کیا افغانوں کو لڑنے مارنے اور دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں آتا ؟ پاکستان اور افغانستان کی جنگ مسئلے کا حل ہو گا یا نئے مسئلے کا آغاز ؟ اپوزیشن نے امریکہ مخالف قرارداد پر حکومت کا ساتھ نہ دے کر اسٹیبلشمنٹ کو کیا پیغام دیا ؟

کیا افغانوں کو لڑنے مارنے اور دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں آتا ؟ پاکستان اور افغانستان کی جنگ مسئلے کا حل ہو گا یا نئے مسئلے کا آغاز ؟ اپوزیشن نے امریکہ مخالف قرارداد پر حکومت کا ساتھ نہ دے کر اسٹیبلشمنٹ کو کیا پیغام دیا ؟ سیاسی حلقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے خلاف منظور کی گئی قرارداد کے جواب میں جب پاکستان نے امریکہ مخالف قرارداد پیش کی تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے جو رویہ اپنایا اس نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو کیا پیغام دیا ۔ افغانستان کے حوالے سے خواجہ اصف کی بات مانی جائے یا حافظ حمد اللہ کی بات میں وزن ہے جو پوچھ رہے ہیں کہ کیا افغانستان سے جنگ مسئلے کا حل ہے ؟ دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف کی مذاکرات کی پیشکش کتنی سنجیدہ ہے اور اسے عمران خان کتنی سنجیدگی سے

لیں گے یہ بھی ایک بحث طلب معاملہ ہے جبکہ نواز شریف نے بجٹ میں ووٹ نہ دے کر خود کو اس بجٹ سے نہ صرف الگ کر لیا بلکہ بتا دیا کہ وہ صرف اسحاق ڈار کے بجٹ کو ووٹ دیتے ہیں اور محمد اورنگزیب نے جو بجٹ تیار کیا ہے یہ تو سب جانتے ہیں یہ ائی ایم ایف کا بجٹ ہے ۔دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کو مضبوط کر کے ائی ہے اگر پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی مسلم لیگ نون کے رہنما نہال ہاشمی دانیال عزیز کو توہین عدالت پر سزا سنائی جا سکتی تھی تو پھر پی ٹی ائی کے رہنماؤں کو تو انہیں عدالت کی سزائیں تو دور کی بات نوٹس بھی کیوں جاری نہیں ہو رہے عبدالرؤف کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ اخر انہیں توہین عدالت کا نوٹس کیوں جاری نہیں کیا گیا اور اگر انہیں نوٹس جاری نہیں کرنا تھا تو پھر مصطفی کمال اور فیصل واوڈا سے بھی معافی کیوں منگوائی گئی قانون تو سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے انصاف کا پیمانہ بھی ایک جیسا ہونا چاہیے توہین عدالت کا پیمانہ بھی ایک جیسا ہونا چاہیے ۔
========================

آپریشن فوج کی نہیں حکومت کی ضرورت، عمران چاہتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرلیں، وزیر دفاع
آپریشن فوج کی نہیں حکومت کی ضرورت، عمران چاہتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرلیں، وزیر دفاع
اسلام آباد(جنگ نیوز،مانیٹر نگ ڈیسک) وزیردفاع خواجہ آصف نےکہا ہے کہ آپریشن فوج نہیں، حکومت کی ضرورت ہے ، عمران خان چاہتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرلیں،ان کی رہائی سےکوئی خطرہ نہیں،سیاسی طاقتیں مل کر ملک کیلئے بہتری کا راستہ نکالنا چاہتی ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کو کیا اعتراض ہو گا ، طالبان کیخلاف سرحد پر کارروائیاں کیں ، آئندہ بھی کرینگے۔ افغان حکومت طالبان کیخلاف کارروائی کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی،ہم حملے کرنیوالوں کو کیک پیسٹری تو نہیں کھلائیں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ماضی میں کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے بعد ملک میں دہشت گردی دوبارہ بڑھنے کی توقع نہیں تھی، آپریشن عزم استحکام فوج کی نہیں ہماری ضرورت ہے، یہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری لینی بھی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی حالیہ لہر سے نمٹنے کے لیے نئے جذبے اور شدت کے ساتھ آپریشن کی ضرورت ہے، دہشت گردی کے واقعات میں گزشتہ ایک سال میں جو شدت آئی اس کے بعد نئی صف آرائی کی ضرورت تھی ، اس بار آپریشن سے کوئی نقل مکانی نہیں ہوگی بلکہ آپریشن انٹیلی جنس کی بنیادوں پر کیا جائے گا۔

گزشتہ ایک دہائی میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جو بڑھتی دہشتگردی کا باعث بنے جن میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کا انخلا اور پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے دوران ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ملک واپس لانا شامل ہیں، امید تھی کہ افغان حکومت ہم سے تعاون کرے گی مگر وہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے کیونکہ وہ ان کے اتحادی تھے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ طالبان سے بات چیت کے بعد ان کے 4 سے 5 ہزار لوگوں کو واپس لانے کا تجربہ ناکام ہوا اور طالبان کے وہ ساتھی جو افغانستان سے کارروائیاں کر رہے تھے انہیں پاکستان میں پناہ گاہیں مل گئیں، اب وہ آتے ہیں ان کے گھروں میں رہتے ہیں اور پھر کارروائیاں کرتے ہیں، پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گا۔
====================

پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہترین ہیں، امریکی حکام
ایک سینئر امریکی عہدیدار نے اسلام آباد کو یقین دلایا ہے کہ دونوں اتحادیوں کے درمیان معمولی اختلافات کے باوجود امریکا اور پاکستان مستحکم اور وسیع البنیاد تعلقات کو برقرار رکھتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ یقین دہانی امریکی کانگریس میں بھاری اکثریت سے حالیہ قرارداد کی منظوری کے بعد کی گئی ہے، جس میں پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔

پاکستان کی جانب سے امریکی ایوان نمائندگان کی اس قرارداد پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا اور ان خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔

امریکی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری الزبتھ ہورسٹ نے جمعہ کی رات پاکستانی سفارتخانے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’کسی بھی دیرینہ تعلقات کی طرح، کبھی کبھی اختلافات بھی آجاتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کئی سالوں سے مستحکم ہیں، جب کہ ہم نے اپنے تعلقات میں استحکام اور وسعت حاصل کی ہے جو ہم نے گزشتہ کئی سالوں میں نہیں دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے حالیہ ادوار میں ایسے کام کیے ہیں، جن کے بارے میں ہم نے طویل عرصے سے بات نہیں کی، ہم نے مذاکرات کے نئے راستے کھولے ہیں، ہم نے تجارت کے نئے شعبوں کی تلاش کی ہے اور ہم نے صحت وتوانائی، آب و ہوا جیسی چیزوں پر تعاون کرنے کے طریقے تلاش کیے ہیں۔

الزبتھ ہورسٹ نے سبکدوش ہونے والے پاکستانی سفیر مسعود خان کے کردار کی بھی تعریف کی، جنہوں نے تقریب کے دوران یہ اعلان کیا کہ وہ پیر کو اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔

وزارت خارجہ نے جمعرات کو اسلام آباد میں اعلان کیا کہ وہ واشنگٹن اور نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ایک نیا سفیر بھیج رہے ہیں، اس اقدام سے واشنگٹن میں قیاس آرائیاں ہوئیں کہ پاکستان سے متعلق امریکی ایوان نمائندگان کی حالیہ قرداد کی منظوری سے پاکستانی سفیر کی واپسی میں تیزی آئی۔

اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں پاکستانی سفیر مسعود خان کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’آپ ناقابل یقین حد تک موثر رہے ہیں اور آپ نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر کیا ہے، آپ نے جب عہدہ سنبھالا تھا، اس وقت کے مقابلے میں آج پاکستان اور امریکا کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران امریکا اور پاکستان نے مذاکرات کے نئے ادوار شروع کیے ہیں اور تجارت کے نئے شعبے تلاش کیے ہیں۔

امریکی قرارداد
واضح رہے کہ 26 جون کو امریکا کے ایوان نمائندگان نے 8 فروری 2024 کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹنگ کے بعد ہیر پھیر کے دعوؤں کی غیر جانبدار تحقیقات کے حق میں قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے ملک کے جمہوری عمل میں عوام کی شمولیت پر زور دیا تھا۔

انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ سب سے زیادہ قوت کے ساتھ سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اٹھایا گیا جس کے رہنماؤں کو اپنا انتخابی نشان ’بلا‘ چھن جانے کے باعث عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے شرکت کرنی پڑی جبکہ قانونی جنگ کے بعد الیکشن اتھارٹی کی جانب سے پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غلط قرار دیا گیا۔

قرار داد میں پاکستان کے لوگوں کو ملک کے جمہوری عمل میں حصہ لینے کی کوشش کو دبانے کی کوششوں کی مذمت کی گئی، ان کوششوں میں ہراساں کرنا، دھمکانا، تشدد، بلا جواز حراست، انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع تک رسائی میں پابندیوں یا ان کے انسانی، شہری اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہے۔

امریکی قرارداد کے خلاف قومی اسمبلی کی قرارداد
امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی، قومی اسمبلی میں قرارداد کی تحریک رکن اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے پیش کی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان، امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، ایوان فروری 2024 کے انتخابات میں پاکستانیوں کے ووٹ کے استعمال کے بارے میں ریمارکس پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ امریکی قرارداد مکمل طور پر حقائق پر مبنی نہیں ہے، پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے جو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔

متن میں کہا گیا ہے کہ ایوان، امریکا اور عالمی دنیا سے غزہ اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مشکلات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ امریکی کانگرس کو غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دینی چاہیے۔

قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ ایوان، امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر باہمی تعلقات کے فروغ کا خواہاں ہے اور مستقبل میں امریکی ایوان نمائندگان سے مثبت کردار کی توقع رکھتا ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1236673/
==========================================

