#نیلم_کنارے #چٹاکٹھہ_جھیل #mlgtours #عمرفاروق_عارفی
لیکن ہمیں ابھی کچھ دیر یہاں اس آب شار کا دیدار کرنا مقصود تھا، آب شار جس پہاڑ پر سے لٹک رہی تھی اس میں گہرا رنگ نمایاں تھا اور وہ ایک بھربھرا سا پہاڑ تھا، جیسے کٹا ہوا سینڈوچ ہو، لیکن یہ سینڈوچ بہت دانت توڑ تھا، جو صرف دیکھنے میں ہی بھلا لگتا تھا، آب شار کا نزدیکی حصہ سبزے سے خالی تھا لیکن اس سینڈوچ جیسے پہاڑ کے اردگرد سب کچھ ہرا کچور تھا آب شار کے سرے پہ ہری پربت جھانک رہا تھا، ہری پربت پہاڑ کے چہرے کے گرد بادلوں کی سفید ہلکی سی ایک تہہ تھی یوں لگتا تھا جیسے کسی شرمیلی دوشیزہ نے کسی باریک آنچل سے منہ ڈھانپا ہو اور اس کی غزالی آنکھیں سامنے والے کو اپنے حسن کی طرف کشش کررہی ہوں،
آب شار کا پانی پھوار کی صورت میں گر رہا تھا، پانیوں کے گرنے کی آواز میں ایک ترنم و سرور تھا اور کان اسے بار بار سننا چاہتے تھے، ہم کچھ دیر آب شار کا نظارا کرتے رہے اور پھر وہیں بیٹھ گئے، ڈک ون کی طرف منہ کیا تو ڈک ون سے نچلا حصہ کہیں بادلوں کی لپیٹ میں چھپا ہوا نظر آرہا تھا، بادل نیچے اترے ہوئے محسوس ہورہے تھے، ہمارے پاس دھوپ ہی دھوپ جبکہ ڈک ون اور اس سے نیچے دور دور تک بادلوں کا راج تھا، یہ منظر بھی جادوئی سا تھا،
آب شار کے ساتھ ساتھ دائیں ہاتھ اوپر کو ایک چڑھائی تھی، یہی وہ آخری امتحان گاہ تھی جو چٹاکٹھہ جھیل کے دیدار کے راستے میں حائل تھی، یہاں آکر ایک غلطی فہمی دور ہوئی کہ اس آب شار کا پانی چٹا کٹھہ جھیل سے نہیں آتا ، دوسرے لفظوں میں کہیں تو اس آب شار اور جھیل کا آپس میں کوئی سمبندھن یا رشتہ داری نہیں ہے،
جھیل کا پانی زیر زمین ہی آب شار سے پہلے والے میدان میں آکر ندی سے ملتا ہے،
دس منٹ کے وقفے کے بعد ہم نے گوڈھے گھٹے ٹھیک کیے اور ذہن کے گھوڑوں کو چڑھائی پہ چڑھانا شروع کردیا، چڑھائی ایسے ہی معلوم پڑتی تھی جیسے ہم اونٹ کی پشت پہ سوار ہوکر اونٹ کی گردن سے ہوتے ہوئے اس کے سر تک چڑھتے جارہے ہوں،
چڑھائی جان دار تھی لیکن ہمیں اپنی محبوبہ کو دیکھنے کے لیے اس دعوتِ مبارزت کو قبول کرنا ہی تھا، ادھر ہم چڑھنا شروع ہوئے دوسری طرف منیر اینڈ کمپنی چڑھائی کے آخری سرے پہ نظر آئی اور پھر غائب ہوگئی، شعیب گلزار بالکل نظر نہیں آرہا تھا وہ کہیں نیچے ہی تھا، لگتا ہےوہ میرے مشورے کو مان کر وہیں رک گیا ہوگا، ہم گھاس کے درمیان بنی پگڈنڈی پہ چلتے ہوئے اوپر چڑھ رہے تھے، تقریباً بیس منٹ کی صبر آزما چڑھائی کے بعد ہم نے اس حصے کو عبور کرلیا اور اوپر ایک میڈوز پہ جا نکلے، پہاڑ کے اوپر ایک وسیع میدان تھا جس میں چھوٹی موٹی چڑھائیاں اور اترائیاں تھیں، ہری پربت پہاڑ کا طلسم ابھی برقرار تھا اور وہ شرمیلی چوٹی ابھی بھی ہمیں نامحرم سمجھتے ہوئے آنچل سے منہ چھپائے اپنی جگہ پہ کھڑی ہمیں جھانک رہی تھی، شاید ہری پربت کو ہم سے یہ بھی شکوہ تھا کہ ہم چٹاکٹھہ جھیل کے دیدار کےلیے سفر کررہے تھے ہری پربت کے لیے نہیں، شاید وہ چاہتی تھی کہ ہم اس کے دیدار کے لیے کوئی الگ سے سفر کرکے آئیں اور تبھی ہمارے عشق کی منزل پوری ہوگی،
