بادلوں میں لپٹا ہوا نانگا پربت



۔۔۔۔۔۔۔
لوکل بسوں کے سفر نے ہمارے اندر اتنی تبدیلی تو پیدا کر ہی دی ہے کہ اب ہمیں سونے کے لئے اپنی منجی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کتنا آسان لگتا ہے اب سونا کہ سر کے نیچے اپنا بیگ رکھا اور سو گئے۔ بس اتنا ہی سادہ کرنے میں ہے جتنا پڑھنے میں لگ رہا ہے۔ یہی عالم میرا اس نیلی استور جانے والی بس میں تھا۔ یہاں مجھے تھوڑی سی جگہ ملی اور وہاں میں اپنے بستے کو تکیہ بنا کر ایسا سویا کہ مجھے تھلیچ کے گزرنے کا بھی پتہ نہ چل سکا۔ تھلیچ وہ مقام ہے جہاں سے قراقرم ہائی وے استور جانے والی روڈ کو جدا کرتی ہے اور یہیں پر استور نالہ دریائے سندھ میں سے ملتا ہے۔ استور نالے کو آپ ایک نالہ مت سمجھیے گا۔ یہ پورے کا پورا دریا ہی ہے۔ نالہ کہنے کی وجہ تسمیہ بس یہ ہے کہ مقامی زبان میں نالہ کو ہی دریا یا ندی کہا جاتا ہے۔ آپ استور نالے کو دریائے استور بھی کہہ سکتے ہیں مگر چوں کہ مقامی استور نالہ کہتے ہیں اس لیے ہم بھی اسے استور نالہ ہی کہیں گے۔
دریائے روپل ننگا پربت کی دامن سے گرتا ہے۔ ڈنگات کے مقام پر دریائے رٹو اور دریائے روپل آپس س میں ملتے ہیں اور پکروئی کے مقام پر دریائے گدائی بھی ان دو دریاؤں کے ساتھ شامل ہوتا ہے تو یہ دریائے استور کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تھلیچ کے مقام پر جیسے ہی داخل ہوتے ہیں تو دریایے سندھ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم ایک نشہ ہے اور جو شخص یہ نشہ ایک بار کر لیتا ہے وہ اسے بار بار کرنا چاہتا ہے۔ ایک تو سڑک تقریباً اچھی ہی ہے اور دوسرا انتہائی خوبصورت مناظر۔ کبھی آپ کو نانگا پربت پر دیدار ہوتا ہے تو کبھی کسی پہاڑ کا۔ ٹریفک بھی زیادہ نہیں ملتا جس کی وجہ سے آپ بائیک ذرا زیادہ رفتار سے بھی چلا سکتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم تو ٹھیک ہے مگر لوگ نہ جانے شاہراہِ قراقرم کو شاہراہِ ریشم بنانے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں ۔ ماضی بعید یا ماضی دور کے کسی بھی زمانے میں ریشم کے تجارتی قافلے موجودہ پاکستان سے نہیں گزرتے تھے۔ جب یہاں سے تجارتی قافلے ہی نہیں گزرتے تھے تو پھر کہاں کی شاہراہِ ریشم ۔ ماضی کی شاہراہِ ریشم تو چین سے شروع ہوتی تھی اور روس سے ہوتی ہوئی سینٹرل ایشیا تک جاتی تھی۔ موجودہ پاکستان کے کسی بھی خطے سے ریشم کے تجارتی قافلے کبھی بھی نہیں گزرے۔ اس لئے ہمارے یہاں شاہراہِ قراقرم تو ہے مگر یہ شاہراہِ ریشم کبھی نہیں ہو سکتی۔
