اس مرتبہ پنجاب جانے سے پہلے ہی بچوں نے طے کر لیا تھا کہ کھیوڑا کان کی سیر کریں گے سویرا بیٹی کا اصرار تھا کہ وہاں ضرور جانا ہے ۔ منڈی بہاوالدین
سے معلومات حاصل کی کہ کھیوڑا جانے کے راستے کیسے ہیں اور کس طرح سب لوگ وہاں پہنچ سکتے ہیں پتہ چلا کہ راستے بہت خراب ہیں اور اپنی گاڑی پر
جانا بالکل بھی مناسب نہیں ۔ سوچا کرائے پر کوئی وین حاصل کر لیتے ہیں لیکن وین والے نے بھی بتایا کہ راستہ صحیح نہیں ہے اور پھر اس نے پیسے بھی بہت زیادہ بتائے ۔ ریلوے کی معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ لالہ موسی سے ایک ٹرین براستہ منڈی بہاولدین ملکوال پنڈدادن خان جاتی ہے وہاں سے آسانی سے رکشے پر کھیوڑا کی کان تک پہنچا جا سکتا ہے سب نے جانے کی تیاری کر لی لیکن صہیب پر سفری تھکان کے اثرات تھے اس لیے اسے آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی وجہ سے عظمی کو بھی منڈی بہاولدین میں رکنا پڑا ۔ ماموں نوید کی قیادت میں 8 لوگوں کا گروپ بنا اور
ہم صبح سات بجے منڈی بہاولدین کے اسٹیشن پر تھے ساڑھے سات بجے کے قریب ٹرین اپنے وقت اسٹیشن پہنچ گئی ہم نے اپنی گاڑی اسٹیشن کی پارکنگ میں کھڑی کر دی تھی اور ٹکٹ لے کر ٹرین میں بیٹھ گئے ۔منڈی بہاولدین کا اسٹیشن بہت پرسکون خوبصورت اور آرام دہ ہے یہ بھی انگریزوں کے دور کا بنا ہوا ہے اسٹیشن یہ اسٹیشن 1916 میں قائم کیا گیا تھا۔ اور یہ روٹ کھیوڑا سے نمک کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے روٹ کے طور پر استعمال ہوتا رہا
لالہ موسی سے آنے والی ٹرین کے ذریعے ہم لوگ پہلے ملکوال پہنچے وہاں 15 منٹ کا سٹاپ تھا ۔ سب لوگوں نے اسٹیشن پر اتر کر چہل قدمی کی منڈی بہاولدین سے ملکوال تک کا سفر بھی بہت خوبصورت نظاروں پر مبنی تھا دونوں طرف کھیتی باڑی ہریالی تھی ہر کھیت کے ساتھ مویشی بھی نظر آتے تھے دیہاتی لائف سٹائل کی اپنی کشش ہے ۔ ملک وال اسٹیشن پر سب لوگ باہر اسٹیشن پر موجود تھے تو سویرا بھی ڈبے سے نیچے اتر ائی اس سے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگی ماموں نوید کہہ رہے ہیں کہ یہ ڈبہ اگے نہیں جائے گا سب اتر جائیں میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور کہا وہ دیکھو ماموں نوید خود جا کر اسی ڈبے میں بیٹھ گئے ہیں انہوں نے کھڑکی والی سیٹ پہ بیٹھنا تھا اس لیے تم سے مذاق کیا پھر سویرا کو سمجھ ائی کہ ماموں نوید واقعی مذاق کر رہے تھے پھر سویرا کو لے کر چائے کے سٹال پر گئے وہاں سویرا نے چائے بناتے ہوئے اپنی تصویریں اور ویڈیو بنائی وہ تصویر جب واٹس ایپ گروپ پر لگی
تو سب نے بہت پسند کی۔
ملکوال سے ٹرین چلی اور اس کے بعد دریائے جہلم کو کراس کر کے پنڈ دادن خان اسٹیشن کی طرف چل پڑی نو بجے کے قریب ہم لوگ پنڈ دادن خان اسٹیشن پر اتر چکے تھے چھوٹا سا پرسکون خوبصورت سا اسٹیشن ہے وہاں رکشے والے اندر ہی ائے ہوئے تھے
