=============
ڈاکٹر کلیم الرحمن ندوی بھوپال
دارالعلوم ندوة العلماءکے فرزند بھوپال کے ممتاز عالم دین جاپان کے مفتی اعظم مولانا محمد سلمانؒ ندوی کے ہر دل عزیز صاحبزادہ ڈاکٹر سلیم الرحمن خان ندوی اپنے خاندان اور تمام بھائیوں میں جو الحمدللہ عالم وفاضل اور حافظ قرآن ہیں کئی اعتبار سے ممتاز اور معروف ہیں۔ آپ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے اردو، عربی زبان کے علاوہ انگریزی، جاپانی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ان زبانوں کے ذریعہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ سے دعوت دین کی تحریری وتقریری خدمات میں مصروف ہیں، اردو تو ان کی مادری زبان ہے، اور جہاں کہیں بھی ان کو موقع ملتا ہے اردو کو ہی دعوت وتبلیغ کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ خاص طورپر اپنے وطن ہندوستان میں جب بھی ان کا آنا ہوتاہے اور دیگر ممالک میں جہاں اردو جاننے والے ہوتے ہیں ان کا خطاب اردو کے ذریعہ ہی ہوتاہے۔ ان کی یہ انفرادیت نہ صرف خاندان بلکہ دیگر علمائ، صلحا، دعاة میں بھی آپ کو ممتاز بناتی ہے۔
برادرم ڈاکٹر مولانا سلیم الرحمن خان اپنے ننھیال نورمحل نصیر بلڈنگ بھوپال میں1956ءمیں پیدا ہوئے۔ یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ والدین کے دونوں خاندان علمی ودینی نسبتوں سے بھوپال میں مشہور تھے۔ جہاں والد محترم مولانا محمد سلمانؒ صاحب کا بھوپال میں دعوت وتبلیغ، تعمیر تاج المساجد کی مہم میں اپنا ایک مقام ہے اور مولانا عمران خان صاحب ندوی ازہری (برادراکبر) جد محترم مولانا الیاس خان صاحبؒ اور جد امجد مفتی عبدالھادی خان صاحب قاضی شہر بھوپال اور امام جامع مسجد جیسے عظیم بزرگوں سے آپ کا نسبی سلسلہ ہے جنہوں نے ریاست بھوپال اور دوردراز علاقوں میں دینی،علمی،دعوتی، تبلیغی محنتوں کی مثال قائم کی ہے۔
دوسری طرف والدہ محترمہ نفیسہ بیگم شہر کی مشہور شخصیت نصیرالدین صاحب ٹھیکیدار کی دختر نیک اختر تھیں ان کے بڑے بھائی جلال الدین قریشی اور سعیدالدین قریشی (بڑے سعید میاں) اور بھتیجے مولانا مصباح الدین صاحب دعوت وتبلیغ کے اہم ستون تھے، دونوں خاندانوںسے آپ کو قابل فخر نسبتوں کا امتیاز رہا ہے اور آپ کی شخصیت کی تعمیر وتزئین میں نمایاں کردار نبھایا ہے۔ آپ دونوں خاندانوںکی عظمتوں کے علم برداربھی ہیں۔
مولانا سلیم الرحمن صاحب کو کم عمری میں ہی والدہ محترمہ کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا لیکن آپ کی خالاؤں نے کسی حد تک اس کا تدارک کیا۔ ابتدائی تعلیم وتربیت انہیں خالاؤں نے کی لیکن حفظ قرآن کے لیے آپ کو صوبیدار عبدالجلیل صاحب، قاری عبدالمجید صاحب اور حافظ عبدالاحد بیگ صاحب استاذ دارالعلوم تاج المساجد سے بھرپور استفادہ کا موقعہ ملا۔ یہ حضرات حفظ قرآن کرانے کے ماہر ہی نہیں بلکہ تقوی وطہارت کی اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے اوصاف اور خوبیوں کے اثرات موصوف میں پائے جاتے ہیں۔ ماشاءاللہ آج تک تراویح میں قرآن سنانے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ آپ کی باقاعدہ دینی تعلیم والد محترم کی سرپرستی میں دارالعلوم تاج المساجد بھوپال، پھر کانپور کے ایک بڑے مدرسہ میں دارالتعلیم والصنعة جو دارالعلوم ندوة العلماءکے قرب وجوار میں ایک بڑی شاخ تھی وہاں ہوئی بعد ازاں دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو کا رخ کیا اور وہاں ایک لمبے عرصہ تک بڑے بڑے اساتذہ کرام سے استفادہ کا موقعہ ملا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا سید رابع حسنی ندوی، مولانا