سال نو کا آغاز ہے۔ سب سے پہلے تو الحمدللہ کہ رب تعالٰی نے زندگی بخشی کہ ان آنکھوں نے سال نو کی صبح طلوع ہوتے دیکھی۔

سال نو کا آغاز ہے۔ سب سے پہلے تو الحمدللہ کہ رب تعالٰی نے زندگی بخشی کہ ان آنکھوں نے سال نو کی صبح طلوع ہوتے دیکھی۔ زندگی کے گزرے ماہ و سال پہ نظر دوڑائیں تو تمام منظر نامے پلک جھپکتے ہی کسی فلم کی طرح دماغ کے پردے پہ چلنے لگتے ہیں۔وقت کا کام ہے گزرتے چلے جانا سو یہ سال بھی وقت کی دھول کی نظر ہو گیا۔
خوشی اور غم، راحتیں اور مشکلیں، رنجشیں اور رونقیں، آسائشیں اور محرومیاں ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ لیکن زندگی کےکسی نہ کسی موڑ پہ ہر انسان پہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جو اسکی زندگی کا
‘Turning point’
ہوتا ہے۔ اور وہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنی زندگی کی تمام خطاؤں، نادانیوں ، رویوں،آزمائشوں اور تجربات سے سیکھنے لگتا ہے۔
کہتے ہیں ناں کہ ‘وقت اور حالات انسان کو سب کچھ سکھا دیتے ہیں۔
اور وقت کی چکی میں پس کہ انسان کندن بن جا تا ہے۔ اور اپنی زندگی میں کامیاب بھی وہی لوگ کہلاتے ہیں جو اپنی زندگی کے تجربات سے سیکھتے ہیں۔
اسکے برعکس کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وقت اور حالات انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان پہ کوئی رنج ہو، خوشی ہو آزمائش ہو ان کی روش جوں کی توں رہتی ہے۔ اور ایسے لوگ وقت سے کچھ اثر نہیں لیتے اور نہ ہی کچھ سیکھتے اور سمجھتے ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی میں تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ اسی حال میں زندگی کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے اور سانسوں کا ربط ٹوٹ جاتا ہے۔سال نو میں ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم بذات خود کس کیٹیگری کے لوگ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آیا ہم نے اپنے آپ کو بدلا؟
کیا ہم نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات و حادثات سے کچھ عبرت یا نصیحت حاصل کی؟ یا ابھی تک اپنے غلط نظریات و افکار کے ساتھ جیے جا رہے ہیں؟ کل بھی ہمارے دلوں میں نفرتیں تھیں! اور آج بھی ہیں۔ کل بھی ہم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف و مگن تھے! اور آج بھی ہیں۔
کل بھی ہم نے قطع رحمی کی! اور آج تک ہمیں صلہ رحمی کی توفیق نہیں ہوئی۔اور آج بھی اسی روش پہ کار بند ہیں۔ کل بھی ہم ناشکرے تھے! اور آج بھی رب کی نعمتوں کے قدردان نہیں۔ کل بھی رب شناسی و خدا خوفی بس نام کی تھی اور آج بھی رب کے قہر و نا راضگی سے بے خوفی کاعالم ہے۔ کل بھی بصارت حق سے محروم تھے! اور آج بھی اندھیر نگری کے مسافر ہیں۔ کل بھی حق گو ئی کی کوئی جستجو نہ تھی! اور آج بھی حق بات پہ لب خاموش ہیں۔
اگر اسطرح سے جینا ہے تو پھر گویا جتنے بھی نئے سال آئیں وہ امید نو اور بہار نو سے خالی ہوں گے۔
پھر یہ جشن و چراغاں کیسا؟
اپنی بربادی پہ تماشا کیسا؟
سعودی عرب ( ام۔حسین)
=================================