امریکی کانگریس قرارداد پر ایران کا پاکستان سےاظہاریک جہتی
پاکستان کے الیکشن پر امریکی کانگریس کی قرار داد قابل مذمت ہے، ایرانی سفیر
شوکت پراچہ
17 گھنٹے پہلے
پاکستان
Join our Aaj English TV Whatsapp Channel
Facebook
Twitter
Whatsapp
Comments
پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری، فوٹو۔۔اے پی پی
امریکی کانگریس قرارداد پر ایران نے پاکستان سے اظہار یک جہتی کیا ہے۔ ایرانی سفیر رضا امیری موغادم نے پاکستان کے انتخابات سے متعلق امریکی کانگریس کی قرارداد کی مذمت کی ہے۔

ایرانی سفیر کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس قرارداد سے ملک بھر میں سوالیہ نشان بنتا ہے، اقوام متحدہ کے آزاد رکن میں انتخاب پر قرارداد آزاد رکن کے ملکی معاملات میں مداخلت ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ امریکی قرار داد جمہوریت کی حمایت کی آڑ میں ایک طرح سے بھتہ خوری ہے۔

پاکستان میں انتخابات میں تحقیقات کے امریکی مطالبے کیخلاف قرار داد منظور، اپوزیشن کے سائفر کے نعرے

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صیہونی حکومت کو ہر قسم کے مہلک ہتھیار فراہم کر کے غزہ کے عوام کی نسل کشی کی حمایت کی جاتی ہے، جدیدجاہلیت کےعجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی ملک جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کے ذریعے روکے۔

امریکی کانگریس میں پاکستان کے انتخابات میں دھاندلی کے دعوؤں کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کی قرارداد منظور

واضح رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان نے دو روز قبل بھاری اکثریت سے پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد انتخابی دھاندلی کے دعوؤں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے حق میں قرار داد منظور کی تھی۔ پاکستان کے فروری 2024 کے انتخابات میں مبینہ مداخلت یا بے ضابطگیوں کے دعوؤں کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کی قرارداد پر امریکی ایوان میں 7 کے مقابلے میں 368 امیدواروں نے ووٹ دیا تھا۔

امریکی ایوان نمائندگان کی قرار داد کے جواب میں جمعہ کو قومی اسمبلی نے انتخابات میں مداخلت کی تحقیقات سے متعلق امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کے خلاف قرارداد منظور کی۔ ایوان نے واضح کیا کہ بطور آزاد اور خود مختار ملک پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔
https://www.aaj.tv/news/30394853/

IRAN

ELECTION 2024

RESOLUTION IN CONGRESS

US CONGRESS PAKISTAN ELECTION
================================

وزیردفاع کے بیان کا انداز پاک افغان کے درمیان بہتر تعلقات کی علامت نہیں، مولانا فضل الرحمن

وزیردفاع کے بیان کا انداز پاک افغان کے درمیان بہتر تعلقات کی علامت ..
اسلام آباد – جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیر دفاع کے بیان کا انداز پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات کی علامت نہیں۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارے پاس راستے ہیں ہم بہتر تعلقات کی طرف جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاں ایسی جنگی تربیت کے نتیجے میں فیصلے ہوں گے تو پھر اسی طرح ہو گا، ایسے فیصلوں سے پھر خطے میں کوئی ہمارا دوست نہیں رہے گا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ نہ ہماری آنکھیں کھلی ہیں اور نہ ہی ہمارے دل کی آنکھیں کھلی ہیں۔
=====================

سرحد پار حملوں کی صورت میں ’نتائج‘ کا ذمہ دار پاکستان خود ہو گا، افغانستان

افغانستان کی وزارت دفاع نے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے دیے گئے بیان کے جواب میں کہا ہے کہ حملے کی صورت میں اسلام آباد خود ’نتائج‘ کا ذمہ دار ہوگا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں افغان وزارت دفاع نے لکھا ’پاکستان کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی کو بھی حساس معاملات پر حساس بیانات جاری کرنے کی اجازت نہ دے۔‘
’کوئی بھی کسی بھی جواز کے تحت ہماری سرحد کی خلاف ورزی کرے گا، وہ خود نتائج کا ذمہ دار ہوگا۔‘
جمعرات کو ایک غیر ملکی میڈیا ادارے نے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف سے انٹرویو میں سوال پوچھا کہ کیا پاکستان عسکریت پسندوں پر قابو پانے کے لیے افغانستان پر حملہ کرے گا، جس پر انہوں نے کہا ’پاکستان کی خودمختاری سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں ہے۔‘
وزارت دفاع نے واضح کیا کہ اپنی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف نہ استعمال ہونے کی اجازت دینا افغانستان کا اصولی مؤقف ہے۔
پاکستان افغانستان میں طالبان کی حکومت پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتا آیا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم پاکستان تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے افغانستان میں ٹھکانے موجود ہیں جو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
تاہم افغانستان نے الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے اور کہا ہے کہ سکیورٹی میں مسائل پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب رواں سال مارچ میں پاکستان نے افغانستان کی سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانوں کو فضائی حملے میں نشانہ بنایا۔
پاکستان کی جانب سے فضائی کارروائی صوبہ خیبرپختونخوا میں ہونے والے خود کش حملے کے ردعمل میں کی گئی تھی جس میں سات فوجی اہلکار جان سے گئے تھے۔
اگرچہ طالبان کی حکومت کہتی آئی ہے کہ اپنی سرزمین سے ٹی ٹی پی یا کسی اور عسکریت پسند گروپ کو پاکستان یا کسی اور ملک پر حملے کی اجازت نہیں دیں گے، تاہم حالیہ سالوں میں ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے اندر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

