ایک لاپتہ شہر کا سراغ

ڈاکٹر توصیف احمد خان جمعرات 20 جون 2024
===================

معروف سماجی سائنس دان ڈاکٹر جعفر کی زیر نگرانی شایع ہونے والی رمضان بلوچ کی کتاب ’’تاریخ ‘‘ حقائق سے بھرپور ہے، رمضان بلوچ لیاری کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1947 میں سندھ کی بلدیہ میں افسر ہوئے۔ اندرونِ سندھ خدمات انجام دیں۔نوجوانی میں ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے، لیاری اسٹوڈنٹس فیڈریشن، بی ایس او اور این ایس ایف میں متحرک رہے، نیشنل عوامی پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

جنرل ایوب خان حکومت کے خلاف میر بانی بلوچ کی قومی اسمبلی کی انتخابی مہم اور پھر میر غوث بخش بزنجو کی صوبائی اسمبلی کی مہم میں بھی شریک رہے۔ چند سال قبل رمضان بلوچ کی اردو کی کتاب ’’ لیاری کی ادھوری کہانی‘‘ شایع ہوئی تو ایک عوامی مؤرخ کے طور پر ابھرے۔

اس کتاب کی تقریب رونمائی کراچی پریس کلب میں ہوئی تھی۔ لیاری کے ایک سینئر صحافی صدیق بلوچ نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا تھا کہ طالب علمی کے زمانہ میں ایک خاموش کارکن کی حیثیت سے رمضان بلوچ سے واقف ہیں مگر ان کی کتاب ’’ لیاری کی ادھوری کہانی‘‘ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں اور بچپن سے رونما ہونے والے واقعات کو اپنے دماغ کے کمپیوٹر میں محفوظ رکھتے تھے اور خوبصورت زبان میں اس وقت رونما ہونے والے واقعات کو سیاق و سباق کے ساتھ بیان کیا۔
یہ کتاب 306 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ کراچی کی ابتداء کے بارے میں سندھی اور بلوچ بیانیہ کو پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب کے پہلے باب میں کراچی کے ارتقاء کو مفصل اور جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ ان ابواب میں کلہوڑا خاندان سے قیامِ پاکستان تک کے اہم واقعات شامل کیے گئے ہیں۔ صرف سیاسی واقعات نہیں بلکہ ادب اور صحافت کے موضوعات کو بھی شامل کیا ہے۔ کتاب کے باب 9 میں کراچی کی انگریزی اور سندھی صحافت کا ذکر ہے۔ اس عرصے میں شایع ہونے والے سندھی اخبارات کی فہرست بھی شامل کی گئی ہے اور مصدقہ ریفرنس بھی درج کیے گئے ہیں۔ کتاب کا باب 10 ’’ ماقبل تقسیمِ ہند، سیاست کے اتار چڑھاؤ ‘‘کا احاطہ کرتا ہے۔

اس باب کا آغاز 1857 کی جنگ آزادی، 14 دسمبر 1857کو کراچی میں مقیم انفنٹری کی 21 رجمنٹ کے چند ہندوستانی سپاہیوں کی بغاوت کا ذکر ہے۔ ان سپاہیوں کو کراچی صدر میں توپ کے دہانے پر باندھ کر پھانسی دی گئی تھی۔ ایک اور عوامی مؤرخ اختر بلوچ کی تحقیق کے مطابق پھانسی کے مقام پر بعد میں انگریزوں نے ایمپریس مارکیٹ تعمیر کی۔ مولانا عبیداﷲ سندھی کی انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی ریشمی رومال تحریک کا ذکر ہے۔ لیاری (مولانا صادق کا مدرسہ ) ریشمی رومال تحریک کا ایک مرکز تھا۔

تحریک آزادی کے رہنما مولانا محمود حسن دیو بندی کی سوانح عمری میں تحریر کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ کے واحد رہنما حاجی عبداﷲ ہارون نے مولانا ابو الکلام آزاد کے خط پر مولانا عبیداﷲ سندھی کو مالی امداد دی تھی۔ رمضان بلوچ نے ان حقائق کو شامل کر کے نئی نسل کو تحریک آزادی کی حقیقی تاریخ سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خلافت تحریک کا ذکر ہے اور انھوں نے معروف مارکسی دانش ور حمزہ علوی کی خلافت تحریک پر تنقید کا بھی ذکر کیا ہے جو انتہائی اہم ہے۔

حمزہ علوی نے خلافت تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خلافت تحریک نے ہندوستان کی سیکولر سیاسی تحریک میں مذہب کے عنصر کو شامل کیا۔ مصنف نے یہ بھی حقیقت بیان کردی کہ محمد علی جناح نے خلافت تحریک پر تنقید کرتے ہوئے سیاست میں مذہب کے اس استعمال سے اختلاف کیا ہے۔

مرزا عبدالقادر بیگ کی کتاب کی مدد سے اس حقیقت کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ خلافت تحریک ہند کے مسلمان رہنما عرب ممالک میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں اور ترکی میں خلافت کے خلاف پائے جانے والے عوامی جذبات سے بے خبر تھے۔ مصنف نے ضمیر نیازی کی کتاب ’’ صحافت پابند سلاسل‘‘ کا درست حوالہ دیا ہے کہ بیرسٹر محمد علی جناح کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن کی اساسی تقریر کو سنسرکرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر اس کے علاوہ اور بہت کچھ ہوا۔ مسلم لیگ کے صدر بیرسٹر محمد علی جناح کو آئین ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا اور ایک اور قرارداد کے ذریعہ یہ نوٹی فائی کیا گیا کہ آج سے بانی پاکستان کو قائد اعظم کہا جائے۔

