سندھ کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے ہمارے ماہرین آبپاشی کیسے اور کہاں ناکام ہوئے ؟ سندھ حکومت اب کیا سوچ رہی ہے ؟ سیلاب سے بچاؤ کے بند ناکافی کیوں ثابت ہوئے ؟
اس حوالے سے آبپاشی کے حلقوں میں کافی بحث ہو رہی ہے ماہرین اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں بدترین تباہی اور انتظامی ناکامیوں کے حوالے سے مختلف وجوہات تلاش کی جارہی ہیں الزام تراشی بھی ہوئی ہے فرائض سے غفلت برتنے اور بروقت مناسب فیصلہ نہ کرنے کے معاملہ اٹھائے جا رہے ہیں لیکن بارشوں سے آنے والا پانی اس قدر زیادہ تھا کہ اس کو موجودہ سسٹم کے اندر رہ کر فوری طور پر سنبھالنا آسان نہیں تھا یا کوئی کتنا بھی بڑا ماہر بیٹھا ہوتا اس تباہی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ۔ جو کچھ ہوا وہ کسی ایک فرد یا کسی ایک دور کی ناکامی یا ناقص منصوبہ بندی قرار دے کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی بلکہ یہ مختلف افسران ذمہ داران اور ماضی کے مسلسل ادوار کی منصوبہ بندی میں ناکامی اور غفلت قرار دی جا سکتی ہے مختلف حکومتیں اور مختلف افسران اور متعلقہ فیصلہ ساز شخصیات عوامی کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے لیکن سوچنا یہ ہے کہ آگے کیا کرنا ہے آنے والے دنوں میں موسمی تبدیلی کے حوالے سے سندھ پر جو اثرات نمودار ہو چکے ہیں ان کے نتائج کی سنگینی میں مزید اضافے کی توقع ہے زیادہ آنے والے خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کی بھرپور تیاری کرنے کی ضرورت ہے موجودہ تباہی اور سیلابی صورتحال نے سندھ کے لوگوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے زندگی میں ترقی کی بجائے تنزلی آئی ہے مزید آگے بڑھنے میں پھر کافی تگ و دو اور وقت لگے گا ۔
ایسے میں سندھ حکومت کیا سوچ رہی ہے اور آنے والے دنوں کے بارے میں کیا فیصلے کیے جا رہے ہیں اس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور سندھ کی سیاسی قیادت اور حکومتی شخصیات کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ ٹھوس منصوبہ بندی کریں اور مستقبل کے بارے میں عوام کو حوصلہ بھی دیں اور یقین بھی دلایا کہ آئندہ ایسی تباہ کن صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کچھ کریں گے ۔
===================================
سندھ کابینہ کا آبپاشی و نکاسی آب کے نظام کی تعمیر نو کیلئے سیلابی تباہی پر کانفرنس بلانے کا فیصلہ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کابینہ کی منظوری سے صوبے میں سیلابی تباہی اور آبپاشی و نکاسی آب کے نظام کی تعمیر نو کیلئے نئے طریقے تلاش کرنے پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آئندہ ممکنہ آفات کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ 2022 کی شدید بارشوں اور سیلابی آفات کے پیش نظر ہمارا دریائی نظام، دریائے سندھ پر پل، نکاسی آب کے نظام جیسے RBOD، LBOD، MNVاور سیلاب سے بچاؤ کے بند وغیرہ تباہی کے اثرات کو روکنے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے ہمیں سیلاب اور آبپاشی و نکاسی آب کے نظام کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کی ضرورت پر بات کرنے کیلئے عالمی بینک سمیت تمام ماہرین کو اکٹھا کرنا ہے تاکہ مستقبل میں موسمیاتی دباؤ کو سامنے آنے والی تجاویز کے مطابق حل کیا جا سکے۔ یہ بات انہوں نے پیر کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ کابینہ کے اجلاس میں صوبائی وزراء، مشیران، معاونین خصوصی، چیف سیکرٹری سہیل راجپوت، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری فیاض جتوئی اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔
محکمہ آبپاشی: وزیر آبپاشی جام خان شورو نے کابینہ کو بتایا کہ مون سون 2022 میں سندھ میں کھیرتھر کے پہاڑوں پر شدید اور موسلا دھار بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں صوبے میں بڑے پیمانے پر سیلاب آیا ،اس سے قبل 2010 کے دریائی سیلاب کے دوران ایک بڑی تباہی واقع ہوئی جس میں دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر ٹوڑی بند کے مقام پر شگاف پڑا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2010 کے سیلاب کے دوران زیرآب رقبہ تقریباً 1.3 ملین ایکڑ فٹ تھا اور پانی کی مقدار تقریباً 4.9 ملین ایکڑ فٹ تھی جبکہ سندھ کے رائیٹ بینک پر حالیہ بارشوں سے متعلق سیلاب کے دوران تقریباً 2.2 ملین ایکڑ کا رقبہ تقریباً 14 ایم اے ایف پانی سے ڈوب گیا،اسی طرح دریائے سندھ کے لیفٹ بینک پر سب سے زیادہ بارش کے باعث 8 ایم اے ایف کے ساتھ تقریباً 14 لاکھ ایکڑ رقبہ زیر آب ہے۔ جام خان نے کابینہ کو بتایا کہ رائیٹ اور لیفٹ بینکوں میں بارش کے پانی کی مجموعی مقدار تقریباً 22 ایم اے ایف بنتی ہے جو تربیلا آبی ذخائر کے حجم سے تقریباً چار گنا ہے۔ آبپاشی اور نکاسی آب کے راستوں میں شگاف اور ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات کی شکل میں 5335 مقامات پر بڑی تباہی ہے جس میں ایف پی بند، سپریو بند، ایم این وی، ایل بی او ڈی، آر بی او ڈی، منچھر بند، چھوٹے ڈیم وغیرہ شامل ہیں۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ سندھ کا کلچر ایبل کمانڈ ایریا 1282 ملین ایکڑ ہے جبکہ نکاسی آب کی سہولت صرف 50 لاکھ ایکڑ کے رقبے کیلئے صرف زرعی زمینوں سے اضافی نکاسی آب کو پورا کرنے کیلئے ہے۔ اس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ دسمبر میں قومی اور بین الاقوامی ماہرین کو مدعو کیا جانا چاہیے تاکہ وہ ہمارے آبپاشی اور نکاسی آب کے نظام کو تیار کرنے میں ہماری رہنمائی کریں اور تبادلہ خیال ہوسکے ۔
سیلاب کی نکاسی: 31 اگست 2022 کو دریائے سندھ کے رائیٹ بینک کے ساتھ تقریباً 1988919 ایکڑ (1.9 ملین ایکڑ) کا رقبہ زیر آب تھا اور پانی کا تخمینہ حجم تقریباً 14 ایم اے ایف تھا۔ دریائے سندھ کے رائیٹ بینک سے تقریباً 70 فیصد پانی نکالا جا چکا ہے، دسمبر 2022 کے آخر تک پورا پانی صاف ہو جائے گا۔ پانی کو موجودہ نکاسی آب کے نیٹ ورک کے ذریعے کشش ثقل کے نظام کے ذریعے نکالا جاتا ہے جب تک کہ پانی کی سطح کو مزید کم کرنے کے لیے پمپنگ اسٹیشنوں کے ذریعے جو نمکین پانی کے نکاسی کیلئے بنائے گئے ہوں جیسے گھر پمپنگ اسٹیشن، علی وال/مہر پمپنگ اسٹیشن،خیرپورناتھن شاہ پمپنگ اسٹیشن، میروخان پمپنگ اسٹیشن، اور (5) دوست علی پمپنگ اسٹیشن شامل ہیں۔ 31 اگست 2022 کو دریائے سندھ کے لیفٹ بینک کے ساتھ تقریباً 1292419 ایکڑ (1.3 ملین ایکڑ) کا علاقہ زیر آب تھااور ابھی 20ستمبر 2022 تک 930855 ایکڑ رقبہ خالی کر دیا گیا ہے جو کہ دریائے سندھ کے لیفٹ بینک کے مجموعی زیر آب رقبے کا تقریباً 72 فیصد ہے۔ لیفٹ بینک کی جانب سے پانی کے نیچے زمین کا بیلنس رقبہ 361564 ایکڑ (0.36 ملین ایکڑ) ہے۔ موجودہ نکاسی آب کے نیٹ ورک (بنیادی طور پر LBOD) کے ذریعے اضلاع شہید بینظیر آباد، سانگھڑ، میرپورخاص، عمر کوٹ، بدین، ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو الہیار جبکہ ضلع نوشہروفیروز، خیرپور، ضلع میرپورخاص اور سانگھڑ وغیرہ کے کچھ مقامات سے گریوٹی کے ذریعے پانی نکالا جا رہا ہے۔ جہاں پانی کی نکاسی کی مناسب سہولت نہیں تھی وہاں کھڑے پانی کو نکالنے کیلئے مختلف آپشنز اختیار کیے گئے جیسے کہ نئے نالوں کی کھدائی کی گئی اور الگ الگ جگہوں پر موبائل پمپ لگائے گئے۔
بحالی کا کام: محکمہ بحالی نے کابینہ کو بتایا کہ اب تک 673867 خیمے، 545012 ترپال، 3.4 ملین مچھر دانیاں، 1.995 ملین راشن بیگ، 807057 لیٹر پینے کا پانی اور 178980 کمبل سیلاب سے متاثرہ افراد میں تقسیم کیے جا چکے ہیں۔مجوزہ تمام اشیاء پی ڈی ایم اے، این ڈی ایم اے، پاک بحریہ، پاک فضائیہ اور دیگر اداروں نے تقسیم کی ہیں۔
ڈاکٹروں کیلئے وظیفہ: سیکرٹری صحت ذوالفقار شاہ نے کابینہ کو بتایا کہ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز نے پوسٹ گریجویٹ وظیفہ 73000 روپے سے بڑھا کر 104390 روپے ماہانہ اور ہاؤس افسرز کا وظیفہ 40000 روپے سے بڑھا کر 69600 روپے ماہانہ کر دیا ہے۔ کابینہ نے محکمہ صحت کی تجویز پر غور کیا اور اسے وفاقی وزارت نیشنل ہیلتھ سائنس کے وظیفہ کے برابر بنانے کی منظوری دی۔
=================================