https://www.urdunews.com/node/869086
=====================

’یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے‘: قبائلی عوام ایک اور آپریشن سے نالاں مگر حکومت پُرعزم
مصنف,فرحت جاوید اور عزیز اللہ خان
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ماضی میں کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان کو یہ توقع نہیں تھی کہ ملک میں دہشتگردی ایک بار پھر بڑھے گی اور حال ہی میں اعلان کردہ آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں شدت پسندوں کے خلاف ایک نیا آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس پرحزب اختلاف کی جماعتوں سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے علاوہ خاص طور پر قبائلی عمائدین اور عوام نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشتگردی کی نئی لہر کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والے فوجی آپریشن پر سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین سے مشاورت جاری رہے گی۔

اس سوال پر کہ کیا یہ نیا آپریشن محض فوج کی طرف سے آنے والا ایک منصوبہ ہے اور ان کی حکومت مجبوراً اس کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے رہی ہے، خواجہ آصف نے کہا کہ ’حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور یہ ذمہ داری لینی بھی چاہیے۔ یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے۔‘

،ویڈیو کیپشن’دہشتگردی میں شدت کے بعد ہمیں ایک نئی صف آرائی کی ضرورت تھی‘، خواجہ آصف
پاکستان میں اب تک ہونے والے فوجی آپریشنز
ایسا پہلی بار نہیں کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان میں آپریشن کا آغاز کیا گیا ہو۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی بڑے اور چھوٹے آپریشنز ملک میں جاری رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بڑے فوجی آپریشنز سابق فاٹا کے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں کیے گئے۔

2007 میں خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف پہلا بڑا فوجی آپریشن ’راہ حق‘ کے نام سے شروع کرایا۔

2009 میں سوات میں سکیورٹی کی صورت حال ایک بار پھر اس وقت خراب ہو گئی جب ملا فضل اللہ منظر عام پر آئے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں فوج نے ’راہ راست‘ نامی آپریشن شروع کیا جو تین ماہ تک جاری رہا۔

جنوبی وزیرستان میں 2009 میں آپریشن ’راہ نجات‘ شروع کیا گیا جبکہ 2012 میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی آپریشن ’ضرب عضب‘، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شروع کیا گیا۔

2016 میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو آپریشن ’رد الفساد‘ کے نام سے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن شروع ہوا اور اس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا گیا تھا۔

،تصویر کا کیپشنگذشتہ دو دہائیوں میں متعدد فوجی آپریشنز کے دوران لاکھوں افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی
’ہم اِن آپریشنز کے نام سن سن کر تھک چکے ہیں‘
پاکستانی حکومت نے آپریشن کا اعلان تو کر دیا تاہم قبائلی علاقوں کے عوام اس فیصلے سے خوش نظر نہیں آتے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ضلع اورکزئی کے نوجوان خیال زمان کہتے ہیں کہ قبائلی علاقے کے لوگ آپریشنز کے نام سن کر سن کر تھک چکے ہیں۔ ’یہاں تک کہ اب وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں جو آپریشنز کیے گئے ان سے امن قائم نہیں ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ حکومت یہاں امن کے قیام اور علاقے کی ترقی کے لیے اب کوئی تیسرا راستہ اپنائے۔ ’میرا اپنا گھر تباہ ہوا ہے، یہاں تک کہ پورا گاؤں تباہ ہے۔ یہی حال باقی تمام علاقوں میں ہے، یہاں تک کہ بعض علاقوں میں تو لوگوں کی واپسی اب تک نہیں ہوئی اور اب ایک اور آپریشن کا اعلان کر دیا گیا ہے۔‘

ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے عبدالوہاب نے بھی بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کے ساتھ ساتھ ان کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کیا گیا لیکن ’قبائلی علاقوں میں تبدیلی انضمام سے آئی نہ ہی آپریشنز سے۔‘

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے محمد عثمان کہتے ہیں کہ انھیں اس بات پر حیرت ہے کہ ’ہر چند سال بعد ایک آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے، لیکن قبائلی علاقوں کی پسماندگی کی طرف توجہ نہیں جاتی۔ اس کے لیے حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہوتے۔‘

