کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں سمپوزیم سے خطاب میں فرانزک ماہرین نے جرائم کی تفتیش میں فرانزک ماہرین کا کردار محدود رکھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کراچی میں ان ماہرین کو میڈیکل بورڈ سے دور رکھنا انصاف کی فراہمی میں رخنہ اندازی کے مترادف ہے، میڈیکو لیگل سسٹم جرائم سے متاثر کسی بھی شخص کو انصاف کی فراہمی میں معاونت نہیں کررہا بلکہ کراچی میں تو رائج نظام فرسودہ ہے اور صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی صورت حال اچھی نہیں، موجودہ نظام میں ملک بھر کے ماہرین کی مشاورت سے اصلاحات اور میڈیکو لیگل سسٹم میں صوبوں کو درپیش چیلنجز کا حل بھی نکالنے کی ضرورت ہے، نظام کے استحکام کے لیے فرانزک کے بہترین طریقے اختیار کرنے اور وسیع تر قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک کے ساتھ طبی اور قانونی طریقوں کا مربوط انداز میں اطلاق کیا جائے، ماہرین نے یہ باتیں اوجھا کیمپس میں ڈاؤ یونیورسٹی کے فرانزک ڈپارٹمنٹ کے زیرِ انتظام پروفیشنل ڈولیپمنٹ سینٹر میں پاکستان میں میڈیکولیگل سسٹم سے متعلق سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہیں جبکہ لاہور کی میڈیکو لیگل سرجن ڈاکٹر فرحت سلطانہ نے کلیدی خطاب کی،اس موقع پر وائس پرنسپل ڈی آئی ایم سی اور فرانزک میڈیسن کی چیئرپرسن ڈاکٹر رملہ ناز، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مہرین فاطمہ، میڈیکو لیگل سرجن ڈاکٹر فرحت سلطانہ ، لیاقت نیشنل میڈیکل کالج شعبہ فرانزک میڈیسن کے سربراہ پروفیسر مکرم علی، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹروحیدناہیوں، جھالا وان میڈیکل کالج کے شعبہ فرانزک کے سربراہ ڈاکٹر مراد ظفر مری، اسسٹنٹ پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر سری چند و دیگر نے خطاب کیا، لاہور کی میڈیکو لیگل سرجن ڈاکٹر فرحت سلطانہ نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف میڈیکو لیگل سسٹمز کا جائزہ پیش کیا، انہوں نے پنجاب میں رائج تھری ٹیئر میڈیکو لیگل سسٹم سے متعلق بتایا جو پرائمری، سیکنڈری اور ٹرشری ہیلتھ کیئر اداروں میں موجود ہے، انہوں نے کہا کہ پہلے درجے پر میڈیکو لیگل ایگزامنر، دوسرے پر ضلعی قائمہ میڈیکل بورڈ اور تیسرے پر صوبائی قائمہ میڈیکل بورڈ اور چوتھے پر اسپیشل بورڈ موجود ہیں، ان کا کہنا تھا انہوں نے کہاکہ یہ نظام مختلف سطحوں پر ذمہ داریوں کی واضح حد بندی فراہم کرتا ہے، جس سے کی میڈیکو لیگل کی کیسز کی موثر ہینڈلنگ کو یقینی بنایا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ پرائمری سطح کے ادارے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بنیادی طبی خدمات دور دراز دیہی علاقوں تک قابل رسائی ہوں، ٹرشری سطح کے مراکز جیسا کہ ٹیچنگ اسپتال اعلیٰ درجے کی فرانزک مہارت اور خصوصی دیکھ بھال فراہم کرتے ہیں، جس سے طبی تفتیش کے معیار میں اضافہ ہوتا ہے، ڈاکٹر فرحت سلطانہ نے اس نظام کے نقصانات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے وسائل کی کمی ہے کیونکہ بنیادی اور ثانوی مراکز میں اکثر تربیت یافتہ افراد، بنیادی ڈھانچے اور آلات کی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے خدمات کی فراہمی میں مسائل پیش آتے ہیں، ایسے معاملات جن میں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے انہیں اکثر ٹرشری مراکز میں بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے قانونی کارروائیوں اور مریضوں کی دیکھ بھال میں تاخیر ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ ٹرشری کیئر اسپتالوں کے فرانزک میڈیسن کے ڈپارٹمنٹ کے فرانزک ماہرین بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ پرائمری اور سیکنڈری کیئر کے کام کی تربیت اور ٹریننگ فراہم کرتے ہیں، وہ میڈیکل سائنس اور قانون کے مابین موجود خلا کو پُر کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ فرانزک ماہرین سائنسی اصولوں کے درست اور اخلاقی استعمال کے ذریعے عدالت کی مدد کرتے ہیں، وہ فوجداری اور دیوانی دونوں طرح کے قانونی نظام کے لیے ناگزیر ہیں، بعدازاں پروفیسر مکرم علی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کریکولم میں کافی تبدیلی کی ہے اور اسے جدید دور کے مطابق کیا ہے، ہم ہینڈز آن ٹریننگ دے رہےہیں، مختلف جگہوں پر