تھلیچ تک سڑک تو ٹھیک ہے مگر جوں ہی آپ اس مقام پر دریائے استور کے ساتھ دائیں جانب مڑتے ہیں توں ہی آپ کو احساس ہوتا ہے کہ اسلام کیوں ہمیں صراطِ مستقیم کا حکم دیتا ہے۔ استور روڈ بس نارمل سی ہے۔ بہت سے مقامات پر کچی بھی ہے اور تنگ بھی۔ میں نے چلاس کے بارے سنا تھا کہ ایک گرم علاقہ ہے مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ بدتہذیبی کی حد تک گرم ہے۔ ہم گلگت بلتستان میں تھے اور صبح جب نمازِ فجر کے لیے ڈرائیور نے گاڑی چلاس کے پاکستان ہوٹل پر روکی تو دل چاہا ساتھ ہی بہتے ہوئے شیر دریا میں چھلانگ لگا دوں مگر ایسا کرنے میں نقصان صرف اور صرف میرے بچوں کا ہی تھا، اس لئے میں چپ چاپ چائے پینے لگا۔ مانا کہ چلاس میں گرمی تھی بلکہ شدید گرمی تھی، پنکھے مکمل سپیڈ سے چل رہے تھے مگر گرمی میں چائے کا کیا قصور۔ وہ تو پینی ہی پہنی تھی۔ البتہ یہ ضرور کیا کہ ایک ٹھنڈی پانی کی بوتل ہوٹل سے پکڑ لی اور فوراً سے پہلے اپنے اندر اتار لی جس سے جسم کو ذرا سکون ملا۔ سنا تھا کہ استور تک کا سفر بہت لمبا ہے، مگر اتنا لمبا ہے، یہ احساس نہ تھا۔ چلاس اترنے کے لئے ایک راستہ بابو سر ٹاپ سے بھی ہے۔ اگر لینڈ سلائیڈنگ نہ ہو رہی ہو اور وادیِ کاغان کے دریاؤں میں طغیانی بھی نہ مچی ہو تو گاڑیاں کوہستان کے علاقے سے جانے کی بجائے ناران سے ہوتی ہوئیں درہِ بابو سر پار کر کے نیچے چلاس میں اترتی ہیں۔ بابو سر کی طرف سے آنے میں گاڑیوں کی تین سے چار گھنٹوں کی بچت ہوتی ہے اور پٹرول الگ سے بچتا ہے۔ مسافروں کو جو مفت کے نظارے مل جاتے ہیں وہ الگ۔ کچھ ہی دیر بعد گاڑی نے چیکنگ کے لیے بریک لگا دی۔ سامنے بورڈ پر مختلف شہروں کے چلاس سے فاصلے لکھے تھے ۔ میں نے جو مشکل سے گاڑی سے مُونڈی باہر نکال کر پیچھے کی جانب موڑی تو میرے پیچھے ایک روڈ اوپر کو جا رہا تھا جس پر “بابو سر روڈ” لکھا تھا۔ یہی روڈ سیدھا اوپر بابو سر ٹاپ کی طرف جاتا تھا۔ وادیِ کاغان میں طغیانی کے باعث ایک دو جگہ سے دریاؤں کا پانی پلوں کو اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔ اس لئے ہماری نیلی بس ایک لمبا چکر کاٹ کر بذریعہ کوہستان چلاس پہنچ رہی تھی۔
میری بائیں جانب دریائے استور اپنے بہت سے معاون دریاؤں کے ساتھ بہہ رہا تھا اور ہم استور روڈ پر تھے۔ اگرچہ کہ کشمیر کے جغرافیہ کو بحث بنانا میرے مضمون کا حصہ نہیں مگر اس پر اگر چند سطریں ہو جائیں تو میری خیال میں کوئی حرج بھی نہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ واضح کریں کہ تقسیم سے پہلے جو بھی کشمیر ریاست تھی، اس میں صرف کشمیر کا حصہ نہیں تھا۔ اس میں پورے کا پورا گلگت بلتستان اور لداخ بھی شامل تھا۔ پہلی سکھ انگریز جنگ کے بعد جب انگریزوں نے سکھوں کو شکت دی تو انگریزوں نے 75 لاکھ روپے کے عوض پورا کشمیر (بمعہ جموں، لداخ اور بلتستان) گلاب سنگھ کو بیچ دیا جس نے وہاں ڈوگرا راج قائم کیا اور اپنے لئے مہاراجہ کا لقب اختیار کیا۔ گلاب سنگھ کے بعد اس کا بیٹا رنبیر سنگھ مہاراجہ بنا اور رنبیر سنگھ کے بعد پرتاب سنگھ۔ پرتاب سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ مکمل جموں و کشمیر ریاست کا آخری مہاراجہ تھا۔ اس کے دور میں برصغیر تقسیم ہوا۔ ڈوگرا راج چوں کہ ہندو مذہب کا قائل تھا، اس لئے ہری سنگھ نے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق بھارت سے کر دیا۔ وادی استور ڈوگرہ راج میں گلگت وزارت کا حصہ تھی۔ یکم نومبر 1947 کو گلگت میں جو بغاوت ہوئی تھی اس کی وجہ سے شمالی علاقاجات ڈوگروں کے کنٹرول سے نکل گئے تھے۔ تب سے گلگت بلتستان بشمول استور انتظامی طور پر تو آزاد کشمیر سے الگ ہی ہے۔
میجر ولیم براؤن کے زیر تحت گلگت سکاؤٹس نے گلگت اور سکردو پر قبضہ کرلیا تھا۔ اسی طرح کی بغاوت بائیس اکتوبر کو پونچھ میں بھی ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ قبائلیوں کا گلگت بلتستان کی آزادی میں کوئی کردار نہیں تھا۔
اگر ڈوگرا راج والی ریاست جموں کشمیر کی بات کریں تو پورا جی بی بھی کشمیر کا حصہ تھا۔ لیکن ثقافتی لحاظ سے برزل پاس کی حد بندی کی جائے تو منی مرگ اور کمری پاس کے علاقے اور تاؤ بٹ سے کیل تک یہ سب کشمیر کی وادی گریز کے علاقے ہیں جہاں شینا بولنے والے دادری لوگ بستے ہیں۔
تقسیم کے بعد لائن آف کنٹرول سے جو بندر بانٹ ہوئی اس سے زمینی رابطے منقطع ہو گئیے۔ اب تاؤ بٹ وادی نیلم سے جایا جاتا ہے اور منی مرگ کے لئیے استور سے گھوم کر آنا پڑتا ہے کیونکہ بیچ میں ایل او سی آ جاتی ہے۔ وادی گریز کا ایک بڑا حصہ انڈین کشمیر میں ہے۔ حالاں کہ تاؤ بٹ سے منی مرگ صرف 32 کلومیٹر کے سفر پر ہے۔ لیکن 32 کلومیٹر کی یہ مسافت ساڑھے تین سو کلومیٹر میں طے ہوتی ہے۔
وادیِ استور زمینی راستے وادیِ نیلم سے جڑی ہوئی تھی اور یہ تجارتی مرکز بھی تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی نیلم سے لوگ آتے جاتے تھے۔ نمک مصالے اور آٹے کے لیے تجارت ہوتی تھی۔ لسانی و ثقافتی اعتبار سے استوری(شینا) وادی گریز(جموں وکشمیر) سے جڑی ہے۔
میرے خیال میں ہم نے تقریباً نو یا دس بجے استور پہنچ جانا تھا مگر ٹھیک سات بج کر پچپن منٹ پر گاڑی ایک دم بائیں جانب ایک اترائی اتری اور اس نے بریک لگا دی۔ معلوم پڑا کہ نیلی بس استور پہنچ چکی تھی۔ یہ استور لاری اڈا تھا۔
♚ حـᷤــͥــͬــⷶــⷩـــارث بـͭــͭــᷰــᷩـــٹ ♚
==================from-fb-wall-of-

The Tourism Club (TTC)
Haris Butt ·