وزیر دفاع خواجہ آصف بھی قبائلی عوام کی جانب سے نئے آپریشن پر تحفظات کی وجہ ان علاقوں کی پسماندگی اور سابق فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم ہوتے وقت کیے جانے والے وعدوں پر عملدرآمد نہ ہونا بتاتے ہیں۔

اس سوال پر کہ مقامی عوام کے عدم اعتماد کے بغیر آپریشن کیسے کامیاب ہوگا، خواجہ آصف نے کہا کہ ان کی ترقی کے لیے مختص رقم اور منصوبہ بندی میں کوتاہی کی گئی ہے۔ تاہم ان کے مطابق قبائلی عوام کا ایک بڑا حصہ اس آپریشن کے خلاف نہیں ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر اعظم اور فوجی قیادت کے خیالات اپنی جگہ، عوامی سطح پر ردعمل اس بار شدید ہے اور عملی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً ضلع کرم میں چمکنی قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں اگر کسی نے نقل مکانی کی تو انھیں دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔

سابق قبائلی علاقوں کی سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کی مخالفت کی ہے ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشنقبائلی عمائدین اور شہریوں کی جانب سے فی الحال اس آپریشن سے متعلق تحفظات کا اظہارکیا جا رہا ہے۔
وزیرستان میں وانا اولسی پاسون کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ جلد احتجاج اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کریں گے۔ دیر امن جرگے میں آپریشن کی مخالفت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ’شدت پسند سرنگوں سے نہیں آتے، ان کی کڑی نگرانی اداروں کی ذمہ داری ہے۔‘

پشاور میں حکومتی سطح پر منعقد قبائلی امن جرگہ میں آپریشن کی مخالفت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس پر پارلیمان میں بحث کی جائے۔

لیکن سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز، خاص طور پر ان علاقوں کی سیاسی اور قبائلی قیادت، کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟

وزیر دفاع اس تاثر کو رد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پہلی باقاعدہ بحث ایپکس کمیٹی میں ہوئی جہاں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، سینیئر بیورکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ موجود تھے۔ ’سب کے نمائندے تھے، پھر کابینہ میں معاملہ آیا، وہاں بھی سب لوگ تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایپکس کمیٹی کی میٹنگ میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلی نے ’کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا۔

’ہو سکتا ہے کہ انھیں مزید اس آپریشن کی تفصیلات کا حصہ بنایا جائے تو وہ بھی راضی ہو جائیں۔‘

خواجہ آصف نے اس تاثر کو رد کیا کہ قبائلی علاقوں سے ان سیاسی جماعتوں سے مشاورت نہیں کی گئی جن کا وہاں ووٹ بینک ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مزید بات چیت کی جا سکتی ہے۔

سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا اعلان ہوتے ہی اس کی مخالفت کی وجہ ’ماضی میں کیے گئے آپریشنز، ان سے پیدا ہونے والی لوگوں کی مشکلات اور تکالیف ہیں جو اب تک یہاں کے عوام کے ذہن میں ہیں۔‘

مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ انھیں اس آپریشن کی کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے کیونکہ ’اس کے اعلان کے ساتھ ہی اسے متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔

’سیاسی جماعتوں نے (اسے) مسترد کر دیا ہے اور عوامی سطح پر بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے اب تک کوئی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ یہ آپریشن کن علاقوں میں ہوگا، کس سطح پر ہوگا اور اس کو کیسے کامیاب کیا جا سکتا ہے۔‘

’انٹیلی جنس معلومات پر آپریشن تو پہلے سے جاری ہے، ایک نیا نام کیوں؟‘
حکومت کا کہنا ہے کہ آپریشن عزم استحکام دراصل ’انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی ٹارگٹڈ کاروائیاں‘ ہوں گی۔

تاہم پاکستان میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز، جن کا آغاز سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا تھا، کئی سالوں سے جاری ہیں۔ ایسے میں اسی طرز پر ایک نیا نام دے کر نئے آپریشن کا آغاز کیوں کیا جا رہا ہے؟

یہ وہ سوال ہے جو سابق فاٹا سمیت خیبر پختونخوا کے شہریوں کی جانب سے سامنے آ رہا ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دہشتگردی کی حالیہ لہر سے نمٹنے کے لیے نئے جذبے اور شدت کے ساتھ آپریشن کی ضرورت ہے۔ ’اس لانچنگ کی ایک نئے جذبے کے ساتھ ضرورت تھی۔ دہشت گردی کے واقعات میں گذشتہ ایک سال میں جو شدت آئی اس کے بعد نئی صف آرائی کی ضرورت تھی اور اس لڑائی کے لیے اپنے لائنز ری ڈرا کرتے۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ آپریشن سے کوئی نقل مکانی نہیں ہوگی، بلکہ آپریشن انٹیلیجنس کی بنیادوں پر کیا جائے گا۔ جبکہ قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبر پختونخوا کے کچھ بندوبستی علاقوں میں پہلے سے ہی انٹیلیجنس کی بنیاد پر کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔

وزیر دفاع کہتے ہیں کہ انھیں (فوج اور حکومتوں کو) توقع تھی کہ دہشت گردی دوبارہ نہیں پھیلے گی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ گذشتہ ایک دہائی میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جو بڑھتی دہشتگردی کا باعث بنے۔ ان کے مطابق اس میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کا انخلا اور پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے دوران ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ملک واپس لانا شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں امید تھی کہ افغان حکومت ہم سے تعاون کرے گی مگر وہ ان (طالبان عسکریت پسندوں) کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے کیونکہ وہ ان کے اتحادی تھے۔

’ہم نے کہا کہ کوئی تو حل نکالیں۔ ان کی مغربی سرحد کی طرف نقل مکانی کرانے پر بھی بات ہوئی اور تقریبا دس ارب روپے دینے کو تیار تھے۔ مگر خدشہ تھا کہ یہ وہاں سے بھی واپس آ سکتے ہیں۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ طالبان سے بات چیت کے بعد ان کے چار سے پانچ ہزار لوگوں کو واپس لانے کا تجربہ ناکام ہوا اور ’طالبان کے وہ ساتھی جو افغانستان سے کاروائیاں کر رہے تھے انھیں پاکستان میں پناہ گاہیں مل گئیں۔ اب وہ آتے ہیں، ان کے گھروں میں رہتے ہیں اور پھر کارروائیاں کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ جن کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں، ان میں واپس آنے والے طالبان جنگجو بھی شامل ہیں۔

،تصویر کا کیپشنرواں برس بشام میں مبینہ خودکش حملے میں پانچ چینی باشندوں کی ہلاکت کے بعد چین نے سخت ردعمل دیا تھا
کیا ایک نیا آپریشن چین کے دباؤ کی وجہ سے کیا جا رہا ہے؟
حال ہی میں چینی شہریوں پر حملوں کے بعد یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان کو چین کی جانب سے ان کے شہریوں اور سی پیک منصوبوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔

لیکن وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ چین کی طرف پاکستان پر یہ آپریشن شروع کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔

’ان کا یہ دباؤ ضرور ہے کہ وہ یہاں اپنی سرمایہ کاری دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، سی پیک ٹو کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے سکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں۔ انھیں اچھا لگے گا کہ پورا پاکستان محفوظ ہو، مگر فی الحال وہ چاہتے ہیں کہ جہاں جہاں ان کے لوگ ہیں، اور ان کا کام ہے، وہ محفوظ ہوں۔‘

اس سوال پر کہ کیا اس آپریشن کے ذریعے چینی منصوبوں کو سکیورٹی تھریٹ پر بھی قابو پایا جائے گا، خواجہ آصف نے کہا کہ ’ان کے خلاف تھریٹ پر بھی کام ہوگا مگر اس فوجی آپریشن کا مقصد عام پاکستانی شہریوں کو تحفظ دینا ہے۔‘

چین کے پاکستان میں سی پیک منصوبے سے جڑے حملوں میں بلوچستان سے علیحدگی پسند تحریکوں اور عسکریت پسند تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا بلوچستان میں ان تنظیموں سے بھی بات چیت کے دروازے کھولے جائیں گے، خواجہ آصف نے کہا کہ ’اگر وہ پاکستان کے فولڈ میں آنا چاہتے ہیں، اور بین الاقوامی کوہیژن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو کیوں نہیں۔ ہم بالکل ان سے بات کرنے کو تیار ہیں۔‘

’ہم انھیں یہ نہیں بتا سکتے کہ ہم آ رہے ہیں، آپ تیاری کر لیں‘
پاکستانی وزیر دفاع نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔

انھوں نے افغانستان کی سرحدی حدود کے اندر پاکستان کی جانب سے کی گئی فوجی کارروائیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بالکل ہم نے ان کی سرحد کے اندر کارروائیاں کی ہیں کیونکہ ان کی سرزمین سے لوگ آ کر یہاں پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں، تو ہم نے انہیں کیک، پیسٹری تو نہیں کھلانی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسی کارروائیوں میں حملہ آوروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ کہ پاکستان مستقبل میں بھی یہ عمل جاری رکھے گا۔

اس سوال پر کہ عالمی سرحدی قوانین کے مطابق کیا پاکستان افغان حکومت کو ایسی کسی بھی کارروائی سے پہلے اطلاع دیتا ہے، وزیر دفاع نے کہا کہ ’ایسا نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے سرپرائز کا عنصر ختم ہو جائے گا۔ ہم انھیں یہ نہیں بتا سکتے کہ ہم آ رہے ہیں، آپ تیاری کر لیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c97d1dl943jo
متعلقہ عنوانات
پاکستانی فوج
قبائلی علاقہ جات
تحریکِ طالبان پاکستان
خیبر پختونخوا
پاکستان
طالبان
عدالتیں
===========================================

