کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں سوئس پاکستان ورکشاپ بہ عنوان “جینومک ڈس آرڈر اینڈ ریسے سیو ڈس آرڈر” سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے کہا ہے کہ “پاکستان ان ممالک میں ہے جہاں کزن میرجز کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں جینیاتی بیماریاں ہیں، جینیاتی خرابی (جینومک ڈس آرڈر) جین کی میوٹیشن کا نتیجہ ہے،ماہرین نے ان خیالات کا اظہار ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان آڈیٹوریم میں منگل کی صبح کیا ، ورکشاپ کا اہتمام ڈاؤ یونیورسٹی کے کالج آف بائیو ٹیکنالوجی نے کیا تھا، وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی ورکشاپ کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت سے شریک ہوئے، انٹرنیشنل سینٹر فار بائیولوجیکل اینڈ کیمیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس)، جامعہ کراچی کے ایمیریٹس پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے ، یونیورسٹی آف جینیوا کے پروفیسر اسٹیلیانوسےای اینتونارکیس ، یونیورسٹی ہوسپٹل آف لوزان سے ڈاکٹر فیڈریکو سینٹونی، سینٹر فار انٹیگریٹو جینیومکس کے پروفیسر الیگزینڈر ریمنڈ اور جولس گونن آئی اسپتال کے ڈاکٹر محمد انصر ، ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نازلی حسین، پرو وائس چانسلر پروفیسر جہاں آرا حسن ،پرنسپل ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج پروفیسر محمد افتخار، ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مشتاق حسین، ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کی وائس پرنسپل ڈاکٹر حمیرا وحید، آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر امبرین فاطمہ سمیت فیکلٹی، اسٹاف اور طلبا کی بڑی تعداد موجود تھی، ورکشاپ سے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں کزن میرجز عام ہیں، انہوں نے کہا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں کزن میرجز کی شرح اوسطاً 65 فیصد ہے جبکہ کچھ خاندانوں میں یہ 85 فیصد تک بھی ہوسکتی ہے، وائس چانسلر نے کہا کہ خاندان میں شادیوں کی زیادہ شرح کی وجوہات رواج، سماجی و اقتصادی اور سیاسی ہوسکتی ہیں اور ان کے حیاتیاتی فوائد بھی ہوسکتے ہیں، تاہم خاندان میں مسلسل شادیوں سے بچوں میں کئی اقسام کے ریسے سیو اور ڈامینینٹ جینیاتی عوارض پیدا ہوسکتے ہیں، انہوں نے اس سلسلے میں جینیاتی عوارض پر اپنی تحقیق پیش کرنے کے لیے سوئیڈن سے آئے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے تجربے سے پاکستان میں جینیاتی عوارض کے علاج میں مدد مل سکے گی،بعدازاں مہمان خصوصی ڈاکٹر عطا الرحمن نے ورکشاپ سے خطاب میں کہا کہ اقتصادی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود وہی قومیں دنیا میں آگے ہیں جنہوں نے علم و تحقیق پر توجہ مرکوز کی، انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی کے حامل ملک چین نے بھی اسی طرح ترقی کی، انہوں نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں سال 2000 سے کم 2023 کے دوران پاکستان کی کوششوں کو بیان کیا اور کہا کہ مالی مشکلات کے باوجود پاکستان جدید ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ مختلف چیلنجز کے باجود حیاتیاتی ، کیمیائی اور جینیاتی تحقیق کی جارہی ہے، یونیورسٹی آف جینیوا کے پروفیسر اسٹیلیانوسےای اینتونارکیس نے کہا ہے کہ ریسے سیو ڈیزیز جین کی معلوم کردہ تعداد 2980 ہے تاہم نامعلوم ریسے سیو ڈیزیز جین کی تعداد 8 سے 9 ہزار ہوسکتی ہے،