اور سواریاں ڈھونڈ رہے تھے ہم نے بھی ایک رکشے والے سے بات کی اور انے جانے کا معاملہ طے کیا اور وہ ہمیں 1500 روپے میں کھیوڑا کان تک لے جانے اور واپس لانے پر راضی ہو گیا ۔15 سے 20 منٹ کے مزید سفر کے بعد ہم کھیوڑا کان پہنچ چکے تھے یہ راستہ کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور سڑک جگہ جگہ سے برساتی پانی کی وجہ سے بہہ چکی ہے اور اس پر کافی گڑھے ہیں اس کے باوجود یہاں پر کافی ٹریفک ہے چھوٹی گاڑیاں بھی ہیں مال بردار گاڑیاں بھی ہیں اور ہیوی ٹرک بھی ۔ کان انتظامیہ نے وہاں پر آنے والوں کو خوش امدید کہتے ہوئے کافی اچھے انتظامات کر رکھے ہیں لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ باہر جو باتھ روم بنے ہوئے تھے ان پر تالے لگے ہوئے تھے کاؤنٹر پر جا کر معلومات حاصل کی تو وہاں سے دو طرح کے ٹکٹ مل رہے تھے ایک ٹکٹ کان کے اندر ٹرین کے ذریعے سفر کرنے کا تھا اور دوسرا پیدل ۔ نمک کی کان کے اندر ایک ٹرین چلائی جاتی ہے جو ادھا کلومیٹر تک مسافروں کو بھی ساتھ لے کر جاتی ہے اور واپسی پر بھی لوگ اس ٹرین پر اتے ہیں لیکن ادھا کلومیٹر کے بعد کان کے اندر پیدل سفر ہوتا ہے ٹرین کا ٹکٹ زیادہ ہوتا ہے اور پیدل جانے والوں کا ٹکٹ کم ۔ ہم سب نے پیدل سفر کر کے ادھا کلومیٹر طے کیا اور ایک روشن چوک پر پہنچے جہاں ہر طرف بتیاں اور روشنی نظر آئیں وہیں پر ہمیں ہمارے ٹور گائیڈ نے ویلکم کہا
۔پھر پورے گروپ کو کان کی سیر کرانے کا سفر شروع ہوا مختلف پوائنٹس کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا ہے وہاں پر کافی تفصیلات آویزاں بھی کی گئی ہیں اور ہمارے ٹور گائیڈ نے بہت عمدگی سے تفصیل کے ساتھ کافی معلومات ہمیں فراہم کی اور ان کی معلومات اور یہاں کی تفصیلات سن کر بہت خوشی ہوئی واقعی نمک کی کان کے اندر جا کر جس قدر ٹھنڈک اور پرسکون ماحول ملا اس کا احساس وہاں جا کر ہی ہو سکتا ہے وہاں نمک نکالنے والے حصے جہاں مزدور محنت کا کام کرتے ہیں وہ الگ ہیں اور جہاں لوگوں کو سیر کرائی جاتی ہے وہ اس سے الگ ہیں بتایا گیا ہے کہ یہ بہت بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے نمک کے ذخائر ہیں جس میں سے سو سال گزر جانے کے باوجود محض 20 فیصد نمک نکالا جا سکا ہے ماضی میں ٹرین کے ذریعے نمک نکالا جاتا تھا ٹرین کے ایک پھیرے میں تین ٹن تک نمک نکالا جاتا تھا اب دور حاضر میں ٹریکٹر ٹرالی کی مدد سے 15 ٹن نمک ایک پھیرے میں باہر نکالا جاتا ہے ۔کان کے اندر یہاں سے نمک نکال لیا گیا ہے اس کو لوگوں کو دکھانے کے لیے محفوظ بھی رکھا جاتا ہے اسے کمروں کی شکل میں کاٹا جاتا ہے اور پلر اور کمرے بنائے جاتے ہیں کچھ مقامات پر بہت گہرے گہرے تالاب بھی ہیں جہاں پر کاسٹک سوڈا حاصل کیا جاتا ہے بتایا گیا کہ کھیوڑا کان کے مجموعی طور پر 11 فلور ہیں جہاں پر نمک نکالا جا رہا ہے اور ایک ہسپتال بھی ہے جہاں پر دمے کے مریض اتے ہیں جن کو سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے وہ یہاں اتے ہیں تو یہاں کی نمک کی فضا سے ان کو سانس لینے میں اسانی ہوتی ہے اور ان کے مسائل میں کمی ا جاتی ہے اور ان کا علاج کیا جاتا ہے
