نمائندگان کشیمر ہاؤس میں عوام، لاشے اٹھائے ماتم کناں۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی

شاباش آزاد کشمیر کے عوام، مرحبا جوائنٹ ایکشن کمیٹی، سلام شہداء تحریک بنیادی حقوق اور خراج تحسین ان ورثہ جن کے نوجوانوں کے خون اور لازوال جدوجہد نے کامیابی اور کامرانی سمیٹی۔ یہ کامیابی صرف آٹا اور بجلی کا سستا ہونا ہی نہیں بلکہ قومی تحریک اور تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ بظاہر تو یہی کہا جائے گا کہ طویل جدوجہد اور جوانوں کا خون دینے کے بعد آزاد جموں و کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ منوانے میں کامیاب ہوئی، لیکن حقیقت میں اشرافیہ یہ سمجھ ہی نہیں سکی کہ ہوا کیا ہے یا ان کے پاس دوسرا کوئی آپشن باقی نہیں رہا تھا اس جم غفیر کو مظفرآباد سے واپس بھجنے کو۔ آزاد کشمیر کے عوام نے کشمیر کی قومی تاریخ میں چار دن کے دوران جو کامیابی حاصل کی چھ دن پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دنیا اور اس ریجن میں پہلے بھی بہت لانگ مارچ ہوئے لیکن آزاد کشمیر کے عوام کا یہ لانگ مارچ اس خطے میں اور خاص طور پر کشمیریوں کی سیاسی و تحریکی زندگی میں نئی روح پھونکے گی۔اس لانگ مارچ کے تحریک آزادی کشمیر پر بھی مثبت اثرات پڑیں گے۔ کشمیریوں کا وکیل جو ماضی بھول جانے کا مشورہ دیتا تھا، سوچنے پر مجبور ہو گا کہ یاد ماضی عذاب ہے یا رب کے مصداق حافظے کی موجودگی میں یہ بھولنے کے لیے تیار نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ساری افواہیں دم توڑ جائیں کہ آزاد کشمیر کا جھنڈا لپیٹنے پر غور ہو رہا ہے کوئی علاقہ ہزارہ اور کوئی مری میں ضم ہو رہا ہے اور کسی کو عبوری صوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر کسی جگہ یہ سوچ بچار تھی بھی تو ماہرین تقسیمیات کشمیر اپنے فکر پر ازسرنو غور کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ہزاروں کشمیریوں کو بھارتی ٹارچر سیلوں میں چھوڑ کر تجارت بحال کرنے کی جلدی کرنے والوں کو بھی جھٹکا لگا ہو گا اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے لاکھوں افراد کی بے کسی پر خاموش رہنے والوں کو بے چینی ہوئی ہو گی۔ ممکن ہے حریت کانفرنس کے حوصلے بلند ہوئے ہوں ان کے زیر لب جو بات ہے وہ زبان پر آ جائے بالکل اسی طرح جس طرح علی گیلانی ایمان کی تازگی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے اور ڈاکٹر غلام نبی فائی کو اسلام آباد میں آ کر کہنا پڑا کہ بھارت سے سبق سیکھو۔ اس لانگ مارچ سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہو گی کہ آزاد کشمیر کے ہمارے بھائی فرنچائز میں تقسیم ہونے کے باوجود بے دار ہیں۔ قارئین آج کے ایچ خورشید کی روح بہت خوش ہوئی ہو گی جو ہمیشہ کہتے تھے کہ پونچھ کے غیور لوگ باہر نکلیں گے تو کشمیری ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور دنیا ان کی بات سنے گی۔ راولاکوٹ سے شروع ہونے والی اس تحریک کے ساتھ سارے آزاد کشمیر کے عوام جڑھے اور صرف چار دن کے دوران دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا اور گلگت بلتستان کے عوام نے بھی نعرہ مستانہ بلند کیا کہ ہم اپنے ہم وطنوں پر زیادتی برداشت نہیں کریں گے۔ یہ یکجہتی 76 برسوں میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی۔ احساس ہو رہا ہے کہ آزاد کشمیر کا نوجوان بے دار، سمجھدار، انقلابی اور پرامن ہے۔ بلآخر وقت نے ثابت کیا کہ جو بات ہم کئی برسوں سے لکھ رہے تھے کہ پاکستانی فرنچائز کے قیام کے بعد آزاد کشمیر میں کشمیری سیاست اور قیادت کا جنازہ نکل چکا، اسی باعث مودی مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، سچ ثابت ہوئی۔ جب آزاد جموں و کشمیر کے عوام سڑکوں پر تھے تو فرنچائز قیادت آقاؤں کی طلبی پر اسلام آباد میں ایک ایوان صدر اور دوسری ایوان وزیراعظم میں اجلاس کے بہانے ہائی ٹی نوش فرمانے میں مصروف تھی۔ جب کہ تیسرا گروپ پریس کانفرنس کر کے دل کے پھوپھولے پھوڑ رہا تھا۔ مظفرآباد میں جب عوام اور رینجرز آمنے سامنے ہوئے تو سارے نمائندے کشمیر ہاوس اور عوام سڑکوں پر لاشے اٹھائے ماتم کناں تھے۔ خواجہ فاروق احمد سے تو مجھے ہمدردی ہے کہ کافی عرصہ میرے قائد کے ساتھ رہا لیکن شہداء کے نماز جنازہ سے باہر نکالنا اس لیے ضروری تھا کہ جب مظفرآباد آباد کے نوجوانوں کا خون سڑکوں پر گر رہا تھا خواجہ صاحب نہ معلوم مقام پر تھے۔ یہ وہ ہی خواجہ فاروق احمد ہے جس نے اقتدار کی خاطر کشمیر کی آزادی اور مقبوضہ کشمیر کی آواز بننے کے بجائے سلطان محمود چوہدری کے ساتھ مل کر جموں و کشمیر کے عوام کی آواز لبریشن لیگ میں دراڑ ڈالی تھی۔ یہ بات تو طہ ہو چکی کہ آزاد کشمیر کے عوام نے پاکستانی سیاسی فرنچائز، مسلط کردہ حکومت اور” کٹھ پتلی” اسمبلی کو مسترد کردیا ہے۔ جب کہ راولاکوٹ میں غیر سیاسی، غیر ریاستی اور غیر منتخب حکام کے ساتھ مذاکرات کو ختم کرنا بھی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کی عقل مندی تھی۔ گو کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میں کوئی نامور سیاسی مدبر یا تجربہ کار افراد نہیں لیکن جو بھی تھے ان میں اخلاص تھا تب ہی غیر ملکی آلہ کار اور را کے ایجنٹ ہونے کے الزامات کے باوجود ڈٹے رہے اور مقصد میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان اور خاص طور پر آزاد کشمیر میں حقوق کی بات کرنے والوں کو را کا ایجنٹ کہہ کر دبا دینا معمول ہے۔ اس بار بھی راولاکوٹ کی دیواروں پر بھارتی جھنڈے چسپا کئے گئے۔ راجہ فاروق حیدر، شاہ غلام قادر اور میاں عبدالوحید سمیت متعدد شخصیات نے ایکشن کمیٹی کے پیچھے کسی غیر ملکی طاقت کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے۔ تاہم میاں عبدالوحید کے علاوہ کسی شخصیت نے اپنے ان بیانات کی تردید نہیں کی۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ترجمان کے مطابق مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کر کے ہم نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ یہ ایک طریقے سے ان افراد اور خاندانوں کے مفادات پر حملہ ہے اس لیے ایکشن کمیٹی پر الزامات لگنا فطری ہے۔ تاہم عوام نے ان الزامات کا کوئی اثر نہیں لیا اور یہ یہ طہ ہوا کہ یہ ہتھیار اب زنگ آلود ہو چکا آئندہ کسی نئے اوزار کو تراشنہ پڑھے گا لیکن کب تک۔ ذمہ داران کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ عوام کی فرسٹیشن تھی جو چار روز کے دوران دیکھی گئی اس دوران امن امان کا مثالی ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ عوام میں فرسٹیشن اپنی جگہ لیکن ابھی انتہاء کو نہیں پہنچی۔ البتہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ فرنچائز سیاست دانوں کی نااہلی تحریک آزادی کشمیر سے عدم دلچسپی کشمیریوں کے بنیادی اشوز پر خاموشی اور غیر فعال ہونے کی وجہ سے بھی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی پکار کو عوام نے پذیرائی دی۔ آزاد کشمیر کی 99% آبادی پاکستان کی سالمیت، خوش حالی اور استحکام پر یقین رکھتی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کی آزادی ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔ اگر مقبوضہ کشمیر کے بھائی بہنوں پر ہونے والے مظالم پر ہی دورخی اور دوغلی پالیسی ہو گی جس کے باعث علی گیلانی اور ڈاکٹر غلام نبی فائی جیسے لوگ بھی مایوس ہو جائیں تو پاکستانی قیادت کے بارے میں کشمیریوں کے کیسے جذبات ہونے چاہیے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس سے یہ بات عیاں ہوئی کہ آزاد کشمیر کے فرنچائز سیاست دان اپنے مرکز کے احکامات کے پابند ہونے کی وجہ سے فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں جب کہ قومی خزانے سے لوٹ مار، کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے بھی سینہ چوڑا کر کے حق سچ کی بات نہیں کر سکتے تو تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کسی مثبت کام اور تحریک کے فروغ کے لیے ان سے امید باندھنا عقل مندی نہیں۔ لہذا بے داغ اور بے دار قیادت کی ضرورت ہے جو کسی ریاستی سیاسی جماعت کے ساتھ جڑے بکھرے ہوئے قوم پرست بھی اپنی اداوں پر ذرا غور کریں اور اسی طرح آزادی کشمیر کے لیے بھی یکجا ہوں جیسے تحریک حقوق کے لیے جمع ہوئے۔ مسلم کانفرنس تو ریاستی ہونے کے باوجود کبھی بھی ریاستی نہیں ریی بلکہ مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کشمیریوں کی مجرم ہیں جو برصغیر کی تقسیم کا جھگڑا کشمیر میں لے آئیں۔ البتہ جموں و کشمیر لبریشن لیگ کی بحالی پر سنجیدگی سے غور ہو سکتا ہے جو کشمیر کی آزادی آزاد کشمیر کے تشخص کی بحالی اور کشمیر کو متعدد اور یکجا کرنے کی مدہم آواز ہے۔ اس کی لالٹین میں تیل پڑھ جائے تو آزادی کی شمع روشن ہو سکتی ہے۔ آزاد کشمیر کے نوجوان اس کے منشور اور کے ایچ خورشید کی سوچ کا مطالعہ کریں۔