انہوں نے بتایا کہ ہیومن جینوم پروجیکٹ کا آغاز یکم اکتوبر 1990 سے ہوا اور لگ بھگ 2002 میں مکمل ہوا،انہوں نے کہا کہ نوزائیدہ میں 50 سے 100 نئی میوٹیشنز ہوتی ہیں جو اس کے والدین میں موجود نہیں ہوتیں،انہوں نے سب سے چھوٹے کروموسوم 21 سے متعلق بتایا اور اس کے وزن اور لمبائی کی پیمائش کرنے کے لیے موجود ایک کتاب بھی وائس چانسلر کو پیش کی، انہوں نے کہا کہ جینومک ویریبلٹی ارتقا کے امکانات کا موقع فراہم کرتی ہے لیکن جینومک ڈس آرڈرز ارتقا یا اڈاپٹیشن کی قیمت ہیں جو ادا کرنی پڑتی ہے،انہوں نے کہا کہ ریسے سیو ڈیزیز جین کی معلوم کردہ تعداد 2980 ہے تاہم نامعلوم ریسے سیو ڈیزیز جین کی تعداد 8 سے 9 ہزار ہوسکتی ہے،انہوں نے ایک پروٹین کوڈنگ جین فینوٹائپ سے متعلق بتایا کہ اس میں 1980 میں ایک میوٹیشن تھی جو 2024 میں 5289 ہوگئی اور آنے والے سالوں میں یہ مزید میوٹیشن کے بعد 1000 ڈامینینٹ اور 7000 ریسے سیو میوٹیشن ہوں گی،انہوں نے کہا کہ دنیا میں 10 فیصد شادیاں خاندان میں ہوتی ہیں جس کے بہت سے فوائد بھی ہیں لیکن اس کے جینیاتی نقصان بھی ہیں، انہوں نے فرسٹ کزنز میں شادیوں میں مرد و عورت میں سے ہر ایک 55 ریئر ہوموزائگوس ویرئنٹس فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے جینیاتی عوارض کا امکان زیادہ ہوتا ہے، یونیورسٹی ہوسپٹل آف لوزان کے ڈاکٹر فیڈریکو سینٹونینےنے پری میچور بچوں میں منی بیوپرٹی کے دوران ٹرانسکرپٹومک تبدیلیوں کے موضوع پر گفتگو کی، انہوں نے کہا کہ ہر سال لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ پری میچور بچے پیدا ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ پری میچور پیدائش سے ہونے والی پیچیدگیاں 5 برس سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں، انہوں نے کہا کہ دیگر بچوں کے مقابلے میں پری میچور بچوں میں طویل المدتی عوارض جیسا کہ پھیپھڑوں کا عارضہ، کارڈیک اینوملیز، ریٹینوپیٹیز اور نیوروڈویلپمنٹل بیماریوں جیسا کہ آٹزم، اے ڈی ایچ ڈی ڈپریشن وغیرہ کی شرح زیادہ ہے، انہوں نے اس حوالے سے موجود چیلنجز کو بھی بیان کیا اور فرانس اور یونان میں کی گئی تحقیق کا حوالہ بھی دیا، آغا خان یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر امبرین فاطمہ نے پاکستان میں جینیاتی عوارض پر گفتگو کی، انہوں نے کہا کہ دنیا بھر بالخصوص اسلامی ممالک میں پاکستان کزن میرجز میں سر فہرست ہے، انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کئی قسم کے جینیاتی عوارض کی شرح زیادہ ہے جیسا کہ تھیلیسیمیا کی کیریئر فریکوئنسی 6 فیصد ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مائیکرو سیفیلی (جسم کے مقابلے میں چھوٹے سر) کے مریضوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے، انہوں نے اس حوالے سے مختلف جینیاتی عوارض کی پاکستان میں موجودگی کی تحقیق کا جائزہ بھی پیش کیا، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جینیاتی عوارض کو ملک میں ہیلتھ کیئر کے شعبے میں زیادہ توجہ نہیں دی جاتی، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں متعدی امراض اور غذائی قلت کا بوجھ موجود ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ نامعلوم جینیاتی عوارض کی وجہ سے غیر نوزائیدہ اور بچوں کی اموات ہوجاتی ہیں،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کمیونٹی ریسرچ ماڈل، کلینکل ریسرچ ماڈل اور کلینیکل جینیٹکس ماڈل کے ذریعے غیر معمولی جینیاتی عوارض پر تحقیق کی جارہی ہے، ورکشاپ کے اختتام پر وائس چانسلر کی جانب سے مہمان خصوصی اور اسپیکرز کو روایتی اجرک، سندھی ٹوپی اور شیلڈز پیش کی گئیں۔
Load/Hide Comments