سیدواضح رشید ندوی، مولانا ابوالعرفان خان ندوی، مولانا برہان الدین سنبھلی ندوی، مولانا سعیدالرحمن خان ندوی مہتمم دارالعلوم، مولانا ناصر صاحب، مولانا اویس نگرامی ندوی قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ مختلف عرب ملکوں سے آئے ہوئے شیوخ اور کبار علماءسے استفادہ میں بھی وقتاً فوقتاً خصوصی درس وتدریس میں شامل رہے، والد محترم کی حصول تعلیم کے سلسلہ میں پابندیوں اور قواعد وضوابط کی نصیحتوں پر عمل کرتے رہے اور ہمیشہ آپ دارالعلوم ندوة العلماءکے سالانہ امتحان میں فرسٹ ڈویژن آئے، دوران تعلیم طلبہ کی انجمن ”الاصلاح“ کے ناظم بھی رہے اور ساتھیوں کو مذاکرہ بھی کراتے رہے، الاصلاح کی تربیتی سرگرمیوں میں طلبہ دارالعلوم اور ساتھیوں کو شفقت ومحبت سے آمادہ کرتے، پروگراموں میں شامل کراتے، ان امور میں ان کی معاونت کرتے۔ الاصلاح کی ذمہ داریوں نے خو د کو قلم وزبان کے استعمال پر قادر بنادیا تھا۔
دارالعلوم ندوة العلماءسے 1976ءمیں فراغت کے بعد آپ کا عزم تھا کہ سرزمین عرب میں کسی تعلیمی ادارہ سے علوم عربیہ اسلامیہ میں باکمال ہوجائیں، اللہ کی توفیق اور خود کی جدوجہد اور عزائم نے آپ کو بالآخر جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض جیسے بین الاقوامی ادارہ میں پہنچا دیا۔ وہاں آپ نے تین سالہ کورس کی تکمیل کی جہاں آپ نے ادارہ کے بڑے بڑے شیوخ اور علماءسے استفادہ کیا۔ آپ کوM.A. ایم۔ اے ماجستر کی ڈگری سے نوازا گیا پھر ایک عرصہ بعد2003ءمیں لکھنو یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی۔ P.H.D. کی ڈگری حاصل کی۔آپ کو ایشیائی ممالک میں بحیثیت مبعوث منتخب کیا گیا۔ دعوت اسلامی کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے آپ کو انڈیا یا جاپان کی پیشکش کی گئی۔ آپ نے جاپان کو چنا اور اس کو ترجیح دی۔ وہاں کی سائنسی اور الیکٹرانک ایجادات اور ترقیوں سے باخبر تھے۔ اسی کے ساتھ جاپان میں بدھ مذہب کی مرکزیت سے بھی باخبر تھے۔ آپ کو دعوت دین کے قرآنی اصولوں اور حکمتوں سے واقفیت حاصل تھی۔ دیا ر غیر میں زبان وماحول، رہن سہن اور دوسری چیزوں سے اختلاف کے باوجود مشکلات بھی تھیں لیکن جاپانی لوگوں کے اخلاق ومعاملات، وطن سے محبت، بااصول زندگی گذارنے کا سلیقہ، سادگی، انکساری جو کسی حد تک اسلامی آداب وروایات سے میل کھاتی تھیںجوآپ کو بہت پسند آئیں۔
1982ءمیں آپ کا تقرر جاپان میںالمعہدالعربی الاسلمی ٹوکیو میں ہوا جہاں آپ نے جاپانی مسلمانوں کو دینیات اور عربی زبان سے روشناس کرایا ہی نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں سے ان کو اسلامیات سے عشق کرادیا۔ اسی کے ساتھ ڈیوٹی کے علاوہ اوقات میں دعوت وتبلیغ دین اسلامی کے لیے کوششیں کرتے رہے، جاپان میں پہلے سے اس سلسلہ میں جو محنتیں جاری تھیں ان کی تائید ونصرت کرتے رہے۔ آپ وہاں دینی حلقوں میں، مساجد میں اور اسلامک سینٹر وغیرہ میں جاتے رہے اور عالمانہ انداز سے خطاب کرنے میں عوام وخواص میں مقبولیت حاصل کرتے رہے اور اپنے دل ودماغ کی حکمت وفراست اور ایثار وقربانیوں سے اسلام کو کچھ اس طرح سے پیش کرتے رہے کہ لوگ اسلام سے مانوس ہوں اور اس کے قریب آئیں۔ اسی میں کامیابی وکامرانی ہے، اسلام ہر قوم، ہر ملک بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے، مختلف زبانوں میں اس دعوت کا دائرہ وسیع سے وسیع ہوتا چلا گیا اور آپ کے ذریعہ کافی لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے اور ہورہے ہیں۔