۔نمک کی کان کے اندر مختلف پوائنٹس بنائے گئے ہیں کچھ بیٹھنے کا انتظام بھی ہے سانس بھی اپ لے سکتے ہیں چلتے چلتے تھک جائیں تو کہیں رک کر بیٹھ جائیں اندر روشنی کا بھی انتظام ہوتا ہے اور اگر لائٹ چلی جائے تو پھر ٹارچ بھی استعمال کی جاتی ہے جب تک ہم وہاں موجود رہے لائٹ نہیں گئی بتایا گیا ہے کہ جہاں اپ کھڑے ہیں یہاں سے 500 میٹر کے اگے دوسرے راستے سے مزدوروں کا راستہ شروع ہو جاتا ہے جہاں سے وہ نمک نکالنے کے لیے جاتے ہیں کان کے اندر ہی ایک حصے میں خوبصورت نمک کے کرسٹل بھی دکھائے گئے جب چھت سے نمک کے قطرے زمین کی طرف اتے ہیں تو وہ جم کر وہ بہت خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں اس پہ لائٹنگ کی گئی ہے اور وہ تمام رنگ برنگی لائٹنگ ہے جس کی وجہ سے ماحول بہت ہی خوبصورت ہو جاتا ہے یہاں پر پاکستان جشن ازادی کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں اور ایسے مواقع پر یہاں پر کافی رونق بتائی جاتی ہے کان کے اندر ہی ایک حصے میں کیفے ٹیریا بھی بنا ہوا ہے جہاں پر ہم نے بیٹھ کر چائے بنوائی اور چائے انجوائے کی بچوں نے ائس کریم کھائی اور وہاں پر نمک سے بنی ہوئی کچھ ضروری اور خوبصورت ڈیکوریشن ائٹمز بھی موجود تھیں جن کی خریداری کی اور نمک بھی خریدا وہاں سب سے بہترین کوالٹی کا اور خالص پنک سالٹ ملتا ہے جس کی پوری دنیا میں مانگ ہے ہم نے پنک سالٹ کے مختلف پیکس خریدے ۔ بچوں نے الفابیٹ کی چینز حاصل کی ہم نے ایک نمک لیمپ بھی خریدا جس کے اندر لائٹنگ کا اہتمام بھی کیا گیا ہے یہ بہت خوبصورت ہوتا ہے اور گھر میں بہت اچھا لگتا ہے آخر میں ہمیں کان کے اندر بنائی گئی خوبصورت لائبریری کا دورہ کرایا گیا واقعی یہ بہت ہی زبردست لائبریری ہے اور یہاں بہت ہی نایاب کتب اور دستویزات موجود ہیں ۔کان کے سفر کے دوران ہم جگہ جگہ رک کر اپنی تصاویر سیلفیاں اور ویڈیوز بھی بناتے رہے اس کی اجازت تھی جب ہم کان میں داخل ہوئے تو ہم بی وی ائی پی تھے کیونکہ ہم سے پہلے نہ کوئی اندر ایا تھا نہ کوئی ہمارے پیچھے تھا کیونکہ اج کل یہاں آنے جانے کے راستے خراب ہیں اس لیے بہت کم لوگ آتے ہیں ہم ٹرین کے ذریعے گئے تھے اس لیے پہنچ پائے جب ہم واپس باہر نکل رہے تھے تب اسکول کا ایک گروپ آیا تھا اور بسوں پر بچے ائے تھے وہ شاید کسی قریبی علاقے سے یہاں پہنچے تھے کان کا سفر بہت شاندار یادگار رہا بچوں کو کافی معلومات ملی اور یہ تجربہ ان کے لیے زندگی بھر کے لیے اہمیت کا حامل بن گیا اس بات کا افسوس رہا کہ صہیب اور عظمی نہیں آ سکے ان کی کمی محسوس ہوئی امی جان بھی اپنے دانتوں کے علاج کے لیے جہلم جا چکی تھیں ورنہ وہ بھی اس یادگار سفر میں ہمراہ ہویتیں۔ منڈی بہاولدین پہلے بھی پروگرام بنا تھا لیکن ہم کھیوڑا جا نہیں سکے تھے اس مرتبہ بچوں کی یہ خواہش پوری ہو گئی واپسی کا سفر بھی بہت خوشگوار تھا اور جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو ٹرین آنے سے پہلے وہاں پہ لوگوں کی کافی چہل پہل تھی پنڈ دادن خان کے اسٹیشن پر ٹرین ایک بجے پہنچی اور پھر ڈیڑھ بجے وہاں سے واپس منڈی بہاولدین کے لیے روانہ ہوئی صبح اتے ہوئے اور دوپہر کو واپس جاتے ہوئے دونوں مرتبہ ہمیں ٹرین میں رش نہیں ملا اور آسانی سے ٹکٹ لے کر سیٹوں پر بیٹھ گئے بچوں کو یہ سفر پسند ایا صاف ستھری ٹرین اور صاف ستھرا سفر ۔ راستے میں دریائے جہلم کو کراس کیا اور اس کے بعد ملکوال پہنچے اور ملکوال میں ٹرین نے لمبا سٹاپ کیا ٹرین کے سفر میں ملکوال کے پکوڑے کھائے بہت ہی لذیذ اور مزے دار تھے اس کے بعد بھی منڈی بہاولدین کے لیے چل پڑے ٹھیک تین بجے کے قریب ہم لوگ منڈی بہاولدین اسٹیشن پر اترے ۔اسٹیشن کے باہر جہاں ہم نے اپنی گاڑی پارک کی تھی وہاں پر کوئی عقلمند شخص اپنی گاڑی ہماری گاڑی کے بالکل پیچھے اس طرح کھڑی کر کے گیا کہ اب ہماری گاڑی بلاک ہو گئی تھی اور ہم وہاں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے 10 15 منٹ گزر گئے اور پارکنگ والے نے پھر کوشش کر کے جو سائیڈ میں گاڑی کھڑی تھی اس کو ہٹوایا اور وہاں سے ہماری گاڑی بڑی مشکل سے ٹرن کروائی اور ہم بمشکل وہاں سے اپنی گاڑی نکال پائے اور پھر نوید بھائی کے گھر پہنچ گئے ۔بچے سفر سے بہت خوش تھے اور انہوں نے اس سیر کو اپنے لیے یادگار قرار دیا ۔
کھیوڑہ کی سیر 12 ستمبر جمعرات کے دن کی تھی اور اس سے ایک رات قبل ہم سب لوگ رسول بیراج گئے تھے ایک گاڑی اور دو موٹر سائیکلوں پر پانچ جوان ۔ وہاں کا منظر ہی الگ ہوتا ہے پہلے رسول بیراج پر جو سبزہ زار ہے وہاں بیٹھنے کی اجازت تھی تو عام طور پر فیملیز وہاں بیٹھ کر اپنا وقت گزارتی تھیں ہم لوگ بھی وہاں دو نہروں کے درمیان جو سبزہ دار ہے وہاں پر اتر جاتے تھے یا نہر کی سائیڈ پر گرین ایریا میں بیٹھتے تھے جب شکیل بھائی حیات تھے تو وہ وہیں پر لے کر جاتے تھے وہ تو خود نہر میں اتر جاتے تھے اور سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں وہاں بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے پھر بیراج کی دوسری طرف جہاں کشتی والے موجود ہوتے ہیں وہاں کشتی کی سیر بھی ہم لوگ کرتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ منظر بدلا ہوا تھا چنانچہ ہم بیراج کراس کر کے دوسری طرف چلے گئے اور وہاں گاڑیاں رکی ہوئی تھی ہم نے بھی وہاں گاڑی روکی اور وہاں سے پیدل اتر کر نیچے دریا کے پاس چلے گئے لیکن وہاں اتنی خود رو جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں اور وہاں کرکٹ کھیلنے کی کوئی مناسب جگہ نہیں ملی البتہ وہاں دو کشتی والے ضرور بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ وہ ہم کو دریا کی سیر کرائیں لیکن کسی نے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی ہم لوگ اپنا گیند بیٹ سنبھال کر واپس گاڑیوں کی طرف ائے ایک لمبی واک ضرور ہو گئی اور سیڑھیاں اترنے چڑھنے کی مشق بھی ہوئی وہاں نوجوانوں کا ایک گروپ ایا ہوا تھا اور اس میں ایک ایسا لڑکا بھی تھا جس کی ٹانگیں نہیں تھیں اور وہ بیساکھیوں کی مدد سے اور دوستوں کے سہارے اس علاقے کی سیر کر رہا تھا دریا کے کنارے پر ایک بہت بڑا کچھوا مردہ حالت میں پایا گیا ۔ اس جگہ کو خوبصورت اور وزٹر گیلری میں تبدیل کیا جا سکتا ہے تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے کوئی سٹال بھی لگایا جا سکتا ہے لیکن اس جانب کسی کی توجہ نہیں ہے ۔واپس گاڑی میں بیٹھ کر بیراج ویو ریسٹورنٹ کی طرف چل دیے ماضی میں یہ بہت کامیاب مقبول اور مصروف ریسٹورنٹ تھا یہاں پر بہت زبردست الیکٹرک جھولے بھی لگائے گئے اور بہت بڑا پارک بنایا گیا یہ قدر اونچائی پر ہے اونچی جگہ پر ہے پہاڑی پر ہے اس لیے یہاں سے بیراج اور دریا کا ویو بہت خوبصورت نظر اتا ہے لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ بچوں کے جھولوں کا پورا پلے ایریا ویران ہو چکا ہے اور جھولوں کو زنگ لگا ہوا ہے جھولے بند پڑے ہیں اور وہاں اتنی بڑی تفریح کی سہولت گل سڑ رہی ہے
یقینی طور پر جس نے یہ سب کچھ کیا تھا اسے بھی افسوس ہوا ہوگا اور اس کی بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ جب سرائے عالمگیر کی سڑک بن رہی تھی تو ٹریفک کا یہاں سے گزر کم ہو گیا اور بیراج کی سڑکیں بھی بن رہی تھیں تو لوگوں کا انا جانا کم ہوا جس کی وجہ سے یہاں رونق ماند پڑ گئی اب دوبارہ ریسٹورنٹ کو بہتر کیا گیا ہے اور وہاں پر رونق بحال کرنے کی کوشش نظر ائی لیکن کم تعداد میں لوگ ا رہے تھے ہم لوگوں کو وہاں ریسٹورنٹ اور بچوں کے پلے ایریا کے درمیان سیمنٹ پارکنگ ایریا میں کرکٹ کھیلنے کی جگہ مل گئی تو وہاں پر میچ سے پہلے وارم اپ ہونے کا فیصلہ کیا گیا وہاں سب نے باولنگ بھی کی بیٹنگ بھی کی سب نے اپنے ہاتھ کھولے اور اونچی اونچی شارٹس لگا کر دو گیندیں گم بھی کی کیونکہ گیندیں پانی کی طرف چلی گئی وہاں سے نکالنا مشکل تھا لیکن سب کو پریکٹس کا اچھا موقع مل گیا بولنگ بھی اور بیٹنگ بھی ہو گئی وہاں پہنچنے کے دوران اور واپسی پر دو مرتبہ عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا پہلے تو نوجوانوں کا گروپ موٹرسائیکلوں پر ایا تھا ان کی موٹر سائیکلیں پیچھے رہ گئیں اور ایک موٹر سائیکل تو بہت ہی پیچھے رہ گئی ایک موٹر سائیکل پنکچر بتائی گئی واپسی پر ایک موٹر سائیکل کی چابی نوید بھائی کی جیب میں رہ گئی اور وہ گاڑی میں تھے پھر وہ چابی لینے کے لیے دوسری موٹرسائیکل پر ائے اس طرح کی صورتحال پیش اتی ہے تو وقتی طور پر پریشانی بھی ہوتی ہے لیکن یہ باتیں ایسے سفر کی یاد دلاتی ہیں کہ وہاں کیا کیا ہوا تھا اور پھر اس طرح کی حماقتوں اور اس طرح کی صورتحال پر ہنسی بھی اتی ہے لیکن یہی ہلہ گلہ ہوتا ہے جس کو سب انجوائے کرتے ہیں ۔
رسول بیراج سے واپسی پر واپڈا کالونی رکے انکل یاسین اور آنٹی سے ملاقات ہوئی بچے بازار جا کر گرما گرم سموسے لے کر آئے ، انکل نے یہ گھر بہت محنت اور بھرپور وقت لگا کر بنوایا اور اس کی ایک ایک چیز بہت ہی خوب اور معیاری اور یہ گھر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے انکل اور آنٹی بڑے باہمت ہیں انکل گھر میں تعمیراتی کام کے دوران بالائی منزل سے نیچے گر گئے تھے جس کے بعد ان کو کافی چوٹیں آئی تھیں وہ معجزاتی طور پر بچے اور یقینی طور پر اللہ نے انہیں نئی زندگی دی لیکن آج بھی وہ گاڑی خود ڈرائیو کر لیتے ہیں جب ہم نے جہلم روانہ ہونا تھا تو ایک دن پہلے وہ خود گاڑی ڈرائیو کر کے ملنے آئے ۔ ان سے ملاقات کے دوران ان کی بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوئیں اور انہوں نے اپنے دفتری معاملات کے حوالے سے کافی واقعات سنائے ملاقات اور گفتگو ہمیشہ ہی یادگار ہوتی ہے