پہاڑ پتھر ہیں لیکن سخت جان ہونے کے باوجود امتحان لیتے ہیں، یہ ہمارے دکھوں کا مداوا کرنے کا باعث ہیں، یہ ہنسنے کا ، گپیں لگانے کا موقع فراہم کرتے ہیں، یہ ہماری پریشانیوں کو جذب کرتے ہیں، ہر وہ چیز جو کسی کے دکھ بانٹ لے، کسی کی پریشانیوں کو اپنے اندر جذب کرلے اس سے پیار ہوجانا فطری امر ہے، ہر وہ چیز جو ایسی خوبیاں اپنے اندر رکھتی ہو وہ پیاری لگتی ہے ، وہ لاکھ امتحان بھی لے اس سے ایک روح کا تعلق قائم ہوجاتا ہے، وہ پہاڑ ہوں یا انسان ، حیوان ہوں یا پرندے۔
سرسبز میدانوں میں رنگ برنگے پھولوں سے لدی اس وادی میں حسن کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا، اوپر پہنچتے ہی ایک الگ جہاں ہماری آنکھوں کے سامنے تھا، ایک طرف جھیل کی معصومیت تھی تو دوسری طرف ہری پربت جیسے دیوقامت پہاڑ کی تکبرانہ نظریں تھیں، ایک جانب جھیل کی خاموشی تھی تو دوسری طرف ہری پربت کے خوف کے بادل، ہم ان دو انتہاؤں کے درمیان چلتے جا رہے تھے، ایک طرف جھیل کی خامشی تھی تو دوسری طرف ہری پربت کی پراسراریت بھری خامشی جس میں کہیں ناں کہیں خوف اور رعب جھلکتا تھا، جھیل سے چند میٹر پہلے ہم سے پہلے آنے والی منیر اینڈ کمپنی ایک جگہ جمع تھی اور نیچےسے آنے والوں کا انتظار کررہی تھی، میرے بعد دانی، ابوبکر، ذیشان اور معروف بھی آن ملے، شعیب گلزار کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں تھا، پانچ منٹ کے بعد ہم سب نے قدم سے قدم ملا کر جھیل کی طرف بڑھنا شروع کیا،
چند میٹر چلنے کے بعد ہمارے جسموں سے روحیں نکل کر اڑتی محسوس ہوتی تھیں، اور شاید وہ سامنے نظر آنے والے گلیشئرز میں گم ہوجانا چاہتی تھیں، چٹانوں کے گنبد تھے اور ان کے بیچ فطرت کی جانب سے رکھے گئے برفیلے ٹکڑے ہمیں حیراں کررہے تھے، یوں لگتا تھا ہم کسی اور گولے پہ جا پہنچے ہوں، یہ واقعی ایک کوہ قاف جیسا تھا جسے ہم کہانیوں میں پڑھتے تھے، اوپر پہنچتے ہی دھوپ کا نشان تک جاتا رہا تھا، آسمان بادلوں سے پر ہوچکا تھا، جھیل کے عقب میں واقع گلیشئرز میں سے بادلوں کے غول اڑتے ہوئے ہری پربت کی جانب گامزن تھے، بادلوں کی یہ لمبی قطاریں جھیل کی بائیں جانب تھیں، یہیں سے ایک راستہ چٹاکٹھہ 2 کی جانب بھی نکلتا ہے، چٹاکٹھہ جھیل سے چٹاکٹھہ 2 کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پہ ہے،۔
سفرنامہ نیلم کنارے سے اقتباس
عمرفاروق عارفی کے سفرنامے
============================
https://www.youtube.com/watch?v=gb7V8EUXwyo