جب نادر شاہ دلی سے 30 ارب ڈالر کا مال لوٹ کر لے گیا
ایک کتاب کے مطابق نادر شاہ نے دلی سے جو کچھ لوٹا اسے واپس ایران لانے کے لیے ایک ہزار ہاتھی، 10 ہزار اونٹ اورسات ہزار گھوڑے استعمال کیے گئے۔

سجاد اظہر @Sajjadazhar99

نادر شاہ دلی میں دنگوں کے دوران اپنے سپاہیوں کا قتل عام دیکھ رہے ہیں (رومانس آف ایمپائر، سورڈج وکٹر، 1909)

نادر شاہ 1739 میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس وقت ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ اکبر اور اورنگ زیب عالمگیر کے عہد تک ہندوستان دنیا کی مجموعی پیداوار کا 27فیصد پیدا کرتا تھا۔

امریکہ آج کی تاریخ میں دنیا کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 25 فیصد پیدا کرتا ہے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب ہندوستان دنیا بھر میں سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور ہوا، لیکن پھر مغل سلطنت تخت و تاج کی پے در پے جنگوں میں الجھ گئی۔

اورنگ زیب عالمگیر کی 1707 میں وفات کے بعد صرف 12 سال میں تین بادشاہ بدلے گئے۔ کمزور ہوتی مغل سلطنت کی کمزوریاں سب پر عیاں ہوئیں تو بیرونی حملہ آوروں نے بھی راستہ دیکھ لیا۔

اس کے بعد جو دن بھی آیا مغل سلطنت سکڑتی چلی گئی۔ نادر شاہ کے حملے نے تو گویا دلی کو اجاڑ کر رکھ دیا۔

نادر شاہ ہندوستان پر کیوں حملہ آور ہوا؟

1736 میں جب نادر شاہ ایران کا بادشاہ بنا تو دلی کے تخت پر محمد شاہ المعروف رنگیلا کو برسر اقتدار ہوئے 17 برس گزر چکے تھے۔

1737 میں نادر شاہ نے اپنا ایک سفیر مغل دربار میں بھیجا، جس کا مقصد مغلوں کو نادر شاہ کے باغی افغان سرداروں کو پناہ دینے سے روکنا تھا۔

مگر نادر شاہ کے سفیر کو کئی ماہ تک محمد شاہ نے اپنے دربار میں ملاقات کا شرف ہی نہیں بخشا اور جب ملاقات کے لیے بلایا بھی تو اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا۔

نادر شاہ افغان باغیوں کی سرکوبی کرتے ہوئے قندھار فتح کر چکا تھا۔ اسے مغل دربار میں اپنے سفیر کی بے عزتی پر بہت رنج تھا چنانچہ وہ شیر کی طرح دھاڑتا ہوا ہندوستان پر چڑھ دوڑا۔

راستے میں جو شہر اور بستی آئی وہ نادر شاہ کے غیظ و غضب سے بچ نہیں سکی۔

دلی میں قتل عام کیوں ہوا؟

مغلوں نے دلی سے 120کلومیٹر پہلے کرنال میں نادر شاہ کے لیے میدان جنگ کا انتخاب کیا، جہاں نادر شاہ کے مقابلے میں دوگنی مغل فوج مقابلے پر آئی۔

24 فروری، 1739 میں جنگ ہوئی تو صرف تین گھنٹے میں نادر شاہ کی فوج نے 30,000 مغل فوجی مار دیے۔ مغل فوج نے اپنی ہی زمین پر ہتھیار ڈال دیے۔

لاک ہارٹ اپنی کتاب ’نادر شاہ‘ میں لکھتے ہیں کہ قریب تھا کہ نادر شاہ کرنال سے ہی بھاری تاوان لے کر واپس ایران چلا جاتا مگر مغل فوج کی باہمی چپقلش کی وجہ سے اسے مشورہ دیا گیا کہ تاوان کی یہ رقم بہت معمولی ہے اگر وہ دلی چلا جائے تو وہاں مال و دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں۔

نادر شاہ جب 20 مارچ، 1739 میں ایک فاتح کی حیثیت سے دلی میں داخل ہوا تو اس کا شایان شان استقبال ہوا۔

ایک سو ہاتھی اس کے جلوس کی قیادت کر رہے تھے اور ہر ہاتھی پر اس کی خصوصی دستے تعینات تھے۔

فاتح بادشاہ کا قافلہ جب شاہی قلعہ پہنچا تو توپوں کے گولے داغ کر اسے سلامی دی گئی۔ اگلے دلی میں عید الا ضحی ٰتھی۔

دہلی کی مساجد میں نمازِ عید کا خطبہ نادر شاہ کے نام پر پڑھا گیا۔ شام کو نادر شاہ، محمد شاہ کو عید کی مبارک باد دینے محل میں گیا۔

اسی دوران شہر میں افواہ پھیل گئی کہ نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ افواہ کے پھیلتے ہی شہر میں نادر شاہ کے سپاہیوں کا قتل شروع ہو گیا۔

محمد شاہ کے منصب داروں اور امرا نے بھی اس قتل و غارت کو روکنے میں سرگرمی نہیں دکھائی۔

