میں چار بہادر خواتین کے ساتھ کھچیلی جھیل اور دیران بیس کیمپ سے راکاپوشی بیس کیمپ واپس آ رہا تھا تو گلیشئر کے راستے میں ستر سالہ ایک بزرگ گورا ملا جس کا تعلق سویڈن سے تھا اور بقول اُس کے وہ اب تک
آدھی دنیا کی خاک چھان چکا تھا۔
گورے نے کہا کہ تم پاکستانی لوگ دنیا کے سب سے خوش نصیب انسان ہو۔ اس وقت میرے پاس بجلی کا بل ساتھ نہیں تھا ورنہ میں گورے کو ہم پاکستانیوں کی خوش نصیبی کے پرچے اور چرچے دکھاتا۔اس لئے میں نے گورے کو چند پاکستان سیاستدانوں کے نام بتائے کہ یہ خوش نصیب ہمارے ملک کا نظام چلاتے ہیں جس پر اُس نے چند انگریجی کی خرافات سے اُن اشخاص کو نوازا اور پھر گویا ہوا ” میں یہاں گلگت کے پہاڑوں کی بات کر رہا ہوں کہ خدا نے تم لوگوں کو یہ سب کچھ دیا ہے ۔”
مزید بات ہوئی تو وہ بولنے لگے ” میں نے اب تک ہزاروں کی تعداد میں ٹریکس کئے ہیں لیکن وادی نگر مناپن سے راکاپوشی بیس کیمپ ، دیران بیس کیمپ اور کھچیلی جھیل کا جو ٹریک ہے وہ میرے نزدیک دنیا کے چند خوبصورت ترین ٹریکس میں سے ایک ہے جہاں ہر تھوڑی دیر بعد منظر بدلتا ہے ،احساسات بدلتے ہیں، دل کے ساز بدلتے ہیں۔
جہاں ایک جانب بالکل سنگلاخ پہاڑ آپ سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہیں دوسری جانب ہری بھری گھاس کی بلند و بانگ دیواریں ہیں جن پہ جھرنوں، آبشاروں اور گلیشئرز کی داستانیں آپ کو اپنی کہانیاں سنانے کے منتظر ہیں۔”
میں نے گورے کی اس خوبصورت بات کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑا کیوں کہ اُس کی کہی ہوئی ایک ایک بات میرے دل کی ترجمان تھی۔ وادی نگر مناپن سے راکاپوشی ، دیران اور کھچیلی جھیل کا جو ٹریک ہے اُس کی خوبصورتی واقعی لفظوں میں بیان ہو ہی نہیں سکتی ۔ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اللہ پاک نے کیا حسین و جمیل مناظر بنائے ہیں۔
راکاپوشی سے جیسے ہی آگے نکلتے ہیں تو تقریبا چالیس منٹ بعد گلیشئر کا ٹریک شروع ہو جاتا ہے اور گلیشیئر والا حصہ اتنا زیادہ پرکشش ہے کہ دل چاہتا ہے بس یہیں کیمپ لگا کر بیٹھ جائیں اور انشا جی کی زبان میں کہتے رہیں
جنگل تیرے پربت تیرے بستی تیری قریا تیرا
خیر گلیشئر کہیں گدلے سے رنگ کا ہے اور تھوڑی دیر بعد اتنا شفاف سفید رنگ کا آ جاتا ہے جیسے ہماری امیاں کسی وقت میں نرما واشنگ پاؤڈر میں سفید سوٹ دھو کر چِٹا کھیر بنا لاتی تھیں۔
گلیشئر کے بعد آپ جب دیران بیس کیمپ پہنچتے ہیں تو اس جگہ کی رنگینیاں آپ کو کسی اور ہی جہان میں لے جاتی ہیں۔ بہت بڑی چراگاہ ، ساتھ ندی کی سنگیت پیدا کرتی آواز جس کی موسیقی قدرت کا ایسا مدھر کن ساز لگتی ہے جو کانوں میں سُروں کے رس گھول دے ۔
دیران سے آگے جب آپ کھچیلی جھیل کی جانب جاتے ہیں تو اُس کا راستہ کسی گلستان کی ایک عجیب ہی دنیا لگتی ہے جہان رنگ برنگے قدرتی پھول لہک کر ، چہک کر اور مہک کر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔
جیسے ہی آپ جھیل پر پہنچتے ہیں تو آپ کے تین دن کے ٹریک کی تھکان جو کہ چل چل کر پاؤں کے انگوٹھے سے لے کر سر کے بال تک درد کی کیفیت میں ہوتے جھیل کی ایک ہی جھلک سے سکون میں بدل جاتی ہے اور یہاں پہ بڑا پیارا سا شعر یاد آتا ہے کہ
یوں تو کچھ بھی میری دنیا میں ٹھکانے پہ نہیں
بس تجھ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ سب اچھا ہے
یہ داستان اور تصاویر دو دن پہلے کی ہیں اور کھچیلی جھیل کا ٹریک کھل چکا ہے اور جھیل مکمل پگھل چکی ہے تو آپ اگر دنیا کے اس خوبصورت ترین ٹریک کا سفر کرنا چاہتے ہیں تو ستمبر تک آپ کے پاس وقت ہے اس کے بعد پھر برفباری شروع ہو کے جھیل جمنا شروع ہو جاتا ہے ۔
مزید اگر آپ کو ٹریک سے جڑی کوئی بھی معلومات درکار ہوں آپ بلاجھجھک مجھے میسج کر سکتے ہیں میں کوشش کروں گا کہ آپ کو تمام تفصیلات سے آگاہ کروں ۔
تحریر و تصاویر
سلمان حیدر خان
===============================
Load/Hide Comments