دعوت کے اصول ”تعاونوا علی البّر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“ کے تحت جاپان میں، سری لنکا، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا کے علاوہ دوسرے ممالک کے اہل خیر حضرات کے ساتھ بہت ہی مشفقانہ اور برادرانہ سلوک کرتے رہے ہیں، خود بھی اسلامی شعائر کے پابند رہے، اس سلسلہ میں مختلف ممالک کا دورہ بھی کیا، لوگوں نے بہت جلد اس کا اثر قبول کیااور اتباع سنت وشریعت پر آمادہ ہوئے اور کافی تعداد میں لوگ مسجدوں، مدرسوں،دینی حلقوں اور دین تحریکوںکی جانب متوجہ ہوئے اور ہورہے ہیں، اچی نواری مسجد،ٹوکیومسجد اور کئی مساجد اس کی گواہ ہیں۔ آپ اسلامک سینٹر کے سرپرست رہے اور آج بھی ہیں۔ رویت ہلال کمیٹی آپ کے ذمہ ہے۔ آپ نے ماشاءاللہ کافی تعداد میں حج کئے اور مسلسل جاپان کے اہل ایمان ساتھیوں کو حج پر لے جارہے ہیں، مکہ ومدینہ کے روح پرور مناظر سے روشناس اور آگاہی سے دلوں کے اندر ایمان واسلام کی لذت اور تقویت محسوس کی جاسکتی ہے۔ خاندان کے افراد افتاءوقضاءامامت کے عہدوں پر اور مدارس ومکاتب کی خدمات میں مشہور ہیں۔ آپ ماشاءاللہ اس سلسلہ میں سرفہرست ہیں۔
اللہ نے ڈاکٹر سلیم الرحمن ندوی کو مختلف اوصاف سے نوازا ہے۔ علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ وہ تواضع، عاجزی اور انکساری کے پیکر ہیں۔ اپنے اساتذہ اور دینی، دعوتی لائن کے بڑوں کا احترام کرتے ہیں۔ باہر رہتے ہوئے بھی وہ اپنے وطن کے بزرگوں اور رشتہ داروں سے قربت، تعلق اور پاس ولحاظ رکھتے ہیں۔ دعوت وتبلیغ سے وابستگی آپ کو وراثت میں ملی ہے۔ جب بھی ہندوستان آئے تو مرکز نظام الدین ضرورجاتے ہیں اور ذمہ داروں سے شرف ملاقات حاصل کرتے ہیں اور جاپان کی دعوت وتبلیغ کی کارکردگی سے روشناس کراتے ہیں۔ دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو جو مادر علمی ہے محبت رکھتے ہیں، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے زمانہ حیات میں ان سے نیاز حاصل کرتے رہے اور کئی مرتبہ ان کو جاپان تشریف لانے کی دعوت بھی دی لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا، اس کے بعد دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو کے ناظم مولانا سید محمد رابع صاحب ندوی اور ڈاکٹر یونس نگرامی ندوی کو مدعو کیا یہ دونوں حضرات جاپان تشریف لے گئے اور پروگرام کے مطابق ہفتوں تک جاپان کے مختلف شہروں میں دعوتی اور اصلاحی پروگرام منعقد ہوئے، علمی دینی مجلسوں میں آپ دونوں کے خطاب بھی ہوئے جہاں لوگ ہندوستانی زبان سمجھنے والے نہیں تھے وہاں عربی اور جاپانی زبانوں میں ڈاکٹر سلیم الرحمن صاحب نے ترجمانی کی اور برادرم ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ دارالعلوم ندوة العلماءکی مجلس شوری کے رکن بھی ہیں اور جب کبھی شوری کا اجلاس ہوتا ہے اپنی مصروفیات اور مشغولیات کے باوجود وہ ندوة العلماءحاضر ہوتے ہیں اور شرکت کرتے ہیں۔ ندوہ کی زیارت تو ہوتی ہی ہے اس کے علاوہ ندوہ کے ملحقہ مدارس میں بھی جاتے ہیں اور مواعظ ونصائح فرماتے ہیں۔ اساتذہ وطلبہ سے آپ کی گفتگو ہوتی ہے۔
بذات خود آپ کئی اداروں اور تعلیمی کمیٹیوں اور اصلاحی تنظیموں کی سرپرستی بھی کرتے ہیں اور ان کو اپنی تائید اور تعاون سے نوازتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مافی الضمیر کی ادائیگی اور افہام وتفہیم کا ملکہ عطا کیا ہے کیونکہ آپ کامقصد ہی دین اور دین کی اشاعت وتبلیغ ہے۔ ا س لیے عوام الناس کو قرآن وحدیث کی وضاحت کے ساتھ ساتھ عہد نبوی اور تاریخ اسلامی کی حکایات اور واقعات کو بھی بیان کرتے ہیں اور قرآن وحدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ بہت کچھ انداز والد محترم مولانا محمد سلمان خانؒ کا ہے اس میں خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنی ذات وصفات بیان کرنے کے بجائے یہ فکر رہتی ہے کہ جو لوگ مجلس میں موجود ہوں وہ یہاں سے کچھ لے کر جائیں اپنے دلوں میں دین وایمان کی اہمیت پیدا کریں۔