انکل نے جب یہ سنا کہ جہلم میں میچ ہو رہا ہے تو بہت خوش ہوئے کہنے لگے سب اکٹھے ہوں گے خوب رونق ہوگی میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں وہاں پہنچوں لیکن اب دھیان پیچھے لگا رہتا ہے اس لیے میں آپ کی آنٹی کو اکیلا نہیں چھوڑتا ۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگلی مرتبہ اپ ایسا میچ منڈی بہاولدین میں کروائیے گا سب کو یہاں بلائیے گا میرا گھر بھی حاضر ہے اور میں آپ کے لیے ایک اور گیسٹ ہاؤس کا انتظام بھی کروا دوں گا
اس مرتبہ عظمی کی سالگرہ بڑی مدت کے بعد منڈی بہاولدین میں منانے کا موقع ملا میں اور نوید بھائی بازار جا کر سالگرہ کا کیک اور ریفریشمنٹ کا سامان لے کر ائے منڈی بہاولدین کے بازاروں میں جانے اور وہاں کی رونق دیکھنے کا یہ الگ تجربہ تھا یہ شہر بھی اب پہلے کی نسبت کافی ماڈرن ہوتا جا رہا ہے ہر طرح کا برانڈ اور ہر طرح کی مہنگی دکانیں یہاں موجود ہیں خریداروں کی قوت خرید بتا رہی ہے کہ لوگوں کے پاس مہنگی سے مہنگی چیزیں خریدنے کی قوت ہے اس لیے مہنگائی بھی اپنا زور دکھاتی ہے دکانداروں نے اپنی دکانوں کو جس طرح اپ لفٹ کیا ہے اور اس پر اتنی انویسٹمنٹ کی ہے اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اچھی خاصی کمائی ہے چھوٹے چھوٹے بزنس ہوا کرتے تھے جو اب بڑے بڑے برانڈ اور شاپس بن چکے ہیں اکثر جگہ پر مارٹ کھل گئی ہیں یہاں کافی رش ہوتا ہے اور مختلف مصنوعات اور اشیائے خرد نوش کی بڑی وسیع رینج اور کثیر مقدار میں اشیاء موجود نظر ائیں ۔
حیدراباد میں پیدا ہونے والی عظمی کی سالگرہ کا کیک اس مرتبہ منڈی بہاوالدین میں کٹا ۔ نوید بھائی کی فیملی اور ہماری فیملی نے سالگرہ پر عظمی کو مبارکباد دی اور سب نے کیک سے منہ میٹھا کیا یہ سالگرہ منڈی بہاوالدین میں منائے جانے کی وجہ سے یادگار بن گئی ۔
اس مرتبہ شکیل بھائی کہ بچپن کے دوست رانا عبدالجبار دعوت پر محلہ طارق اباد میں ان کے گھر جانے کا موقع ملا انہوں نے اور خالدہ بھابی نے پرتکلف دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا ان کی فیملی سے مل کر بہت اچھا لگا اور شکیل بھائی کے دنوں کی یادیں تازہ ہوئیں نوید بھائی اور میں اپنی بیگمات اور بچوں کے ہمراہ رانا عبدالجبار کی دعوت پر گئے تھے فیملیز کا یوں اپس میں ملنا جلنا کم ہوتا ہے لیکن سب کو اچھا لگا رانا عبدالجبار نے بڑے بھائی ہونے کا حق ادا کیا اور نہ صرف پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا بلکہ واپسی پر اپنی روایات کو نبھاتے ہوئے بہن اور بہنوئی کے لیے جوڑے بھی پیش کیے یہ ان کی محبت اور خلوص تھا انہوں نے اپنی گاڑی بھی پیش کی کہ جب تک اپ منڈی بہاولدین میں ہیں دو گاڑیوں میں سب گھوم پھر لیں لیکن اس کی ہمیں ضرورت نہیں تھی اس لیے ان کی پیشکش پر شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے پنجاب سے کراچی واپسی کے سفر کے دوران بہاولپور میں اپنے ایک دوست کی شوگر مل کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کی پیشکش بھی کی لیکن اس کی بھی ضرورت نہیں پڑی ۔