا اور گول چکر خوب صورت باغیچے سے کم نہیں۔ اگر کوئی قیدی بیرک سے نکل کر باغیچے میں آئے تو اس کے لیے اس سے زیادہ اور کیا عیاشی ہو سکتی ہے۔ گول چکر کے چاروں طرف دیواروں پر بنی دیدا زیب پنٹنگ سمیت یہ ساری خوب صورتی اور ڈیزائنگ عزیز بگٹی کی تخلیق ہے جو انہی بھول بھلیوں کی ایک بیرک کا پرانہ مکین ہے، اس کا تعلق بلوچستان کے علاقہ ڈیرہ بگٹی سے ہے۔ اس وقت گرفتار ہوا جب ڈیرہ بگٹی میں آپریشن ہو رہا تھا اور نواب اکبر بگٹی ہلاک ہوئے تھے۔ ہماری ٹیم کے سارے لوگ جب توہین مذہب کے الزام میں گرفتار قیدیوں سے ملاقات اور گفتگو میں مصروف تھے، اس وقت میں گول چکر کے ایک کونے پر عزیز بگٹی اور جہانگیر خان کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہا تھا جن کو ہمارے ساتھ ملاقات کے لیے وہاں لایا گیا تھا۔ عزیز بگٹی نے جہاں اپنی اور اپنے بھائی کی گرفتاری کو افسوس ناک اور بلاجواز قرار دیا، وہاں سنٹرل جیل کراچی کو اپنے لیے نیک شگون پایا اور کہا کہ جیل میں مجھے اپنے،زندہ ہونے کے مقاصد اور ذمہ داریوں کا اندازہ ہوا۔ عزیز بگٹی کا کہنا تھا کہ میں اور میرا بھائی تو محض ڈرائیور اور ملازم تھے۔ اکبر بگٹی، وزیر اعلی، گورنر اور وزیر اور ممبر اسمبلی بھی رہے۔ ان کی سرگرمیوں سے ہمارا کیا تعلق کہ وہ کیا کرتے تھے اور کیا غلط تھا کیا صحیح، بس ہمیں اس جرم میں گرفتار کر کے 210 سال قید کی سزا سنا دی گئی کہ ہم اکبر بگٹی کے ساتھی تھے۔ حالاں کہ ہم تو ملازم تھے، ملازم بھی اس وقت کے جب ہمیں خود معلوم نہیں تھا کہ ڈیرہ بگٹی میں جو کچھ ہوتا ہے دنیا میں اس کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے۔ اب ہمارا مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے اور ہم دونوں بھائی جیل میں ہیں ۔ عزیز بگٹی ٹھیر ٹھیر کر گفتگو کر رہا تھا جیسے کوئی عالم باعمل ہو۔ کسی طور پریشان نہیں دیکھا، بلکہ خوش اور بات بات پر مسکرا بھی رہا تھا۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ گرفتاری سے پہلے مجھے صرف بلوچی زبان ہی سمجھ آتی تھی اور بلوچی ہی بولتا تھا۔ مجھے آج لگتا ہے کہ اس وقت میں اندھیرے میں تھا۔ کراچی سنٹرل جیل میں رہتے ہوئے میں نے اردو، پنجابی،



عربی اور انگریزی سیکھی ہے اور اب میں ان زبانوں کی کتابیں پڑھ اور کسی حد تک سمجھ بھی سکتا ہوں۔ عزیز بگٹی نے بتایا کہ میں اب بہترین پینٹر ہوں۔ عزیز نے دیواروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جیل میں اور بھی بہترین پینٹر اور مصور ہیں لیکن یہ تصویریں میری بنی ہوئی ہیں۔ گویا عزیز بگٹی جو جیل آنے سے پہلے ڈیرہ بگٹی کا خالصتا دیہاتی اور صرف بگٹی زبان و روایت سے زیادہ کچھ نہیں جانتا تھا آج بہترین پینٹر و مصور اور کئی زبانوں کو جانتا سمجھتا ہے۔ ہوش مند اور سمجھدار شہری ہے، جس کو ایک معزز شہری کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کا ادراک ہے۔ لگ بھگ آدھا گھنٹہ عزیز بگٹی سے بات چیت ہوتی رہی اور اندازہ ہوا کہ اب وہ جدیدیت سے کافی حد تک واقف ہو چکا۔ یہ مثبت انقلاب کی طرف اشارہ ہے، اگر عزیز سپریم کورٹ سے بری ہوتا ہے تو پھر ڈیرہ بگٹی کے معاشرے پر اس کے بہت مثبت اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ رہا ہوں گے تو دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوں گے، عزیز نے تھوڑے توقف سے کہا کہ معلوم نہیں زندگی میں وہ وقت آتا ہے یا نہیں۔ میں نے عزیز سے پوچھا کہ جب آپ جیل آئے تھے تو ناخواندہ تھے، یہ علم و ہنر کیسے سیکھا تو عزیز نے بتایا اس جیل میں ہر کسی کو سب کچھ سیکھنے کی سہولت ہے، جو وہ چاہتا ہے اگر کوئی کچھ بھی نہیں سیکھنے چاہتا تو کوئی زور زبردستی نہیں۔ میری نظر اچانک سامنے کتابوں کی ایک دوکان پر پڑی جس کے شلف میں ہزاروں پرانی نئی کتابیں آراستہ پیراستہ تھیں۔ سبحان اللہ سنٹرل جیل کراچی میں کتابوں کی بھی ایک بڑی دوکان ہے۔ مجھے اس موقع پر پنڈت جواہر لال نہرو کا قول یاد آیا جو انہوں نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا، یہ کتاب اپریل 1934ء میں شائع ہوئی تھی جس میں زیادہ تر خطوں ہیں جو انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کے نام لکھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اپنی کتاب ” تاریخ عالم پر ایک نظر” کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ ” جیل کی زندگی میں بعض فائدے بھی ہیں۔ ایک تو فرصت ہوتی ہے، دوسرا آدمی دنیا کے جھگڑوں سے بے تعلق ہو جاتا ہے۔ لیکن اس زندگی میں جو بھی دقتیں ہیں وہ بھی ظاہر ہیں۔ یہاں قیدی کے لیے نہ کوئی کتب خانہ ہوتا ہے نہ حوالے کی کتابیں دستیاب ہو سکتی ہیں۔” لیکن سنٹرل جیل کراچی میں تو ایک بڑا کتب خانہ دیکھا جہاں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ اس کتب خانے سے ہر قیدی کتاب حاصل کر سکتا ہے، پڑھنے کے بعد جمع کرائے اور دوسری کتاب حاصل کرے۔ تاکہ فرصت کے لمحات کا مثبت استعمال کر سکے۔ جب کہ سنٹرل جیل کراچی میں قیدیوں کے لیے مصروفیات کے موقعے بھی موجود ہیں وہ لکھنا چاہیے پڑھنا چاہے، سیکھنا چاہے یا سیکھانا چاہے۔ لہذا نہرو کے زمانے اور آج کے زمانے کی جیلوں میں بہت فرق ہو گیا ہے، جن چیزوں کی کمی کی شکایت پنڈت جواہر لال نہرو نے کی وہ سہولت آج سنٹرل جیل کراچی میں موجود ہے۔ عزیز بگٹی نے دنیا کے جھگڑوں سے دور فرصت کے لمحات کا درست استعمال کیا اور طرہ یہ کہ ان کو کتاب، قلم، پرش اور پنٹ کی سہولت حاصل ہے، تب ہی وہ آج خطرے نام ملزم سے تبدیل ہو کر معزز شہری بن چکا۔ قریب ہی کھڑا نوجوان جہانگیر خان عزیز بگٹی کی گفتگو پر مسلسل مسکراہتا رہا، جس کو ایک قتل میں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ جہانگیر خان کا تعلق گلشن اقبال کراچی سے ہے، اس کے مطابق روڑ ایکسیڈنٹ میں ایک فرد کی ہلاکت کے جرم میں سزائے موت کی قید کاٹ رہا ہے۔ خاصا خوشگوار موڈ میں تھا اور عزیز بگٹی کے ساتھ کھڑا اس کی گفتگو کے دوران مسکراہتا رہا۔ اس سے جب میں نے یہ سوال پوچھا کہ جیل کا اندرونی حاطہ تو باغیچہ لگتا ہے اور آپ لوگ یہاں چہل قدمی کر رہے ہیں گھوم پھر رہے ہیں خاصے مسرور و شادماں ہیں۔ کیا کچھ پریشانی و پشیمانی بھی ہے۔ جہانگیر سے پہلے عزیز بگٹی نے جواب دیا کہ یہاں جو باغیچہ اور خوبصورتی آپ دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ ہم قیدیوں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ جہانگیر کے چہرے سے اچانک رنگ و رنق اڑ گئی اور افسردہ لگنے لگا۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد گویا ہوا، خوشی غمی کے ایام میں گھر والے بہت یاد آتے ہیں۔ معلوم ہی نہیں ہوتا خوش ہونے کے کون سے دن ہیں اور غمی کے ایام کون سے ہیں۔ ایسے موقع پر گھر والے اور بچے بہت یاد آتے ہیں۔ جب میں جیل میں آیا تھا تو میرے بچے چھوٹے چھوٹے تھے، پھر جہانگیر خان ایسا خاموش ہوا کہ کوئی بات نہیں کر سکا۔ اس سے پہلے کے جذباتی ماحول تخلیق پاتا میں نے بات کو پلٹا، اور سعید سومرو صاحب سے مخاطب ہوا، اور کیا دیکھائیں گے؟ انہوں نےکہا کہ ہمارے اسپتال کو دیکھیں شہر کے سرکاری اسپتالوں کو بھول جائیں گے۔ ہمارے ساتھی ابھی بھی وہاں ہی کھڑے تھے، ان سے درخواست کی کہ اس قصے کو اب چھوڑیں اور آگلے حصے کو دیکھتے ہیں۔ ساتھیوں نے میری بات پر لبیک کہا، ہم تیزی سے آگئیں بڑے، گول چکر سے باہر آئے اور اسپتال کی طرف چل پڑے۔ سنٹرل جیل کراچی کا اسپتال بیرکوں کے کافی فاصلے پر ہے، پختہ سڑک پر کافی پیدل چلنا پڑھتا ہے۔ گول چکر سے ہم سہ بارہ صدر دروازے پر پہنچے اور نئے صفر کا آغاز کیا۔ سنٹرل جیل کراچی کے ہر حصے کی طرف جانے کے لیے صدر دروازے پر پہنچنا پڑھتا ہے۔ اگر کوئی قیدی بھاگنے بھی چائے تو اسے باہر نکلنے سے پہلے صدر دروازے پر ہی پہنچنا پڑھے گا جہاں فولادی دروازے اور ان پر فورس تعینات ہے۔ لہذا کوئی کوشش کرے بھی تو موت یا مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔۔۔ (جاری ہے)