اگرچہ اس آئین ساز اسمبلی نے اپنا عارضی اسپیکر بنگالی اقلیتی رکن منڈل کو بنایا، انھوں نے تمام اراکین سے حلف لیے مگر جب بنگالی اراکین اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ انھیں بنگالی میں تقریرکی اجازت دی جائے تو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے واضح کیا کہ اسمبلی کے قواعد و ضوابط اس کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ حقیقت ہے کہ جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کی تھی کہ ہندوستان کے مسلمان سندھ میں آباد ہوجائیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھیوں نے مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے تھے۔ جب سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو نے یہ مؤقف اختیارکیا کہ ملازمتوں، زراعت اور تجارت کے شعبوں میں گنجائش کم ہے اس لیے ہمیں سندھ میں مزید مہاجر نہیں چاہئیں۔

مصنف نے باب 18 میں ’’ کراچی دارالحکومت کیسے بنا‘‘ میں لکھا ہے کہ 10 فروری 1948 کو سندھ اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد میں کراچی کا شہری کنٹرول سندھ انتظامیہ سے لے کر مستقل طور پر پاکستان کی مرکزی حکومت کے سپرد کرنے کی مذمت کی توگورنر جنرل بیرسٹر محمد علی جناح نے ایوب کھوڑو حکومت کو برطرف کیا اور کراچی کو مرکز کے حوالے کر دیا گیا۔

آئی اے رحمن نے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ معاملات کسی اور سمت میں جا رہے تھے، یوں سندھیوں کے حقوق غضب کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مصنف نے باب 24 میں ’’ بھٹو آئے اور چھا گئے‘‘ میں لکھا ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی رہنما پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ ان میں معراج محمد خان بھی شامل تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کراچی کے طلبہ اور روشن خیال حلقوں میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت بڑی حد تک معراج محمد خان کی شخصیت ہے۔ مزید یہ بھی لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب جب راولپنڈی سے ریل کے ذریعے کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچے تو ان کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ اس جلوس میں اردو بولنے والے نوجوانوں کی اکثریت شامل نہیں تھی۔

ان کی اس بات کو جانچنے کے لیے ہمیں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا۔ این ایس ایف نے سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو عام پبلک سے روشناس کرایا۔ این ایس ایف کا کنونشن کاسمو یونین کلب میں منعقد ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کنونشن میں تقریر سے کراچی میں اپنی تحریک کا آغازکیا تھا۔ بقول ڈاکٹر ٹیپو سلطان، ذوالفقارعلی بھٹو کو ڈاؤ میڈیکل کالج میں این ایس ایف کے پروگراموں میں مدعوکیا گیا۔

بائیں بازو کی مزدور تنظیموں نے پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت کی تھی۔ مزدور رہنما طفیل عباس کی قیادت میں قومی مزدور محاذ کے کارکن پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے مگر 1970میں عام انتخابات کا مرحلہ آیا توکمیونسٹ پارٹی چین نواز نے جس کی قیادت طفیل عباس کررہے تھے، نکسل رہنما چارو مجمدار کے فلسفہ کو اپناتے ہوئے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ مگر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور پرچی کے بجائے پرچھی کا نعرہ عام کیا۔

اگر کمیونسٹ پارٹی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ نہ کرتی تو معراج محمد خان، ڈاکٹر نسیم، زین الدین خان، طارق عزیز، ابرار الحسن اور کئی رہنما مہاجر بستیوں کے علاقوں سے کامیاب ہوجاتے اور انتخابی صورتحال تبدیل ہو جاتی۔ اردو بولنے والی برادری سے تعلق رکھنے والی سید سعید حسن، عبدالوحید عرشی اور قاسم پٹیل وغیرہ صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا درست فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے سے اردو کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا مگر دو مذہبی جماعتوں اور رئیس امروہوی جیسے دانشوروں نے بلاوجہ اردو بولنے والوں میں اشتعال پیدا کیا جس کی بناء پر قیمتی جانیں ضایع ہوئیں اور نئے تضادات پیدا ہوئے جس کا فائدہ پی این اے نے 1979 کی تحریک میں اٹھایا۔کراچی کے مسئلہ کا حل مکمل خود مختار بلدیہ کراچی کے قیام میں مضمر ہے۔ پورے شہر میں صرف سپر بلدیہ کراچی ہونی چاہیے، کنٹونمنٹ ختم ہونے چاہئیں اور یونین کونسل کو بنیادی مسائل کے حل کے لیے مکمل بااختیار ہونا چاہیے۔

اس کتاب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اشعار کا بہترین چناؤ کیا ہے، یوں قاری خشک موضوع کو پڑھتے ہوئے جب یہ اشعار پڑھتا ہے تو مزا دوبالا ہوجاتا ہے۔ عوامی مؤرخ رمضان بلوچ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ امید ہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل ریسرچ اس طرح کی کتابیں شایع کرتا رہے گا۔
https://www.express.pk/story/2654156/268/