کشمیری پنڈت کی بھارت داخلے پر پابندی ملک بدر کر دیا۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی۔
===========
کشمیر میں مسلم، پنڈت جھگڑے کی بھاجپا سازش کو بے نقاب کرنے والے پنڈتوں کے لیے نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کی سرزمین بھی تنگ کر دی گئی ہے۔ پنڈتوں کی اکثریت مودی کی اس پالیسی کو بھانپ گئی ہے کہ ان کو آبائی وطن کشمیر سے بھارت منتقل کر کے ان کے ساتھ یونین نے فراڈ اور عیاری کی، جیسے نہرو نے کشمیریوں کے ساتھ کی تھی۔ پنڈت اب کشمیر واپس آکر آبائی وطن میں معمول کی زندگی گزارنا چاتے ہیں، لیکن ریاست ان کو راستہ نہیں دے رہی۔ اب کشمیر میں جو کچھ بھی ہو گا بھاجپا کی پالسی اور اجازت سے ہی ہو گا یہ نوشتہ سری نگر کے درو دیوار پر آویزاں کر دیا گیا ہے ۔ جو پنڈت بھاجپا کی اس پالیسی پر لب کشائی کر رہے ہیں ان کو ریاستی طاقت سے کچلا جا رہا ہے۔ سکھوں کی طرح پنڈتوں کی بھی کثیر تعداد بھارت سے باہر چلی گئی ہے، جہاں وہ مختلف ممالک میں کاروبار سمیت اہم ترین ذمہ دار آسامیوں پر تعینات ہو چکے اور ان کی اکثریت بھارت کی کشمیر پالیسی اور قبضہ پر ناقد ہیں کئی بین الاقوامی اداروں میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گواہی دی۔ وہ چاتے ہیں کہ جموں وکشمیر کا مسئلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہو اور اس کے لیے اگر کسی تحریک کی ضرورت پڑھے تو جموں و کشمیر کے عوام بلا تخصیص مذہب اور عقیدے مشترکہ جدوجہد کریں۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت جموں و کشمیر میں کوئی قیادت منظر پر نہیں اور نہ مستقبل میں کسی قیادت کے پیدا ہونے کی امید ہے جو جموں و کشمیر کی تمام اکائیوں میں یکساں مقبول ہو۔ جموں و کشمیر کے تمام ادیان کے ماننے والوں کو آزادی کے پلیٹ فارم پر جمع کر سکے۔ کشمیریوں کی بدقسمتی ہے کہ 1947 میں جب اس کی تقسیم ہوئی تو قیادت کی سوچ بھی تقسیم تھی۔ وہ تقسیم کسی جگہ رکی نہیں بلکہ کشمیری تقسیم در تقسیم ہوتے گئے۔ یہ تقسیم جغرافیائی ہی نہیں سوچ کے اعتبار سے بھی مزید گہری ہوئی اور ہر علاقے میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تیار ہونا شروع ہوئیں۔ سوچوں کی یہ تقسیم وقت گزرنے کے ساتھ مذید گہری ہوتی گئی جس پر وادی کشمیر کے مسلمانوں نے مہر ثبت کی۔ سچ تو یہی ہے کہ وادی کے مسلمانوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کر کے سب سے زیادہ اپنا ہی نقصان کیا۔ اقصاء چن کے عوام چین کے ساتھ مطمئن ہیں یا نہیں لیکن وہاں سے بے چینی کی کوئی خبر نہیں آ رہی، گلگت بلتستان، پاکستان اور جموں کے عوام بھارت کا صوبہ بننے کے لیے بے چین ہیں، لداخ و کارگل کے عوام ریاست میں واپسی کے لیے سراپا احتجاج ہیں لیکن ان کا کوئی وکیل نہیں، آزاد کشمیر کے عوام کے دونوں ہاتھ گھی شکر اور منہ میں لڈو ہیں ان کا کوئی مطالبہ ہے تو صرف خوب سے خوب تر کا، مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ انہوں نے اپنا قلبی اور ذہنی رابطہ ختم کر دیا۔ پاکستان کی ملٹری، سول اور جوڈیشنری بیوروکریسی میں اعلی عہدے، سیاست کی لوٹ کھسوٹ میں برابر حصہ داری، تھوڑی سی تعداد کو آزادی اور وادی کی فکر کھائی جاتی ہے لیکن چھوٹی ہے بات بکری کی، چھوٹی ہے ذات بکری کی۔ جہاں دنیا داری اور عیش و عشرت کے آلات کے شور میں کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی ہو توطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ایسے میں وادی کے میرے بھائی بہنیں تنگی میں ضرور ہیں لیکن اپنے ہی ہاتھوں کی گانٹھ کو دانتوں سے کھولنے چا رہے ہیں جو کھل نہیں رہی۔ ان کے ساتھ بڑا ظلم ہوا۔ “باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے۔۔۔۔۔۔جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے” ان کو منجدھار میں چھوڑ کر کہا گیا ماضی بھول جاو، اب ان کو نہ مستقبل سامنے ہے نہ ماضی بھولنے والا، منزل ہے کہ روز بروز دور سے دور ہوتی جاتی ہے اور وادی کے لوگ منزل پر پہنچنے کے لیے کسی نئے راستے کا تعین بھی نہیں کر رہے۔ اسی ڈگر پر گامزن ہیں اسی مستی میں ان کے ذہن میں ابھی بھی دوقومی نظریہ زندہ ہے جس کے لیے اندرہ گاندھی نے کہا تھا میں نے خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔ کشمیریوں کو اس وقت کسی نئے رہبر و رہنما کی ضرورت ہے، جس کے خیالات نئے اور جذبے جوان ہوں، جو بین الاقوامی برادری کو قائل کرنے اور پاکستانی قیادت کو دلائل دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جو دنیا کو یہ بتا سکے کہ مسئلہ کشمیر دو ملکوں کا مسئلہ نہیں جنہوں نے خاموشی سے غیر علانیہ حل کر دیا بلکہ ایک قوم کا مسئلہ ہے جو حل طلب ہے اور اس وقت تک حل طلب رہے گا جب تک استصواب رائے نہیں ہو جاتا۔ کشمیری پنڈت بھی یہی چاتے ہیں تب ہی انہوں نے بھاجپا پالیسی کو کھلے عام مسترد کیا۔ لیکن مودی سرکار نے ایسے تمام بااثر پنڈتوں کو ہندوستان سے نکال باہر کیا جنہوں نے پنڈتوں کو آبائی وطن کشمیر سے نکالنے کی سازش کو بے نقاب کیا تھا۔ فروری کے آخری روز بھاجپا حکومت نے کشمیری نژاد برطانوی شہری پروفیسر نتاشا کول جو
برطانیہ کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں سیاسیات کی پروفیسر ہیں کو بنگلورو ایئرپورٹ پر 24 گھنٹے روکنے کے بعد ملک بدر کر دیا۔ کشمیری پنڈت پروفیسر نتاشا کول کو اس وقت روکا گیا، جب وہ کرناٹک حکومت کی دعوت پر’جمہوری اور آئینی اقدار‘ کے موضوع پر ہونے والے دو روزہ سمینار میں شرکت کے لیے بنگلور پہنچی تھیں۔ مبینہ طور پر اس کے بعد اسے کشمیر جانا تھا۔ متاثرہ پروفیسر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی تمام تر دستاویزات پوسٹ کی اور لکھا کہ اُنہیں کوئی وجہ بتائے بغیر ہی بنگلور ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے روک لیا تاہم افسران نے اشاروں کنایوں میں بتایا کہ تم ہندوتوا نظریات اور بھاجپا کی پالیسیوں کے خلاف بین الاقوامی جرائد میں لکھتی اور بولتی ہیں لہذا ہمیں دلی سے حکم ملا ہے کہ آپ کو ملک میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ نتاشا کول نے مذکورہ پوسٹ میں دعوت نامے کی تصاویر بھی شیئر کئیں اور کہا کہ امیگریشن حکام نے تمام تر دستاویزات درست اور مکمل ہونے کے باوجود داخلے سے روک دیا ہے۔ کول نے کہا کہ انہیں 24 گھنٹے بنگلورو ایئرپورٹ پر ہراساں کیا گیا، ہوائی اڈے پر کھانا، پانی یا تکیہ جیسی بنیادی سہولیات سے انکار کیا گیا جو ہوائی اڈے کے بین الاقوامی پروٹوکول کے منافی اقدام ہے۔ واضح رہے کہ پروفیسر نتاشا کول آرٹیکل 370 اور 35۔ اے کی منسوخی کے بعد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق امریکی ہاؤس کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں اہم گواہ کے طور پر پیش ہوئی تھیں۔ اس نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کمیٹی میں سنسنی خیز ثبوت پیش کئے جس کے بعد بھارت کے خلاف ایک جامع رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ پروفیسر نتاشا کول کشمیر کونسل ای یو کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے بارے میں یورپی ہیڈ کوارٹرز برسلز میں منعقدہ پروگراموں میں بھی شریک ہوچکی ہیں۔ پروفیسر کول نے کشمیر سے پنڈتوں کی جبر منتقلی کو بھی بے نقاب کیا تھا اور کئی موقعوں پر کہا کہ کشمیری پنڈت آتنگ بادیوں کی وجہ سے منتقل نہیں بلکہ بھاجپا سازش کا شکار ہوئے۔ اس بین الاقوامی نامور کشمیری خاتون نے ہندی فلم “دی کشمیر فائلس” کو غیر ضروری پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے، اس کے خلاف اپنی مایوسی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ فلم کشمیر کی تاریخ اور سیاست کو ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس فلم نے صرف اسلامو فوبیا کی تصویر پینٹ کی ہے جو ہندوتوا انڈیا کے لیے مفید اور منافع بخش ہو سکتی ہے ۔ بھاجپا حکومت اس سے پہلے بھی کئی کشمیری پنڈتوں کو اسی طرح کا موقف رکھنے پر ملک بدر کر چکی جن میں معروف ادیب و مصنف آتش تاثیر اور اشوک سوین شامل ہیں جب کہ تازہ کارروائی نتاشا کول کے خلاف کی گئی۔ محبوبہ مفتی سمیت کشمیر کی کئی نامور شخصیات نے اس کی مذمت کی ہے لیکن آزادی پسندوں کی سیاسی تنظیم آل پارٹیز حریت کانفرنس میں شامل کسی پارٹی یا خود حریت لیڈر شپ نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