آٹزم سے متعلق عوامی آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے، صحت کے ماہرین کا جامعہ کراچی میں خطاب
ورت ہےملک میں آٹزم سے متعلق آگاہی کی کمی ہے، عوامی سطح پر آگاہی مہم چلانے کی فوری ضر
کراچی – صحت کے ماہرین نے ایک سیمینار میں آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی) اور دیگر نیورو ڈیولپمنٹل ڈس آرڈرز، جیسے اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر (اے ڈی ایچ ڈی) اوراسپیشل لرننگ ڈس آرڈر(ایس ایل ڈی) بشمول ڈسلیکسیا، کے پاکستان میں پھیلاؤ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ملک میں آٹزم سے متعلق آگاہی کی کمی کو اجاگر کیا اور آگاہی پروگرامز کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ ماہرین نے تجویز دی کہ والدین، این جی اوز اور جامعات مل کر میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے آگاہی مہمات چلائیں۔ انہوں نے اساتذہ کی تربیتی پروگرامز اور مشاورت و ادارتی حمایت فراہم کرنے کے لیے وسائل کے افراد کا نیٹ ورک قائم کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ ماہرین نے بتایا کہ عالمی آبادی کا تقریباً ایک ٖفیصد آبادی آٹزم کا شکار ہے اور یہ کہ آٹزم کے لیے کوئی خاص دوا موجود نہیں ہے۔ آٹزم ایک پیچیدہ حالت ہے جو سماجی میل جول اور رابطے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔
ڈاکٹر سلمیٰ خلیل، چیف آپریٹنگ آفیسر، آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر ویلفیئر ٹرسٹ، کراچی، مریم ارم زیب، ایسوسی ایٹ کلینیکل سائیکولوجسٹ، اور معزز علی، ایسوسی ایٹ کلینیکل سائیکولوجسٹ، نے سیمینار بعنوان ”آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر، اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر، اوراسپیشل لرننگ ڈس آرڈر (ڈسلیکسیا) کو سمجھنا” سے خطاب کیا۔ یہ تقریب بدھ کوجامعہ کراچی کے ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ اور سندھ انوویشن ریسرچ اینڈ ایجوکیشن نیٹ ورک کے زیر اہتمام ایل ای جے نیشنل سائنس انفارمیشن سینٹر، جامعہ کراچی میں منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر خلیل نے کہا کہ آٹزم سے متاثرہ بچے منفرد صلاحیتوں اور قابلیت کے حامل ہوتے ہیں، جیسے کہ موسیقی کے آلات بجانے میں مہارت۔ انہوں نے ان کی دلچسپیوں کو پہچاننے اور ان کی پرورش کرنے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ وہ کامیاب ہو سکیں۔ انہوں نے آٹزم کی پھیلاؤ کی شرح کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی آبادی کا ایک فیصد اس بیماری کا شکار ہے۔ مریم ارم زیب نے آٹزم کو ایک نیورو ڈیولپمنٹل ڈس آرڈر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ شدید کیسز میں آٹزم سے متاثرہ بچے زبان یا اشاروں کے ذریعے بات چیت کرنے میں مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں اور ایسے لگ سکتے ہیں جیسے انہیں دوسروں کے ساتھ تعلق رکھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آٹزم ایک دائمی صحت کا مسئلہ ہے، جس کے لیے طبی اور نفسیاتی مسائل کی باقاعدہ دیکھ بھال، اسکریننگ، اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے آٹزم کی عام علامات بیان کیں، جیسے تنہائی پسند ہونا، دوسروں سے بے خبری، اپنے نام پر ردعمل نہ دینا، اور سماعت کے مسائل ظاہر کرنا۔ انہوں نے ماحولیاتی اور جینیاتی عوامل کو آٹزم میں ممکنہ کردار ادا کرنے والے عوامل کے طور پر بیان کیا۔اے ڈی ایچ ڈی کے بارے میں بات کرتے ہوئے مریم ارم زیب نے بتایا کہ یہ طرز عمل کو متاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے افراد بے چین، جلد باز، اور توجہ مرکوز کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اے ڈی ایچ ڈی کا علاج ممکن نہیں ہے، لیکن یہ تعلیمی مدد، والدین کی رہنمائی، اور ضرورت پڑنے پر دوا کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسپیشل لرننگ ڈس آرڈر پر بات کرتے ہوئے معزز علی نے وضاحت کی کہ ڈسلیکسیا ایک نیورو بایولوجیکل تعلیمی معذوری ہے جو صوتیات کی پراسیسنگ کو متاثر کرتی ہے، جس سے الفاظ کے آوازوں کو پہچاننے اور ملانے، روانی سے پڑھنے، اور صحیح املا کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ علامات میں حروف کا گڈمڈ ہونا، متن کو یاد رکھنے میں مشکل، اور الفاظ کا گڈمڈ ہونا شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ ڈسلیکسیا زندگی بھر کا مسئلہ ہے لیکن اس پر قابو پایا جا سکتا ہے اور متاثرہ افراد اپنی طاقتوں کو بروئے کار لا کر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ سیمینار کے آخر میں بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹرفرزانہ شاہین نے اپنے خطاب میں متعلقہ صحت کے مسئلے پر مذید آگاہی پروگرام منعقد کرنے کی اہمیت پر زور دیا اورڈاکٹر سلمی خلیل اور اُں کے ساتھیوں کو آئی سی سی بی ایس کی جانب سے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔
میڈیا ایڈوائزر