جا کر لیکچرز دے رہے ہیں، یہ سب چیزیں ہم نے اپنے طور پر کی ہیں، انہوں نے کہا کہ فرانزک میڈیسن کا تدریسی دورانیہ بڑھانے اور کیسز کے پریکٹکل کی ضرورت ہے، پروفیسر مکرم نے یہ بھی کہا کہ فرانزک میڈیسن انٹرنشپ کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے، انہوں نے کہا کہ میڈیکو لیگل میں مناسب علم کی اہمیت کا ادراک ہونا ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ درست اور قانونی دستاویزات کو یقینی بنانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے چاہئیں، انہوں نے کہا کہ فرانزک میڈیسن تفتیش کا لازمی جزوہے، ہمارے ہاں لوگ بھاگتے ہیں، تو فرانزک میڈیسن کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ لوگوں کو تربیت دی جائے کہ کیا ایس او پیز ہیں اور متاثرہ فرد کو میڈیکو لیگل کے پاس لے جانے کے بعد ان کی تصاویر لی جائیں اور بتایا جائے کہ وہ کس کو رپورٹ کریں ، ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کی کالج کی وائس پرنسپل اور فرانزک ڈپارٹمنٹ کی چیئرپرسن پروفیسر رملہ ناز نے مختلف کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بطور ماہرین ہم اس چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ تفتیش کے ساتھ ساتھ زخمی فرد کی جان اور اعضا کو متاثر ہونے سے بچایا جاسکے، انہوں نے کہا کہ کچھ کیسز میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ متاثرہ افراد یا خاندان ماہرین کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہوتے اور چاہتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں ان کو لکھ کر دے دیا جائے جبکہ ایسا نہیں کیا جاسکتا ، شواہد اور نمونوں کو جمع کرنے کے بعد ہی مکمل رپورٹ تیار کی جاتی ہے،لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے ڈاکٹروحیدناہیوں نے کہا کہ سندھ میں عملے کی قلت ہے اور شواہد معلوم کرنے کے مسائل موجود ہیں،نہ کوئی بیک اپ سپورٹ ہے اور نہ ہی مناسب کوآرڈینیشن ، اور مختلف کیسز،میڈیکل بورڈ، سپر میڈیکل بورڈ کے لیے ماہرین جائیں توکوئی تعاون نہیں کرتا، ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں کام کرنا جہاد کے مترادف ہے، ہمیں محکمہ صحت کے ذریعے تعینات کیے جانےوالے مناسب عملے کی ضرورت ہے،ڈاؤ یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف فرانزک میڈیسن کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مہرین فاطمہ نے پاکستان میں میڈیکولیگل سسٹم اور اس حوالے سے درپیش چیلنجز کے موضوع پر گفتگو کی،انہوں نے کہا کہ ورکشاپ کا مقصد میڈیکولیگل سسٹمز میں صوبوں کو درپیش چیلنجز کی شناخت اور ان کا حل نکالنا ہے، ڈاکٹر مہرین نے کہا کہ نظام کو مضبوط بنانے میں فرانزک ماہرین کے کردار کی نشاندہی کرنا اور صوبوں کے مابین فرانزک کے بہترین طریقوں کی سہولت فراہم کرنا اور وسیع تر قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک کے ساتھ طبی وقانونی طریقوں کو مربوط کریں، ، ڈاکٹر مہرین نے کراچی کے میڈیکولیگل سسٹم کا جائزہ پیش کیا، انہوں نے بتایا کہ شہرِ قائد میں اس ضمن میں پولیس سرجن موجود ہے جن کے ماتحت 9 میں سے 6 ایڈیشنل پولیس سرجنز کی اسامیاں خالی ہیں، انہوں نے بتایا کہ اسپتالوں میں 3 ایڈیشنل پولیس سرجنز ہیں میں ڈاکٹر کامران، ڈاکٹرسمیہ اور ڈاکٹر سری چند شامل ہیں، جس کا مطلب یہ ہے ان ایڈیشنل پولیس سرجنز پر کام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ کراچی میں نیو کراچی، اورنگی ٹاؤن، ملیر، لیاری، کورنگی، لیاقت آباد، جے پی ایم سی، سول اسپتال اور عباسی شہید اسپتال میں مجموعی طور پر 9 میڈیکو لیگل سینٹرز موجود ہیں جن میں سے صرف 3 فعال ہیں، ڈاکٹر مہرین نے کہا کہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے، اور 75 لاکھ سے زائد شہریوں کے لیے صرف ایک میڈیکولیگل سینٹر موجود ہے، انہوں نے بتایا کہ 62 لاکھ سے زائد آبادی کے لیے سول اسپتال اور 65 لاکھ سے زائد کو عباسی شہید اسپتال کی سہولت موجود ہے، لہذا ان اعداد و شمار سے حالات کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، ڈاکٹر مہرین فاطمہ نے بتایا کہ میڈیکولیگل سسٹم کو وسائل اور انفراسٹرکچر کی کمی, ناکافی تربیت اور صلاحیت کے حامل اسٹاف اور کام کے زیادہ دباؤ کا شکار عملے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
Load/Hide Comments