جاپان میں جمعہ کی نماز کے وقت جو خطاب فرماتے ہیں ان کی وہاں شہرت وعظمت ہے یہ خطاب (من تعالیم الاسلام خطبات جاپان) کے نام سے اردو عربی انگریزی اور جاپانی زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی کتاب مولانا محمد سلمان خانؒ نقوش وتاثرات بھی منظر عام پر سالوں پہلے آئی جو بہت مقبول ہوئی اور اب ناپید ہے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن اضافہ کے ساتھ انشاءاللہ بہت جلد شائع ہوگا۔اس کے علاوہ الصحافة الاسلامیة فی الہند۔ الثقافة الاسلامیة۔ الاسلام فی الیابان بھی مقالات اور کتابوں کی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ڈاکٹر صاحب کی علمی اور تحریری صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کی خدمات کا سلسلہ بھوپال کی مساجد، مدارس اور اسکولوں میں بھی رہتا ہے۔ جب بھی بھوپال تشریف لاتے ہیں تو مدارس وغیرہ کے ذمہ داران آپ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔اللہ کے شکر سے دائرہ علمی،عملی،تعلیمی اور تعمیری میں مستقل اضافہ ہوتارہا ہے۔ آپ جاپان کی سب سے بڑی چووChou یونیورسٹی میں حال فی الحال پروفیسر ہیں اور قوم وملت کی خدمات میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں خیر وبرکت عطافرمائے (آمین)
آپ تمام تر دعوتی فرائض واجبات کے ساتھ ساتھ اپنے اقارب اور بیوی بچوں کے حقوق سے کبھی غافل نہ رہے جہاں آپ نے معاشی طورپر خود کفیل ہونے کے لیے جاپان میں جدوجہد کی وہاں تجارت بھی کی، امپورٹ اکسپورٹ،حلال فوڈ اور گاڑیوں کے شعبوں میں اپنی محنتوں سے خود بھی فائدہ اٹھایا اور اپنے عزیزواقارب کو، اور تمام بھائیوں کو جاپان اور دبئی اور نیوزی لینڈ بلاکر کاروبار سے جوڑا اور مختلف کمپنیوں میں کام کے مواقع فراہم کئے تاکہ کوئی بھی کسی کا محتاج نہ رہے۔ خود مجھ کواور فیملی کو جاپان بلایا اور ایک بہترین ملازمت کے ذریعہ معاشی تقاضوں کو پورا کرنے کا موقع دیا، بیرونی ممالک میں گاڑیوں کے شوروم کھلوانا ایک بڑی لمبی رقم لگانا، معاونت کرنا اور مفید مشوروں سے نوازنا آسان نہیں جو بھائی اور بہنوئی بالکل ناواقف اور انجان تھے ان کو ماہر بنادیا جنہوں نے کبھی یہ کاروبار انجام نہیں دیااور نہیں سوچا تھا۔ یہ سب نام ونمود کے لیے نہیں بلکہ حق قرابت اور رضائے الٰہی کے لیے کیا اگر چہ اس سلسلہ میں تلخ تجربات بھی ہوئے لیکن وہ سب اپنی خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ ماشاءاللہ آپ کی شریک حیات جاپانی ہیں اور ہر ایک کام میں آپ کی معاون ومددگار ہوتی ہیں۔ بچوں کی تعلیم وتربیت اور حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بے مثل ہیں۔ دینی اور دنیوی کاموں میں محترم کو یکسوئی فراہم کرتی ہیں۔تین نرینہ اولاد ہیںماشاءاللہ۔ وسیم، نسیم، حمزہ۔ ازدواجی زندگی میں منسلک ہوکر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں اور والدین کے لیے ذخیرئہ آخرت بنیں گے۔خاکسار کے ذہن میں بہت سی باتیں ہیں لیکن مضمون کی طوالت کی وجہ سے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ برادرم ڈاکٹر صاحب کو صحت وعافیت کے ساتھ ایک لمبی عمر عطافرمائے، آپ کے گھرانے کو خوش وخرم رکھے (آمین)
مسرور احمد مسر و ر نے بھو پال کے حالیہ دو ر ے میں جا پان کے مفتی ا عظم ڈا کٹرسلیم ا لر حمان ند وی سے ملا قات کی اس مو قع پر لی گئی تصویر