اس طرح شہریوں نے تین سے سات ہزار کے قریب ایرانی سپاہی قتل کر دیے۔ یہ قتل وغارت رات بھر جاری رہی۔

اگلی صبح جب نادر شاہ اپنے محافظوں کے ساتھ شہر کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے نکلا تو چاندنی چوک میں اس پر کسی نے فائر کر دیا جس سے اس کا ایک عہدے دار مارا گیا۔

نادر شاہ اس پر بہت غصے میں آ گیا اور اس نے جامع مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر حکم دیا کہ جس محلے میں ایک بھی قزلباش سپاہی مارا گیا ہو وہاں کوئی بھی شہری زندہ نہیں بچنا چاہیے۔

اس کے بعد نادر شاہ کی فوجوں نے شہر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔

دہلی میں اس قتل عام میں کتنے لوگ لقمہ اجل بنے اس کی درست تعداد تو معلوم نہیں لیکن مؤرخین اسے 20 ہزار سے چار لاکھ کے درمیان بیان کرتے ہیں۔

دلی سے کیا کچھ نادر شاہ کے ہاتھ آیا؟

جیمز فریزر کی کتاب ‘History of Nadir Shah‘ میں، جو 1742 میں لندن سے شائع ہوئی، لکھا گیا کہ نادر شاہ نے دلی سے جو کچھ لوٹا اسے واپس ایران لانے کے لیے 1,000 ہاتھی، 10,000 اونٹ اور7,000 گھوڑے استعمال کیے گئے۔

مال و اسباب اتنا زیادہ تھا کہ اس نے ایران جا کر تین سال کے لیے رعایا کے تمام ٹیکس معاف کر دیے۔

اس خزانے کی تفصیلات درج ذیل ہیں :

شاہی خزانے سے لوٹے گئے ہیرے جواہرات کی مالیت: 25 کروڑ انڈین روپے

تخت ِ طاؤس: نو کروڑ انڈین روپے

سونے اور چاندی کے سکے: 25 کروڑ انڈین روپے

سونے اور چاندی کے برتن: پانچ کروڑ انڈین روپے

ریشمی و قیمتی ملبوسات: دو کروڑ انڈین روپے

گھریلو فرنیچر، مصوری کی شاہکار تصاویر اور استعمال کی چیزیں: تین کروڑ انڈین روپے

قیمتی ہتھیار: ایک کروڑ انڈین روپے

یہ کل ملا کر اُس وقت کے تقریباً 70 کروڑ انڈین روپے بنتے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق اس پیسے کی موجودہ دور کی مالیت کا اندازہ لگانا ہو تو یہ آج کے حساب سے 30 ارب ڈالر کی رقم بنتی ہے۔

مزید پڑھیے

مغل ملکہ گیتی آرا، جو جہیز میں 11 ہزار عورتوں کی فوج لائی

100 سال پہلے کوہاٹ میں کیا ہوا تھا؟

راجہ نادر خان ماندلہ: ایک حریت پسند جس کے کردار کو تاریخ سے مٹا دیا گیا

دلی: جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اتنی مالیت تو صرف ہیرے جواہرات کی تھی، مجموعی مالیت تو 100 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی بنتی ہے۔

صرف تخت طاؤس ہی اتنا قیمتی تھا کہ شاہجہان کے دور میں اسے بنایا گیا تو اس پر تاج محل سے دوگنی لاگت آئی۔

نادر شاہ کوہ نور ہیرا بھی ساتھ لے گیا۔ اس کی موجودہ مالیت تقریباً 12 ارب ڈالر کے قریب ہے۔

جو ہیرے جواہرات نادر شاہ اپنے ساتھ ایران لے گیا ان میں دنیا کا بیش قیمت کوہ نور بھی تھا، جس کا وزن 105.6 قیراط تھا۔

189.6قیراط کا اورلوف ہیرا جو آدھے انڈے جیسا ہے اور جس میں سبز رنگ کی دھاریاں بنی ہوئی ہیں، یہ آج کل ڈائمنڈ فنڈ ماسکو کی ملکیت ہے۔ 88.7 قیراط کا شاہ ہیرا بھی اسی فنڈ کے پاس ہے۔

گولکنڈہ ہیرا کا وزن 95.4 قیراط ہے اور یہ آج کل ملبرن آسٹریلیا میں ہے۔

182قیراط کا دریائے نور، 115قیراط کا تاج ماہ اور 60 قیراط کو نو ر الامین ہیرا یہ تینوں اس وقت ایران کے مرکزی بینک کے پاس ہیں۔

54 قیراط کا شاہجہان ہیرا کویت کے شیخ نصیر الصباح کے پاس ہے۔ 73.6 قیراط کا اکبر شاہ ہیرا اس وقت انڈیا کی برودہ فیلی کی ملکیت ہے۔

361 قیراط کا تیموری یاقوت بھی برطانیہ کے شاہی خاندان کی ملکیت ہے۔
https://www.independenturdu.com/node/172021