رانا عبدالجبار فیملی کو جب پتہ چلا کہ جہلم میں کرکٹ میچ ہو رہا ہے تو ان کے دونوں بیٹے بھی کرکٹ کھیلنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور انہوں نے جہلم پہنچنے پر رضامندی کا اظہار کیا اور میچ والے دن پھر جہلم پہنچے بھی ۔
منڈی بہاول دین میں قیام کے دوران مجھے نوید بھائی کے ساتھ جا کر شکیل بھائی کے دوست خواجہ وقار سے ان کے لکڑ کارخانے پر ملاقات کا موقع ملا وہ بہت پیار اور خلوص سے ملے اور حالات حاضرہ پر سیر حاصل گفتگو ہوئی خواجہ وقار ویسے بھی روزانہ کی بنیاد پر ایک خوبصورت میسج بھیج کر مسلسل رابطہ رکھتے ہیں اور میں بھی ان کو جیوے پاکستان کی اکثر خبروں کے لنکس بھیجتا رہتا ہوں اس طرح ہمارا رابطہ رہتا ہے یہ سلسلہ شکیل بھائی کے بہت سے دیگر دوستوں کے ساتھ بھی جاری ہے چاہے وہ لاہور میں ہیں یا کہیں اور ۔ ایسی تمام ملاقاتوں اور رابطوں میں ہمیشہ شکیل بھائی کی یادیں تازہ ہوتی رہتی ہیں ۔
منڈی بہاولدین میں ایک مرتبہ پھر قبرستان جا کر ماموں جی افضل اور خالہ خالدہ ، کی قبروں پر حاضری دی فاتحہ خوانی کی، راشد بھائی اور آپا روبی کی بیٹی اوج ، کی قبر پر گئے اس کے علاوہ ماموں جی مقبول کی فیملی کی قبریں بھی اسی قبرستان میں ہیں مامی عابدہ کی قبر تو نظر آگئی سب مرحومین کے لیے فاتحہ خوانی کی ۔ سب کے چہرے نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے سب کی یادوں کے ساتھ بوجھل قدموں کے ساتھ وہاں سے واپسی ہوئی ۔ راستے میں طارق آباد میں سب کا فاروقی ہاؤس بھی دیکھا وہاں رہنے والوں نے اب اس کی شکل یکسر بدل کر رکھ دی ہے لیکن وہاں گزرے وقت کی یادیں آج بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہیں چاہ کر بھی ان سب یادوں کو بھلایا نہیں جا سکتا جتنی رونق اس گھر میں لگتی تھی جہاں سب رشتہ دار جمع ہوتے تھے اور جتنے یادگار ایونٹ پروگرام اور تقریبات وہاں منعقد ہوئی وہ شاید ہی کہیں اور ہوئی ہوں ۔
منڈی بہاوالدین کے بعد اب ہماری اگلی منزل جہلم تھی جہلم میں ہفتہ 14 ستمبر کو سب نے اکٹھا ہونا تھا ہم نے وہاں پہنچ کر میچ بھی کھیلنا تھا سب اس کی تیاری میں مصروف ہو گئے سیالکوٹ لاہور اسلام اباد روات سے سب مہمانوں کے پہنچنے کی یقین دہانی ا چکی تھی سب لوگ بے چینی سے 14 ستمبر کے دن کا انتظار کر رہے تھے کہ کب ہفتے کا سورج طلوع ہو اور سب اپنا سفر طے کر کے جہلم پہنچیں اور وہاں رونق میں شامل ہوں جہلم میں سب کے استقبال کی تیاریاں عروج پر تھیں سٹی ہاؤسنگ میں ریحان بھائی اور آپا روشی فیملی نے تمام انتظامات مکمل کر رکھے تھے سب لوگ وہاں پہنچنے کے لیے پرعزم اور پرجوش تھے ۔۔۔۔۔جاری ہے